بھٹکتی قانون سازی اور پارلیمنٹیرین (آخری حصہ)

کشور زہرا  منگل 26 ستمبر 2017

ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے ہزاروں جانیں لے لیں، لہٰذا میں نے دو عدد بل ’’لاوارث بچوں کی رجسٹریشن اور علما، پیش امام و مذہبی اسکالر 2013‘‘ پیش کیا، جس میں لاوارث بچوں کی شناخت کے لیے سرکاری رجسٹریشن کو اس لیے ضروری سمجھتی ہوں کہ دہشت گرد عرصہ دراز سے ان معصوموں کو اپنا آلہ کار بنائے ہوئے ہیں اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب سائیکل، موٹرسائیکل، گاڑی، گدھاگاڑی، ہر شے کی رجسٹریشن لازمی ہے تو ایسے بچے جو مختلف وجوہات کے باعث لاوارثی کے زمرے میں آتے ہوں تو ان کی رجسٹریشن کیوں نہیں؟

دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دوسری تجویز جو ایک مکمل جامع بل کی صورت میں پیش کی گئی کہ علما، پیش امام و مذہبی اسکالرز کی فلاح و بہبود کو بذریعہ بورڈ سہولتیں فراہم کی جائیں، لیکن یہ دونوں بل ایوانوں کی بھول بھلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ بھول بھلیوں کا لفظ اس لیے استعمال کررہی ہوں کہ بعض اوقات یہ فیصلہ ہی نہیں ہوپاتا کہ کون سی وزارت اس کو قبول کرے گی۔

اس بل کا اصل مقصد مذہب کے حوالے سے بنیادی تعلیم کے ذریعے جامع اور صحیح علم سے روشناس کروانے والے عالم، خطیب، اسکالر کی ذمے داری ریاست لے، جس سے ان معزز شہریوں کو وہ مقام دیا جائے جہاں ان کا مشاہیرہ، رہائش اور ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمے داری ریاست کی ہو، اور مساجد رجسٹرڈ ہوں، ممبر صحیح گفتگو کا پابند ہو اور وہ بھی ریاست کے سامنے جوابدہ ہوں، ان کا سرٹیفائیڈ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔

یوں کہنے کو تو اسلام آباد کی حدود میں86 مساجد رجسٹرڈ ہیں، ان کی ذمے داری ریاست نے لی ہوئی ہے اور ان مساجد کے مشاہیرے بھی بندھے ہوئے ہیں لیکن کیا اس کے جواب میں انھیں پابند کیا گیا ہے کہ منافرتوں سے بالاتر گفتگو کی جائے۔ کیا طلبا و طالبات کو کوئی مثبت پیغام مل رہا ہے؟ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔

سرکاری ملازمین کی مراعات اور ریٹائرمنٹ سے قبل واجبات دینے کی پابندی کو لازمی قرار دینے کے لیے ’’سول سرونٹ ترمیمی بل 2015‘‘ بہتر تجاویز کے ساتھ اسمبلی میں قانون سازی کے لیے جمع کروایا جو کسی حد تک عبوری سطح پر نافذالعمل ہورہا ہے، امید ہے کہ باقی ماندہ سفارشات پر بھی جلد عملدرآمد ہوگا۔ اس کے علاوہ بغیر وارنٹ گرفتاری اور شناخت کا بل 2015 اسمبلی میں متعارف کروایا ہے۔ جس میں گرفتار کرنے والے آفیسر کو اپنی شناخت کروانا لازمی ہوگا، اس کے نفاذ سے بغیر وارنٹ گرفتاری اور لاپتہ کردینے کے عمل کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ یہ بل اسمبلی میں زیر التوا ہے۔

بے گھر افراد یا وہ جو کرائے کے مکانات میں رہتے ہیں، سرکاری سطح پر باقاعدہ اسکیم نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، ایسے افراد کے لیے ’’ہاؤسنگ پالیسی بل 2017 ‘‘ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے، اور اپنی مفصل تجاویز اس امید کے ساتھ شامل کی ہیں کہ یہ بل جلد از جلد منظور کیا جائے، تاکہ پھر کوئی شخص ریٹائرڈ ہوجانے کے بعد بے گھر ہوجانے کے خوف سے خودکشی نہ کربیٹھے، کیونکہ اپنی چھت کا نہ ہونا بھی ایک المیہ ہے۔ رہائش کا تحفظ دینا ہی اس بل کا اصل مقصد ہے۔

