پاکستان میں کام کرنے کے 14 نکات

ذیشان الحسن عثمانی  بدھ 27 ستمبر 2017
ایسے 14 قیمتی مشورے جن پر عمل کرکے آپ اپنے کاروبار کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایسے 14 قیمتی مشورے جن پر عمل کرکے آپ اپنے کاروبار کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہر ملک اور معاشرے میں کام کرنے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں جو اس ملک کے ساتھ مخصوص ہوتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں آپ کو کمپنی کا DUN نمبر اور EIN نمبر ملتا ہے، ہر شخص کا سوشل سیکورٹی نمبر ہوتا ہے۔ ایسٹونیا میں آپ ڈیجیٹل ریذیڈنسی حاصل کرکے کمپنی کھول سکتے ہیں، اور پاکستان میں ہر شخص کا نیشنل ٹیکس نمبر NTN ہوتا ہے اور کمپنی کی سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور ایف بی آر سے رجسٹریشن ہوتی ہے. یہ تو وہ معاملات ہیں جو سب کو پتا ہیں۔ البتہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا پتا صرف اس وقت لگتا ہے جب آپ حقیقتاً خود کوئی کام یا بزنس کرتے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں ایسی ہی کچھ تجاویز و مشاہدات کو جمع کردیا ہے۔ اگر آپ بھی کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو ہمیں ضرور لکھ بھیجیے، شاید کسی نو آزمودہ کار کےلیے رہنما کتاب ہی تیار ہوسکے۔

ہمارے پیش کردہ 14 نکات حسبِ ذیل ہیں۔

1۔ نام کسی اور کا: جی ہاں! پاکستان میں ہر چیز ممکن ہے اگر آپ کو اس بات کی فکر نہیں کہ کریڈٹ کس کو ملے گا۔ خاموشی سے سرجھکا کر کام کرتے رہیے اوراس بات کی فکرنہ کیجیے کہ کون، کب، کہاں اور کس لیے آپ کے کیے ہوئے کاموں کا کریڈٹ لے رہا ہے۔ ایسے تمام لوگوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے اور اس سے کہہ دیں کہ وہ انہیں نہ چھوڑیں۔ آپ اپنا کام کرتے رہیے۔

2۔ کامیابی (success) کی زکوۃ: جس طرح اسلام نے آپ کی ملکیت اور پیسوں پر ڈھائی فیصد زکوۃ رکھی ہے بالکل اسی طرح اگر آپ کو پاکستان میں کامیابی ملے اور اللہ کا فضل ہوتا رہے تو آپ کو اس کی زکوۃ دینی پڑے گی۔ اور وہ زکوۃ یہ ہے کہ لوگوں کا حسد، جھوٹ اور ظلم برداشت کرتے رہیں اوریہ سال میں ایک بار نہیں، بلکہ یہ ایسے برستا ہے جیسے مون سون میں بارش۔ آپ زکوۃ دیتے رہیے اور آگے بڑھتے رہیے۔

3۔ ہمدردی کا مطلب خیرات: آپ کے پاس کوئی مظلوم آپہنچا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں والدین بیمار ہیں یا والد دنیا میں نہیں رہے، یتیم و یسیر ہے، آپ ترس کھا کر جو کچھ اللہ کی راہ میں بغیر بدلے کی نیت سے دے سکتے ہیں، دے دیجیے۔ جو کچھ بن پڑے، وہ کیجیے۔ بس ایک چیز نہ کیجیے، اور وہ یہ کہ اس پر ترس کھا کر نوکری نہ دیں ورنہ جلد یہ آپ کو اور آپ کے کام کو خیرات مانگنے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گا۔ اگر وہ قابل بھی ہے تو اس سے کہیے کہ واپس آئے۔ تیار ہوکر اور ذاتی مشکلات گھر چھوڑ کر، اور پھر انٹرویو دے۔

