روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اورعالمی ضمیر( پہلا حصہ)

شبیر احمد ارمان  منگل 26 ستمبر 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اگست 2017ء کے اوائل میں میانمارکی سیکیورٹی فورسز نے مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے بعد میانمارکی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمان باغیوں نے پولیس کی 30 چیک پوسٹوں اور فوجی اڈے پر بیک وقت حملے کیے جس میں 12سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے، جوابی کارروائی میں 59جنگجو بھی مارے گئے تھے۔

میانمار فوج کے مطابق مسلح روہنگیا مسلمانوں نے منظم انداز میں یہ حملے جمعرات 24اگست اور جمعہ 25اگست 2017ء کی درمیانی شب کے درمیان کیے تھے، جھڑپوں کے نتیجے میں فوج کو بلانا پڑا ، حملوں کی ذمے داری ارکان روہنگیا سالویشن آرمی اور حرکتہ الیقین نے قبول کرلی ہے، اقوام متحدہ نے حملوں کی مذمت کی۔

شورش زدہ شمالی ریاست راکھین میں ایک بار پھر تشدد کی آگ بھڑک اٹھی تو ہزاروں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ شروع میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی تلاش کرنے والی 2 ہزار روہنگیا خواتین و بچے میانمار اور بنگلادیش کے سرحدی علاقے پر جمع ہوئے تو انھیں بنگلادیش میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، اس دوران شدید بارش ہوئی جس کے باعث پیٹرولنگ میں نرمی کا فائدہ اٹھا کر سیکڑوں افراد سرحد پارکرگئے۔

ادھر میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے رخائن میں پر تشدد واقعات کے بعد مزید ہزاروں روہنگیا مسلمان علاقے سے نقل مکانی کرکے بنگلادیش میں داخل ہونے لگے ۔ جب روہنگیا مسلمان پناہ گزین سرحد عبور کرنے کی کوشش کررہے تھے تو ان پر برمی فوج نے فائرنگ کی جس سے 12پناہ گزیں زخمی ہوئے ۔ بنگلادیش میں بلا کھلی کے علاقے میں قائم عارضی کیمپ میں آنے والے روہنگیا مسلمان اپنے ساتھ دل دہلادینے والی کہانیاں لائے ہیں جنھیں سن کر انسانیت کو بھی شرم آرہی ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج ان کے گھروں کو نذر آتش اور ان پر حملے کررہی ہے ، روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں پولیس مدد کررہی ہے ، سرحد پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے کے بعد سے متعدد روہنگیا مسلمان مہاجرین ان کی زد میں آچکے ہیں ، پناہ کی تلاش میں مہاجرین کی کشتیاں زیادہ سواری کے نتیجے میں دریا میں ڈوب رہی ہیں، جس سے ہلاکتیں ہورہی ہیں، رخائن سے بنگلادیش نقل مکانی کے دوران ہزاروں روہنگیا مسلم خواتین اور بچیوں کے لاپتہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس میں بڑی تعداد کو بدھا انتہا پسندوں اور برمی فوج نے اغواء کرلیا ، حملوں کے دوران درجنوں خواتین کی عصمت دری کی گئی اور انھیں زندہ جلا دیا گیا ، بنگلادیش میں بالو خالی کیمپ میں پہنچنے والے لٹے پٹے قافلے اپنے پیاروں کے لیے تڑپ رہے ہیں،کبھی اس کیمپ میں تو کبھی اس کیمپ میں چکرکاٹ رہے ہیں کہ کس طرح ان کے بچھڑے ہوئے پیارے مل جائیں ۔

میانمار میں حالیہ مسلم کشی کی داستان انتہائی درد ناک ہے، روہنگیا مسلمانوں کو زندہ جلا یا گیا اور معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا، گھروں کو آگ لگا دی گئی اور سونا چاندی اور قیمتی اشیا لوٹ لی گئیں، بستیوں پر حملے کے دوران کسی کو ہوش نہ تھا ہر کوئی ادھر سے ادھر بھاگا جارہا تھا جان بچاتے ہوئے جب روہنگیا مسلمان مسجدوں میں پناہ لینے لگے تو ظالم برمی فوجیوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا کیا اور مسجدوں پر دھاوا بول دیا ، مسجدوں کی بیرونی دیواروں پر پٹرول اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی ، برمی فوجی بچوں ، بوڑھوں اور خواتین کو مسجد سے نکال کر ذبح کرتے رہے۔

روہنگیا مسلمان راتوں کو سو نہیں پاتے تھے وہ اپنے اپنے گھروں میں خصوصی عبادت میں مصروف رہتے تھے اور اس دوران سفاک برمی فوجیوں کے ساتھ بدھسٹ انتہا پسند غنڈوں نے علاقہ کیندم کو گھیرے میں لیا اور رات چار بجے گھروں سے مردوں کو نکالنا شروع کردیا ، خواتین اور بچوں کو گھروں میں قید کرلیا اور مردوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔

