بھارتی فنکاروں کو پاکستان میں کام کی دعوت ملنی چاہیے

قیصر افتخار  ہفتہ 23 فروری 2013
پہلے صرف پاکستانی فنکاروں کا مداح تھا، اب یہاں کے عوام کا بھی مداح ہوں، رضا مراد۔  فوٹو : فائل

پہلے صرف پاکستانی فنکاروں کا مداح تھا، اب یہاں کے عوام کا بھی مداح ہوں، رضا مراد۔ فوٹو : فائل

 پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے چرچے توپوری دنیا میں عام ہیں۔کوئی بھی غیرملکی جب پاکستان آتا ہے تواس کی میزبانی کیلئے ہرایک پاکستانی تیاررہتا ہے۔ کوئی لذیزپکوان سے تواضح کرنا چاہتا ہے توکوئی تحائف دے کراپنی چاہت کااحساس دلواتا ہے۔

خصوصاً ہمارے پڑوسی ملک سے آنے والے مہمان چاہے بالی وڈ اسٹار ہوں یاسکھ یاتری، سب کو شاندار اندازسے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ دوروز قبل بھارتی فلموں کے معروف اداکاررضامراد کا پاکستان آنا ہوا اوراس موقع پرانھوں نے پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں وقت گزارا اورجونہی زندہ دل لوگوں کے شہرلاہورآمد ہوئی توان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ ایک طرف لذیز پکوانوں سے ان کی تواضع کی جا رہی تھی تو دوسری طرف تاریخی مقامات، شاپنگ مال اور دیگر مقامات پر جانے کی دیرینہ خواہش نے ان کی نیند تک چھین لی۔ لاہور آمد پربالی وڈاسٹاررضامراد نے ’’نمائندہ ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے دلچسپ گفتگو کی جوقارئین کی نذر ہے۔

اداکاررضا مراد کا کہنا تھا کہ برسوں سے ارمان تھا کہ پاکستان جائوں لیکن قسمت کوجب تک منظورنہ تھا میں اس دھرتی پرنہیں آسکا۔ لاہورمیں میری حقیقی پھوپھو سمیت دیگررشتہ دارآباد ہیں جن سے 53برس کے طویل عرصہ بعد ملاقات ہوئی ہے۔ میرے بہت سے رشتہ دارایسے ہیں جن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن فون پراکثربات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ہمیشہ سے ایک مثل جوسن رکھی تھی کہ ’’جس نے لاہورنہیں دیکھا وہ پیداہی نہیں ہوا‘‘، اب لاہور آکر میرا جنم ہوگیا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار، مہمان نواز، پیار، محبت کا پیغام بانٹنے والے ہیں۔ ایک ہی ملاقات میں مہمان کو اپنا گرویدہ بنانے کا فن یہاں کے باسیوںکوخوب آتا ہے۔ میں توپاکستانی فنکاروں، گلوکاروںکا مداح تھا لیکن اب تویہاں کے لوگوں کا بھی مداح بن چکا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ پٹیالہ گھرانہ کے معروف گائیک استاد امانت علی خاں مرحوم میرے پسندیدہ گائیک تھے اوران کے علاوہ معروف غزل گائیک استاد غلام علی اورفوک گائیک عالم لوہاربہت پسند ہیں۔ میں اکثرامانت علیخاں کا گایا ترانا ’’اے وطن پیارے وطن گنگناتا ہوں‘‘ اور گلوکارایس بی جان کا گیت ’’ توجونہیں توکچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہیں حسین ہے‘‘ بھی بے حد پسند ہے۔ اسی طرح پاکستانی فلموں کے معروف اداکار مصطفی قریشی کا بہت بڑا مداح ہوں ۔

ان کی فلم ’’مولا جٹ‘‘ میں ان کا کردار’’نوری نت‘‘ بہت پسند آیا اوراس کے بعد میں نے ان کو بہت سی فلمیں ویڈیو فلم کے ذریعے منگوا کر دیکھیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ڈرامے بھی بہت شوق سے دیکھتاہوں۔ پاکستان واقعی باصلاحیت فنکاروں سے مالا مال ہے۔ اداکارمصطفی قریشی کے علاوہ اداکارننھا، علی اعجاز اور رنگیلا بھی مجھے بہت پسند تھے۔ ان کی مزاحیہ اداکاری اورانداز بہت نرالا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں دونوںملکوں کے لوگوںکی دوری مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کیلئے دونوں ممالک کوآمد ورفت کے آسان مواقع پیدا کرنا چاہئے۔

