خدا خیر کرے

زاہدہ حنا  بدھ 27 ستمبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

حیدرآباد میں ترقی پسندوں کی ایک محفل ہے جس میں جام ساقی اور کئی دوسرے سیاستدان اور ادیب آئے ہوئے ہیں۔ ان میں احمد سلیم بھی موجود ہیں، وہ مجھے بنگلہ ادیب اور 1971 کی جنگ آزادی میں سیاسی طور پر متحرک اور نامور خاتون جہاں آرا امام کی 71 کی ڈائری کا اردو ترجمہ ’71ء کے وہ دن‘دیتے ہیں۔ یہ کتاب اردو میں منور مہدی نے ترجمہ کی اور اسے لاہور سے جمہوری پبلکیشنز نے شایع کیا ہے۔

منور مہدی کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ بہ طور مترجم ان کا نام تلاش کرنے سے ملتا ہے، مستفیض الرحمن نے Of Blood and Fire کے نام سے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جسے میں نے لندن میں عزیز دوست ششی سنگھ کے گھر پر پڑھا تھا۔ ششی نے ازراہ محبت اس کتاب کو مجھے یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ شاید تمہیں کسی وقت اس کی ضرورت پڑے۔ یہ اپریل 1992 کے دن تھے جب جہاں آرا امام نے اپنی اس کتاب پر ششی کو بہت محبت سے لکھ کردیا تھا۔

یہ مشرقی بنگال کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی ڈائری ہے۔ خون اور آنسوؤں میں بھیگی ہوئی۔ جہاں آرا دو بیٹوں کی ماں ہیں، شوہر اس وقت کے مشرقی پاکستان میں سول انجینئر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جہاں آرا سدھیوری گرلز اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے طور پر تعینات ہوتی ہیں۔ وہ ایک معمولی اسکول ہے جسے چند برسوں میں ہی جہاں آرا ڈھاکا، کا ایک بہترین اسکول بنا دیتی ہیں۔

مشرقی بنگال جس کے ووٹوں کے طفیل پاکستان وجود میں آیا، مشرقی بنگال کے اس کرم کو مغربی پاکستان کی ملٹری اور سول بیورو کریسی کے ساتھ ہی یہاں کے عوام کی اکثریت بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس ناانصافی کا احساس مشرقی بنگال کے عوام کے سینوں میں طیش کی آگ بھڑکا دیتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، ایک ایسا باب جو آگ کے شعلوں سے جھلسا ہوا ہے اور جس کے ورق آنسوؤں اور خون میں بھیگے ہوئے ہیں۔

یہ محض اتفاق ہے کہ دلی سے نکلنے والے انگریزی اخبار ’ڈان‘ جس کی بنیاد، بانی ٔ پاکستان نے رکھی تھی، وہ گزشتہ 70 برس کی تاریخ کا با تصویر ضمیمہ شایع کررہا ہے۔ اس نے 1969 سے 1971تک کے ان برسوں کا مختصر ترین روزنامچہ چند دنوں پہلے شایع کیا ہے۔ اس میں حرف آخر کے طور پر جنرل نیازی کی وہ تصویر ہے جس میں وہ جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کررہے ہیں۔

2011 میں ڈھاکا سے واپسی پر میں نے ’’وہ دیس جو کبھی میرا بھی تھا‘‘ لکھا تھا۔ اپنے اس کالم کے آغاز میں لکھا تھا کہ : ’’کیا دانش مند اور دانش جُو اقلیت تھی جس نے اپنی اکثریت کی جائز جمہوری خواہشوں اور مطالبوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے بہتر یہ جانا کہ ان کے سامنے ہتھیار ڈالیں جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری رائے کے احترام سے اتنی شدید نفرت شاید ہی کہیں اور کی جاتی ہو۔ اس صورتحال کا تجزیہ پاکستان کے معتبر تاریخ داں کے کے عزیز نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لوگ مجموعی طور پر پاگل ہوگئے تھے۔

انھوں نے اس بات کا اہتمام کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہمارے بنگالی بھائی ہمیں چھوڑ جائیں۔ پریس بھی برابر کا ذمے دار ہے۔ کاروباری لوگوں نے بھی بنگالیوں کا استحصال کیا۔ جو سرکاری ملازم مشرقی پاکستان میں متعین تھے وہ بنگالیوں کو ’’کمّی‘‘ سمجھتے تھے۔ اور یقیناً فوج جو بعد میں وارد ہوئی، اور سیاستدان جو کسی طور اس پر یقین رکھتے تھے کہ مشرقی پاکستان سے نوآبادی کا سا سلوک جاری رکھا جائے۔ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں شاید کسی پہلو پر اختلاف کریں، کسی مسئلہ پر، کسی اصول پر مگر ان میں سے کوئی بھی اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ بنگالیوں کی اکثریت ان پر حکمرانی کرے جو کہ جمہوریت کا تقاضہ تھا۔‘‘

جہاں آرا امام کی اس ڈائری کا آغاز یکم مارچ 1971 سے ہوتا ہے جب وہ کرکٹ میچ دیکھ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر آنے والے بیٹے رومی کی فرمائش پر جناح ایونیو اسنیک بار سے دو درجن ڈنر رول خرید کر گھر آتی ہیں۔ متوسط طبقے کا ایک پڑھا لکھا گھرانہ، سیاست، ادب اور ایکٹوازم سے جس کا گہرا ناتا ہے۔ انتخابات کے بعد مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں اور ملٹری سٹبلشمنٹ کے درمیان جو تناتنی چل رہی ہے، اس کے بارے میں دوسرے بنگالی گھرانوں کی طرح یہ خاندان بھی تشویش میں مبتلا ہے لیکن اسے یقین ہے کہ جیت جمہوری اصولوں اور ضابطوں کی ہوگی۔