4۔ قابلیت کا مطلب نوکری: کسی کو ملازمت دینے کا واحد معیار قابلیت رکھیے۔ نہ ہمدردی، نہ رشتہ داری، نہ حسب نسب، نہ دوستی یاری۔ اگر وہ کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو ضرور نوکری پر رکھ لیجیے اور اگر نہیں تو صاف منع کردیجیے اوراسے گائیڈ کردیجیے کہ وہ کیسے ان صلاحیتوں کو سیکھ کر آپ کے پاس واپس ملازمت کےلیے درخواست دے سکتا ہے۔

5۔ رشتے داری کامطلب وظیفہ: آپ کا کوئی رشتہ دار یا دوست ہے جو ضرورت مند ہے تو آپ اس کا ماہانہ وظیفہ باندھ دیجیے اور اسے کسی صلاحیت کے سیکھنے کے ساتھ نتھی کردیجیے۔ مثلاً آپ اسے 5000 روپے ماہانہ دیتے رہیے۔ اگر وہ ساتھ میں ایم بی اے کرتا رہے (اس کی فیس بھی آپ بھردیجیے) یا ساتھ میں انگریزی سیکھتا رہے یا کار مکینک یا کچھ بھی۔ وہ سیکھنا بند کرے تو آپ بھی وظیفہ بند کردیجیے۔ اِلا یہ کہ وہ شخص بوڑھا یا معذور ہے۔ اس صورت میں صرف اللہ کےلیے رشتے داری کے حقوق پورے کرتے رہیے۔

6۔ عہدے یا نسب کا مطلب دوستی: آپ کے پاس کوئی آدمی آتا ہے جو خود کسی بڑی پوسٹ پر ہے یا اس کا باپ کسی پوزیشن میں ہے تو آپ اس سے دوستی کرلیجیے، ملازمت نہ دیجیے۔ اسے تحفے تحائف دیجیے، کھانا کھلایئے، دعوتوں میں بلایئے تاکہ جب آپ کا کوئی کام پھنسے تو وہ آپ کو گائیڈ کرسکے یا آپ کی جائز سفارش کرواسکے۔ سفارش کہتے ہیں توجہ دلانے کو، جائز طریقے پر جائز کام کےلیے۔ یہ باعث ثواب اور بہت مفید چیز ہے۔ یاد رکھیے کہ ولایت بازاروں میں نہیں ملتی، دنیا کے کام ایسے ہی چلتے ہیں۔ آج مجھے اگر پی ٹی اے کے چیئرمین یا ایف بی آر کے چیئرمین کا بیٹا/ بیٹی مل جائے تو میں انہیں فوری اپنی کمپنی کا ایڈوائزر لگوادوں یا دوست بنالوں کہ اس کے بغیر کام بہت مشکل ہے۔ پروفیشنل ایتھکس پڑھانے والے، راہ راست کا درس دینے والے اور نئے کاروبار کی پالیسیاں بنانے والوں نے آج تک ریڑھی بھی نہیں لگائی ہے، ان کی خیالی جنت انہیں مبارک ہو، ہمیں تو زندہ رہنا ہے۔