بدھ انتہا پسندوں نے علاقہ کیندمکے کئی گھروں میں گھس کر خواتین سے زیادتی بھی کی اورکئی گھر جلا دیے ، نقل مکانی کرنے والے قافلوں پر بھی بدھ دہشت گردوں نے حملے کیے اور کئی درجن افراد شہید ہوگئے ، برمی دہشت گرد چن چن کر مردوں کو نشانہ بناتے ،اور ان کے خواتین کو ایک طرف بٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہر طرف سفاکیت تھی ، نفسانفسی کا عالم تھا ، ہر قافلے سے 75اور100کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کی کوئی خیر خبر نہیں کہ وہ کہاں گئے ، وہ لاپتہ ہیں ، اغوا ء کرلیے گئے یا انھیں قتل کردیا گیا ؟، ہر دوسرے خاندان سے افراد لاپتہ ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ اس لیے اب میانمار حکومت کو شک کا فائدہ دینے کا وقت ختم ہوگیا ہے ۔ میانمار فوج کی مسلم کش کارروائیوں میں درندگی کی ایک اور ایسی مثال سامنے آگئی ہے کہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جائے ۔ سفاک برمی فوجیوں نے دوران زچگی مسلمان روہنگیا خاتون پر گولیاں چلائیں ، جان بچاکر میانمار سے بنگلادیش پہنچنے والی خاتون نے برطانوی اخبار کو ہجرت کی بھیانک داستان بیان کی۔

میانمار کے شمال مغرب میں فوج اور انتہا پسند بدھ بھکشوں نے روہنگیا مسلمانوں کے مزید آٹھ دیہات نذر آتش کردیے، جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے پناہ لے رکھی تھی ۔ میانمار کے اندر بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیز کا کیمپ بھی شعلوں کی نذر کردیا گیا جہاں تین سو سے چار سو روہنگیا مسلمان رہائش پذیر تھے ۔

روہنگیا مسلمانوں کی بد قسمتی نے بنگلادیش میں بھی پیچھا نہ چھوڑا ، بنگلادیش حکومت کی جانب سے مہاجرین کے کیمپوں میں تشدد کے واقعات روز بہ روز زور پکڑتے جا رہے ہیں حکومت کی جانب سے فوری طور پر نکلنے کے احکامات افسوس ناک ہیں ۔یاد رہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران کم از کم چار لاکھ بارہ ہزار روہنگیا مسلمان میانمار میں جاری تشدد سے جان بچاکر بنگلادیش پہنچ چکے ہیں۔

بنگلادیش میں قائم کیمپ میں پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کے پاس نہ تو پیسے ہیں اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان موجود ہے، بنگلادیش کے روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے بھی ہلاکتیں ہورہی ہیں ۔ علاوہ ازیں بنگلادیش کے علاقے کاکس بازار میں بدمست ہاتھیوں نے دو معمر روہنگیا مہاجرین کو کچل کر ہلاک کردیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق بنگلادیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں اشیائے خورو نوش کی قلت سمیت میڈیکل سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، بروقت طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ میانمارکی فوج کے حملوں سے بچ کر بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں میں ساٹھ فیصد تعداد بچوں کی ہے ، اب تک چودہ سو ایسے بچوں کو شمارکیا جاچکا ہے جو اپنے والدین کے بغیر میانماکی سرحد عبور کرکے بنگلادیش پہنچے ہیں، روہنگیا بحران کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد شیر خوار بچے بھوک سے بلکنے لگے ہیں۔

بنگلادیشی کیمپوں میں مقیم دو لاکھ تیس ہزار بچے بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں، باون ہزار حاملہ خواتین بھی امداد کی منتظر ہیں ۔عالمی برادری کو پہلی فرصت میں میانمار کے مسلما نوں کو بچانے کے لیے مدا خلت کرنی چاہیے تھی لیکن اقوام متحدہ کے فیکٹ فائینڈنگ مشن کومیانمار میں داخلے کی اجازت نہیں ہے ، اگر خدانخواستہ میانمار حکومت کی جگہ کوئی مسلم ملک ایسے کچھ مظالم کرتا تو دنیا بھر کے ممالک ایک ہوکر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگاتے، جس کی مثال افغانستان ، عراق ، شام ، مصر کی ہے جنھیں سبق سیکھانے کے لیے راتوں رات فیصلے کیے گئے تھے، جب کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے سفاک برمی حکومت کی طرف سے اجازت کا انتظارکیا جا رہا ہے جوکہ افسوس ناک بات ہے۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