ہمارے عدالتی نظام میں ایسی کوئی خصوصی عدالت یا ٹریبونل قائم نہیں ہے، جس میں صرف فرد کے معاوضہ یا مالی نقصان پہنچنے کی صورت میں اس کی دادرسی کے لیے مقدمہ سنا جائے، لہٰذا اس مقصد کے لیے ’’خصوصی عدالت یا ٹریبونل بل2017  ‘‘ آئینی ترمیم کے لیے پیش کیا ہے، یہ بل اسمبلی میں جمع کروایا جاچکا ہے، جس میں آیندہ سیشن کے دوران کارروائی متوقع ہے۔

قدرتی یا انسان کی پیداکردہ آفات وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں، تاہم ہمارے ملک میں اس قسم کے واقعات اور ہنگامی صورت حال میں نظم و ضبط پر مبنی رویہ اختیار کرنے کے بجائے بے ہنگم طریقے کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے، جو مزید پریشانیوں کا باعث بنتا ہے اور ان آفات سے نمٹنے کے لیے عسکری قوتوں کو میدان عمل میں اترنا پڑتا ہے، جب کہ ان کے اوپر سرحدوں کی مکمل حفاظت اور سالمیت کی ذمے داری ہی ایک بہت بڑا کام ہے، خصوصاً موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سول سوسائٹی کو ان کی سپورٹ کے طور پر تیار رہنا چاہیے اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی تمام تر معلومات سے لیس رہنے کے لیے شہری دفاع، اسکاؤٹس، گرلز گائیڈ، ابتدائی طبی امداد اور شہری نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے تربیتیں ہونی چاہئیں، جب کہ گزشتہ تین دہائی سے یہ سب کچھ نظرانداز کردیا گیا ہے۔

لہٰذا ایسے تربیتی کورسز کو لازمی قرار دینے کے لیے میں نے دستور کے آرٹیکل 5 کی ذیلی دفعہ2 میں اضافی ترامیم شامل کرکے اسمبلی میں پیش کی ہیں۔ اس بل میں 16 سے لے کر 25 سال تک کی عمر کا ہر شہری لازمی قومی تربیت میں حصہ لے گا۔ یہ ترمیم بھی اسمبلی میں متعارف ہوچکی ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر وزارت کب فیصلہ کرتی ہے اور کب عملدرآمد ہوتا ہے۔

انصاف کا جلد اور آسان سطح پر ملنا معاشرے میں انتشار سے بچنے کی علامت ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے میں نے آئین کے آرٹیکل 198 میں ترمیمی بل2017، جس میں ہائی کورٹ کی مزید بینچز کے قیام کی ترمیم ڈالی ہے۔ انصاف جلدی نہ ملنے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ1973 کا آئین بناتے وقت پاکستان کی آبادی تقریباً12  کروڑ تھی، جس کے لیے چاروں یونٹ یعنی سندھ میں کراچی کے علاوہ ہائیکورٹ کی حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں بینچ، پنجاب میں لاہور کے علاوہ ملتان، بہاولپور، راولپنڈی، جب کہ فیصل آباد میں بینچ بنانے کے لیے احتجاج جاری ہے، KPK پشاور میں ہائیکورٹ اور بینچ مردان، ایبٹ آباد اور بنوں، بلوچستان میں ہائیکورٹ کوئٹہ اور بینچ تربت اور خضدار میں ہے، لیکن 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی تقریباً 22 کروڑ بتائی گئی ہے، عوام کی رائے اس سے اتفاق نہیں کرتی، سو اتنی بڑی آبادی کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مستقل بینچوں کا قیام ضروری محسوس ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ انصاف کے لیے پہنچنا مشکلات پیدا کرتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ انصاف عوام کے دروازے پر ہونا چاہیے۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے اضافے کی بات کرتے ہوئے میں نے اس بل کے ذریعے صوبے کی ہائیکورٹ کی بینچ ہر ڈویژن کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے تجویز پیش کی ہے، جو اپنے ابتدائی مراحل عبور کرچکی ہے اور قانون سازی کے لیے اراکین اسمبلی کی تائید کی منتظر ہے۔

پارلیمنٹیرین کے سامنے مضبوط بیوروکریسی، جو یہ بھی جانتی ہے کہ یہ پارلیمنٹیرین آج ہیں کل نہیں، لیکن ہم تو آج بھی (اراکین اسمبلی) ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ نوکر شاہی کی جانب سے بات عموماً ’’نہ‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ میری جانب سے عوامی فلاح و بہبود اور مستحکم پاکستان کے نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے لیے جو بل قانون و آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے ہیں میں چیلنج کرتی ہوں کہ وہ وفاق کی تمام اکائیوں اور ملک میں بسنے والے ہر پرامن شہری کے لیے نہ صرف ذاتی سطح پر فائدہ مند ہے بلکہ ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو کسی طور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی نمایندوں کی جانب سے کیے جانے والے قانون سازی کے اقدامات کو اہمیت دی جائے، جو خالصتاً عوام کی آواز ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