یکم مارچ 1971کو جہاں آرا امام نے جب اپنی ڈائری لکھنی شروع کی اور یہ جملہ درج کیا کہ ’’آج ایک بجے دوپہر صدر جنرل یحیٰی نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ہے‘‘ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آگ اور خون کا کیسا بھیانک ناچ شروع ہونے والا ہے۔ وحشت اور بربریت کا وہ کھیل کھیلا جانے والا ہے جس میں لاکھوں لوگ اور گھرانے خاک اور راکھ ہوجائیں گے۔

جہاں آرا امام کے شوہر اور ایک جواں سال بیٹا اس آگ میں بھسم ہوئے۔ ان گنت نوجوان غائب ہوئے، غائب ہوئے یا مار دیے گئے۔ ماؤں کا کلیجہ شق ہے۔ بیٹا کس حال میں ہے؟ شوہر پر کیا گزری؟۔ جہاں آرا بھی اسی عذاب میں گرفتار ہیں۔ ان کی اذیت کا اندازہ 29 اکتوبر 1971 کے اس یک سطری اندراج سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’آج سے ٹھیک 60 روز قبل رات کے بارہ بجے فوجی میرے رومی کو لے گئے تھے۔‘

اس ڈائری کے صفحات میں آگے بڑھتے جائیں، تو عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی ایسی بھیانک داستانیں ہیں جو نقل نہیں کی جاسکتیں۔ کبھی کرفیو لگ رہا ہے اور کبھی گھروں پر چھاپے پڑرہے ہیں، نوجوانوں اور مردوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اپنے گھروں سے اٹھائے جانے والے واپس آئیں گے یا نہیں۔

20 نومبر 1971 عید کا دن ہے۔ جہاں آرا لکھتی ہیں:’’آج عید کا دن ہے۔ عید کا کوئی اہتمام نہیں ہوا، ہمارے گھر میں۔ کسی کے کپڑے نہیں خریدے گئے۔ دروازے اور کھڑکیوں کے پردے نہیں دھلے، مکڑیوں کے جالے صاف نہیں ہوئے۔ بیٹھک خانے کی میز پر عطر دان نہیں رکھا۔ لیکن سحر کے وقت اٹھ کر میں نے عید کی سویاں اور زردہ تیار کیا۔ اگر رومی کا کوئی ساتھی آج گھر میں آئے؟ والدین، بھائی، بہن، کنبے سے جدا کوئی گوریلا اگر رات کے اندھیرے میں گھر میں آجائے؟ ان کو کھلانے کے لیے میں نے پلاؤ، قورمہ، کوفتے اور کباب پکائے ہیں۔ ان میں سے کوئی اگر آئے تو میں چپکے چپکے اپنے ہاتھوں سے نکال کر کھلاؤں گی۔ ان کی قمیص پر لگانے کے لیے عطر کی ایک شیشی بھی خرید کر چھپا رکھی ہے۔‘‘

ان کے شوہر پر اگست کے مہینے میں تشدد کیا گیا تھا جس سے وہ بہ ظاہر جاں بر ہوگئے تھے لیکن 14 دسمبر کو دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور وہ ان کے کفن کا انتظام کررہی ہیں اور پھر اپنی آنکھوں سے 17 دسمبر کو اپنے گھر پر بنگلہ دیش کا پرچم لہراتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ ہنس رہی ہیں، رورہی ہیں۔ اس کے بعد جب ان کا بیٹا جامی انتقام لینے کی اور دشمنوں کو قتل کرنے کی بات کرتا ہے تو وہ اسے روکتی ہیں، سمجھاتی ہیں کہ آزادی کی جنگ میں دشمنوں کی ہلاکت جائز ہے لیکن ہارے ہوؤں پر ہتھیار اٹھانا جرم ہوگا، قتل ہوگا۔ اور ہم یہ نہیں کرسکتے۔

رومی واپس نہیں آیا، کبھی نہیں آیا۔ وہ اس کے لیے اور دوسرے سیکڑوں گم ہوجانے والوں کی تلاش میں کہاں کہاں نہیں گئیں لیکن سب لاحاصل۔ انھیں ’شہید کی ماں‘ کے القاب سے پکارا گیا لیکن ایسے ہزار القابات بھی ماں کے سینے میں لگی ہوئی آگ کو بھلا کہیں بجھاتے ہیں۔ جہاں آرا امام نے کینسر سے لڑائی لڑی اور آخر کار 1994 میں شان سے رخصت ہوئیں۔ وہ بنگلہ دیش میں ایک محترم نام ہیں۔

ان کی ڈائری پڑھتے ہوئے مجھے وہ بہاری لڑکے یاد آئے جو سیاسی شعور سے عاری تھے اور اس جنگ کا نوالہ بنے۔ مجھے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے نوجوان یاد آئے جن کے لیے یہی کہا جاتا ہے کہ ’اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا‘۔ ان غائب ہونے والوں کی فہرست میں اب پنجاب کے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔

خدا خیر کرے!

خدا خیر کرے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