برسوں سے پاکستان آنے کی خواہش تھی لیکن چند برس قبل تک ’چاند پرجانا آسان تھا مگر پاکستان آنا مشکل‘۔ ویزہ پالیسی میں نرمی کی وجہ سے اب صورتحال بدل چکی ہے، لوگ پاک، بھارت آنا جانا چاہتے ہیں۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان آنے کا موقع ملا تواپنی تمام فنی مصروفیات ملتوی کردیں۔ کراچی پہنچے توسانحہ کوئٹہ کی وجہ سے دھرنا تھا مگراس کے باوجود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزارپرحاضری کیلئے پہنچا۔ اس کے بعد شیڈول کے مطابق اسلام آباد پہنچے تومجھے ایسا لگا کہ دنیا کے کسی حسین ترین شہرمیں آگیا ہوں۔ قدرت کے حسین نظاروں کے درمیان خوبصورت عمارتیں ، سڑکیں اورماحول بہت اچھا تھا۔ اس دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی اورہرکسی نے پیار، محبت کا پیغام دیا۔

موٹروے بھی دنیا کے بہترین موٹرویز میں سے ایک ہے۔ 4 سوکلومیٹرکا سفرکب شروع ہوااورکب ختم پتہ ہی نہیں چلا۔ لاہورمیں شاپنگ کیلئے مارکیٹ آیا تو پر لوگوںنے میرے ساتھ تصاویربنوائی اورآٹوگراف لئے بلکہ کچھ لوگ تومیری فلموں کے ڈائیلاگ بھی بولتے رہے، یہ لمحات بہت یادگار تھے۔اس کے علاوہ شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد ، شیش محل، دیوان خاص اوردیوان عام جیسی تاریخی عمارتیں دیکھ کربہت خوشی ہوئی۔ یہی نہیں شاہی قلعہ میں موجود میوزیم میں قرآن پاک کے قدیمی نسخے اورنادرچیزیں دیکھ کربہت اچھا لگا۔ میں نے شاعرمشرق حضرت علامہ اقبال کے مزارپربھی حاضری دی۔ شاہی قلعہ کے قریب واقعہ ’ گردوارہ دربارصاحب ‘ بھی جانے کا موقع ملا جہاں سکھ یاتریوں سے ملاقات ہوئی۔ جہاں کے انتظامات دیکھ کراچھا لگا۔

مینارپاکستان کے بارے میں بہت سن رکھا تھا لیکن لاہور کے مختصر دورے کے دوران اس تاریخی مینار کا دیداربھی کرلیا۔ یہ وہ لمحات ہیں جن کوکبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جلد ہی اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان آئونگا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے لاہورکے تفریح مقامات کی سیرنہیں کرسکا لیکن آئندہ دورے میں صرف اورصرف لاہور ہی میں قیام ہوگا ۔ اس دوران یہاں کے لذیزپکوانوں سے پیٹ پوجا کرونگا اورشاپنگ کیلئے مارکیٹوںکا دورہ۔ انھوں نے گفتگوکوآگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فنکاروں کوبھارت میں بہت پسند کیا جاتاہے ، اس لئے اگرکبھی کبھارکوئی واقعہ پیش آجائے تواس سے درگزرکرنا چاہئے۔ ہمیں امن، دوستی، بھائی چارے اورپیارکی فضاء کوفروغ دینا ہے۔ اس کیلئے میں ہرطرح سے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیارہوں۔

ایک سوال کے جواب میں رضا مراد نے کہا کہ مجھ میں وہ خوبیاں نہیں ہیں جوایک سیاستدان میں ہوتی ہے۔ میں کیمرہ کے سامنے توجھوٹ بول لیتا ہوں لیکن سیاستدانوں کی طرح براہ راست لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ دوسری جانب جوبھی فنکارسیاست کی طرف آئے ان پرکرپشن کا کبھی کوئی الزام نہیں لگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کوسیاست سمجھنے میں وقت لگا ہو۔ سیاست میں آنا سب کا حق ہے، کسی کو روکانہیں جاسکتا۔ تمام سیاستدانوں کوکرپٹ کہنا درست نہیں ہے لیکن اس میں زیادہ بڑی تعداد کرپٹ لوگوںکی ہی ہے۔ بالی وڈ کے سپراسٹارامیتابھ بچن نے بھی سیاست سے کنارہ کشی کرلی۔ انہیں بھی ایسا محسوس ہوا ہوگا کہ وہ سیاست کے لائق نہیں ہے۔ اگرآپ کوایسا محسوس ہورہا ہوتواس سے علیحدگی اختیارکرلینی چاہئے۔

میں نے ویسے کانگریس پارٹی جوائن کرلی ہے لیکن اس کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ میرا کام نہیں ہے اورنہ ہی میں اس کام کوبہتراندازسے کرسکوں گا۔ جہاں تک بات بالی وڈ میں بننے والی بولڈ فلموں کی ہے توہمارے ہاں سنسربورڈ فلم پاس کرتا ہے۔ اگرایک فلم ایسی ہے کہ جو بولڈ ہے اورسنسربورڈ سمجھتاہے کہ یہ پبلک کے دیکھنے کے قابل ہے تو ہی اس کو نمائش کے لئے پیش کیاجاتاہے۔ موجودہ دور میں بنائی جانے والی فلموں میں آئٹم سانگ بھی شامل کیا جاتا ہے جبکہ ماضی میں ’’ مغل اعظم، شعلے، دیوار اور گنگا جمنا‘‘ جیسی شاہکارفلموں میں کسی آئٹم سانگ نہیں تھا لیکن وہ بہت کامیاب رہیں اورآج بھی لوگ ان کوپسندکرتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے اوربالی وڈ میں نئے لوگ آگئے ہیں ان کے پاس نئے آئیڈیا ہیں۔

