ہم سب کہانی ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 27 ستمبر 2017

کسی کو اپنا یا دشمن بنانے کے لیے بس ایک ہی ادا کافی ہوتی ہے، باقی ادائیں تو وقت کے ساتھ ساتھ بوجھ لگنے لگتی ہیں۔ جب ہمارے سابق وزیراعظم بات بات پر یہ چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھا رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا تو وہ حقیقت میں اپنے کمزور ہونے کا بر ملا اعتراف کررہے تھے۔ ظاہر ہے نکالے جانے والے سے نکالنے والا زیادہ طاقتور ہوتا ہے، نکالے جانے سے پہلے وہ اپنے آپ کو ہر ادارے اور ریاست سے زیادہ طاقتور سمجھنے کی ادا کا کھلے عام شکار ہوگئے تھے۔

وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ انھیں ہر جائزوناجائز کام اور اپنی من مانی کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور جیسے ہی وہ اپنی اس ادا کے ہاتھوں نااہل اور سند یافتہ ہوئے تو انھوں نے پھر بھی عقل وشعور سے کوئی کام نہیں لیا اور نہ ہی انھوں نے اپنی ادا ترک کی اور نہ ہی اس کے دشمن بنے بلکہ الٹا اسی ادا کے ہاتھوں مجبور ہوکر ریاست کے مضبوط اداروں کے جن پر ریاست کھڑی ہوئی ہوتی ہے دشمن بن گئے۔ انھوں نے اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں نے وہ وہ باتیں جو وہ پہلے بند کمروں میں کیا کرتے تھے پھر سرعام اور کھلے عام کر ناشروع کر دیں۔

دنیا کی تاریخ آپ پہلے روز سے لے کر آج تک کی بار بار پڑھ کر دیکھ لیں روز اول سے لے کر آج تک کوئی بھی شخصیت جب سے ریاست کا وجود عمل میں آیا ہے اس سے ز یادہ طاقتور اور مضبوط نہیں ہو سکی اور نہ ہی ہوسکتی ہے جب بھی کسی نے اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھنے کی شرمناک غلطی کی تو پھر اس نے اپنی اس غلطی کا خمیازہ جس طر ح بھگتا۔ ان سب کے قصے ہم مزے لے لے کر پڑھتے اور سنتے ہیں ہم آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اورکہانی بن جاتے ہیں۔

ہمارے بعد آنے والے ہماری کہانی پڑھتے اور سنتے ہیں اور پھر پڑھنے اور سننے والے خود کہانی بن جاتے ہیں جسے ان کے بعد آنے والے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ انسان کی صرف اتنی سی ہی کہانی ہے چنگیز خان، فرعون، شاہ ایران، قارون، ہلاکوخان، ہٹلر، مسولینی، صدام حسین اب سب کہانی ہیں اگر انھیں دنیا میں واپس آنے کی خصوصی اجازت مل جائے تو پھر ان سب کی کہانیاں ان کہانیوں سے یکسر مختلف ہوں گی، جو وہ پہلے بنا چکے ہیں اور اپنی پرانی کہانی پر اتنی زو زور سے قہقہے لگا رہے ہونگے کہ آس پاس کے بچے ڈر کے مارے ماؤں کی گودوں میں دبک کے رہ جائیں گے اور ان کے دوسرے انسانوں کو دیے جانے والے لیکچرز تو سننے کے قابل ہونگے جن میں وہ ہاتھ جوڑ کر رو رو کر لوگوں سے التماس کررہے ہونگے کہ خدارا خود بھی چین و سکھ وامن سے رہو اور دوسروں کو بھی سکھ وچین و امن سے رہنے دو اگر خدا تمہیں کوئی منصب، عہد ہ،اختیار اور طاقت دے تو انھیں انسان اور انسانیت کی خد مت کے لیے استعمال کر نا ان سے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ کہ ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا اور یہ کہ ہم میں سے کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے۔