جب تک فلم بین ان فلموں کو دیکھیں گے اس طرح کی فلمیں بنتی رہیں گی۔ ویسے بھی ٹرینڈ بدلتے رہتے ہیں، کبھی رومانوی فلمیں دیکھی جاتی ہیں توکبھی ایکشن۔ آج رومانس، ایکشن اورکامیڈی ایک ہی فلم میں شامل کردیا جاتا ہے۔ یہ انداز شائقین فلم کوپسند ہے توبالی وڈ میں زیادہ ترایسی ہی فلمیںبن رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تاثربھی غلط ہے کہ فلموں کے ذریعے لوگوںکی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ لوگ سینما گھروں میں انٹرٹین ہونے کیلئے جاتے ہیں اوراگر کسی کوایسا لگتا ہے کہ یہ فلم دیکھنے لائق نہیں ہے تواس کونہ دیکھئے کوئی زبردستی توآپ کو فلم دیکھنے کیلئے مجبورنہیں کرسکتا۔

رضا مراد کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک شکایت یہ بھی کی جاتی ہے کہ پاکستانی فنکار بھارت میں دھڑلے سے کام کرتے ہیں اورکھلاڑی کمنٹری کیلئے آتے ہیں لیکن بھارتی فنکاروں کو پاکستان میں نہیں بلایا جاتا۔ ہمارے فنکاروں کو یہاں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اورنہ ہی کمنٹری کیلئے بھارتی کھلاڑیوں کو پاکستان مدعو کیا جاتاہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوستی برابری کی سطح پر ہونی چاہئے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بھارتی گلوکاروں کے شو پاکستان میں ہوتے ہوتے رہ گئے ہیں جبکہ استاد غلام علی ، منی بیگم اورحسن جہانگیر سالوں سے بھارت میں آرہے ہیں اورپرفارم کررہے ہیں۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن نے بھی بھارت میں بہت بار پرفارم کیا ہے۔ لیکن ہمارے فنکاروں کو کبھی یہاں مدعو نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں بھارتی فنکارآتے ہیں لیکن وہ کام کرنے کیلئے نہیں بلکہ سیرو تفریح کیلئے آتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھارتی فنکاروں کو کام کی آفرکی جائے تووہ ضرور کام کرینگے۔ میری خواہش ہے کہ میں پاکستان فلم انڈسٹری کے عظیم اداکارمصطفی قریشی کے ساتھ کام کروں۔

وہ بہت باکمال فنکارہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں بھارتی پنجاب میں بننے والی فلم پاکستانی اداکارہ ثناء اور کامیڈین سردارکمال کے ساتھ کام کیا۔ دونوں بہت باصلاحیت فنکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں وینا ملک، میرا، علی ظفر، زیبا بختیار اورجاوید شیخ بھی کام کررہے ہیں اوران کواچھا رسپانس مل رہا ہے۔ اس لئے بھارت کے فنکاروں کو پاکستان میں کام کرنے کیلئے رابطہ کیا جائے، اگرشروع شروع میں انکاربھی ہوتا ہے تومستقبل میں بہت سے فنکارپاکستان میں کام کرنے کیلئے تیارہوجائیں گے، مگر یہاں سے کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ انھوں نے بھارت کے معروف شاعرونغمہ نگارگلزارکی اچانک بھارت واپسی کے حوالے سے بتایاکہ وہ پاکستان آکر جذباتی ہوگئے تھے اوراس کی وجہ سے ان کی طبیعت ناساز ہوگئی تھی، اسی لئے وہ واپس بھارت چلے آئے لیکن ان کی بھارت واپسی کوسیاسی رنگ دیا گیا جوسراسرغلط ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے میڈیاکو باقاعدہ اپنابیان بھی دیا ہے۔

انٹرویوکے اختتام پررضا مراد نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان سے محبت، چاہت، اپنائیت ، دوستی اور بھائی چارے کا رشتہ لے کرجارہاہوں۔ جتنا پیار مجھے اتنے کم عرصے میںملاوہ دنیا میں کہیںنہیں مل سکا۔ یہ میری زندگی کے یادگار لمحات ہیں جن کو بھارت پہنچ کرمیڈیا کے ذریعے ہندوستان تک پہنچائوں گا اورمجھے امید ہے کہ اس کے بہترین اثرات سامنے آئیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوگئی اورتعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