ہم آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں خدا نے کسی بھی انسان کو بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا ہے ہمارا مقصد اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق باقی انسانوں کی خدمت کرنا ہے۔ ڈیل کارنیگی نے بتایا تھا کہ ’’30 سال قبل مجھ پر ایک ایسا راز افشا ں ہوا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی آج میں آپ کوبھی اپنا ہمراز بناتا ہوں یہ کوئی لمبی چوڑی بات نہیں بلکہ صرف چار الفاظ پر مشتمل ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں’’آپ کی حدود مصنوعی ہیں‘‘ ہمارے ملک کے حکمرانوں کو یہ ہی چار الفاظ تمام ایوانوں میں ایسی ایسی جگہ کنندہ کردینے چاہیں کہ ان کی نظریں ہر وقت ان چار الفاظ پر پڑتی رہیں تاکہ وہ خود بھی چین اور سکھ سے رہیں اور ملک کے تمام اداروں اور عوام کو بھی چین اور سکھ سے رہنے دیں۔

دنیا میں ہر شخص مسرت کا متلاشی ہے پہلے، روز سے لے کر آج تک کے سب انسانوں کی ساری زندگی اسی مسرت کی تلاش میں گزرتی آرہی ہے۔ چنگیز خان سے لے کر صدام حسین تک قارون سے لے کر شاہ ایران تک سکندر اعظم سے لے کر ہارون الرشید تک۔ ان سب کے پاس دنیاکی کس چیزکی کمی تھی۔ ان کے پاس دولت، طاقت اختیار سے لے کر محلوں، زمینوں، جائیداد کے اتنے خزانے تھے کہ ان کی صحیح تعداد کے بارے میں انھیں خود بھی علم نہیں تھا کیا آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب اپنی اپنی زندگیوں سے خوش تھے؟ یاد رکھیں آپ کی خو شی یا ناخوشی کا انحصار اس بات پر نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے ؟ یا آپ کون ہیں؟ یا آپ کہاں ہیں؟آپ کیا کررہے ہیں؟ بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر دو آدمی ایک مقام پر ہوں۔ ان کا کام بھی ایک ہو دونوں کے پاس برابرکا سرمایہ ہو محلات اور جواہرات کے ڈھیر ہوں اور دونوں کی عزت اور وقار بھی برابر ہو پھر بھی ان میں سے ایک غمگین اور ایک شادمان ہوسکتا ہے کیوں؟ صرف اپنے الگ الگ ذہنی رحجان کے سبب۔

شیکسپیئر نے کہا تھا ’’کوئی چیز بذات اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ صرف ہماری سوچ اسے اچھا یا برا بنا دیتی ہے‘‘ یہ تمام شخصیات یقیناً مختلف ذہنی رحجان رکھتی تھیں لیکن ان سب میں ایک بات یقیناً مشترک تھی کہ یہ سب اس قدر خود غر ض تھے کہ انھیں اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ان سب کی روحیں چھوٹی اور تنگ تھیں ان کی زندگی خود سے شروع ہوتی تھی اور خود پر آکر ختم ہوجاتی تھی انھوں نے مصنوعی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے ان گنت اپنے جیسے انسانوں کی خو شیاں ان سے لوٹ لیں لیکن پھر بھی انھیں وہ معمولی خوشیاں تک حاصل نہیں ہوسکیں جو عام انسانوں کو با آسانی حاصل ہوجاتی ہیں ان سب کے اعترافات تاریخ میں محفو ظ ہیں سب کے سب آخر میں بہت پچھتائے اور ان کے پاس صرف پچھتانے کے علاوہ اور کچھ نہ بچا۔

سکندر اعظم نے آخر وقت میں کہا تھا ’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر مو ت نے مجھ کو فتح کر لیا افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کوحاصل ہوتا ہے۔‘‘ نپولین بونا پارٹ کے آخر ی احساسات یہ تھے ’’مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں‘‘ ہارون الرشید نے آخر عمر میں کہا ’’میں نے بے حد غم اور فکر کی زندگی گزاری ہے زندگی میں کوئی دن ایسا نہیں جو میں نے بے فکری کے ساتھ گزارا ہو‘‘ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا ’’اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا۔‘‘ مارکیوز اور لیوس نے کہا تھا ’’میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سابق حکمرانوںکے آخری احساسات تاریخ میں کیا رقم ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