7۔ پیسہ پھینک، تماشا دیکھ: جان اور ایمان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟ پاکستان میں ہر وہ کام جو پیسہ دے کر ہوسکتے ہیں، پیسہ دے کر کروالینے چاہئیں۔ نہ آپ ذلیل ہوں، نہ دوسروں کو ذلیل کریں اورنہ ہی کسی کو اپنے آپ کو ذلیل کرنے کا موقع دیجیے۔ رشوت ناجائز ہے، بجا فرمایا، سرآنکھوں پر۔ مگر جب پورے ملک میں کوئی بھی کام پیسے کے بغیر ممکن ہی نہ ہو تو ایک عام آدمی کیا کرے؟ یا توسرکاری نوکری کرلے یا خود کشی؟ کوئی اور طریقہ آپ نے باقی ہی نہیں چھوڑا۔ فتوی تو مفتی صاحب ہی دیں گے مگر مجھے تو کچھ اور نہیں سوجھتا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ٹیکس دے رہا ہوں (یہ الگ بات کہ ہوش پہلے ٹیکس نوٹس پر آئے تھے)۔ میرا ٹیکس RTO سکھر ہے۔ مجھے سکھر چھوڑے ہوئے انیس سال ہوگئے مگر میں انیس سال میں اپنا آر ٹی او اسلام آباد شفٹ نہ کرواسکا۔ سکھرجاؤ، ٹیکس کمشنر کو درخواست دو، پھر اسلام آباد آؤ، یہاں ٹیکس کمشنر کو درخواست دو، پھر دھکے کھاؤ اور یوں اکیسویں صدی میں ٹیکس دینے کے قابل ہوجاؤ۔ 6 سال سے گیس کنکشن، 8 سال سے اسلحہ کا لائسنس اور گیارہ مہینوں سے بجلی کے کنکشن کا منتظر ہوں۔ ڈیڑھ لاکھ روپے بھر کر ذاتی کتابیں کسٹمز سے چھڑائی ہیں جو امریکہ سے لایا تھا۔ آپ جتنی چاہیں گالیاں مجھے دے لیجیے، لیکن میری بجلی گیس لگوادیجیے، بہت دعائیں دوں گا۔

8۔ انا سے ڈریئے: پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی ہیں۔ ہماری انا (ego) دریائے سندھ سے بھی بڑی ہے۔ کوئی شخص آپ کےلیے بہت اچھا، مددگار اور نیک ہے، جب تک آپ اس کی انا سے نہیں ٹکراتے۔ جس دن آپ نے غلطی سے بھی ان کی شان اقدس کے معیار سے ذرا نیچے کوئی بات کردی، آپ کا بیڑہ غرق کروا کے بھی انہیں چین نہیں آئے گا۔ ایسے لوگوں کو طلاق دے دیجیے، نہ ہی تعریف کیجیے نہ ہی کوئی خاص رابطہ رکھیے، خوش رہیں گے۔

9۔ ذہانت کی قدرکیجیے: دنیا میں بہت سی چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوئیں۔ مثلاً تنقید اور نفع، حسن اور وفا، ذہانت اور محنت۔ ذہین آدمی عموماً محنتی نہیں ہوتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو کام دوسرے مہینوں میں کرتے ہیں میرے لئے گھنٹوں کی بات ہے۔ ایسے آدمی کی قدر کیجیے اور اسے اس کے حال پر چھوڑدیجیے۔ جب تک آپ کو آپ کا مطلوبہ کام وقت پر مل رہا ہے، اسے آفس کے اوقات، چھٹیوں اور ہیومن ریسورس پالیسیوں سے بچا کر رکھیے۔

10۔ بندہ بچائیے: جب بھی آپ کی کمپنی کی کوئی پالیسی بندے سے ٹکرائے تو پالیسی مار دیجیے، بندہ بچالیجیے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کو سیکڑوں مسائل کا سامنا ہے۔ بجلی کا بل بھروانا ایک کام ہے، لائسنس لینا ایک کام ہے۔ ہم صبح شام ایک آدمی کو اتنی بار ذلیل کرتے ہیں کہ اس کی عزت نفس ہی مرجاتی ہے۔ اسے مزید تنگ نہ کیجیے، کام پر فوکس رکھیے۔ کیا پہنتا ہے، کیا اوڑھتا ہے، کس سے بات کرتا ہے، کس سے نہیں، کب آتا ہے، کب جاتا ہے، ساری فضولیات ہیں۔

11۔ خود غرض فوکسڈ بندے ڈھونڈیئے: ایک ایسا آدمی جو سر جھکا کر، کسی کو بڑا مان کر کسی نظریئے پر کام کرسکے، زندگی لگا سکے، اب نہیں پیدا ہوتا۔ ماؤں نے ایسے بچے جننا ہی چھوڑ دیئے ہیں۔ تو ایسوں کی خواہش ہی فضول ہے۔ کوئی اگر آپ سے کہے کہ بھاڑ میں گئی آپ کی کمپنی، بھاڑ میں گئے آپ، مجھے اتنی تنخواہ اور مراعات چاہئیں اور اس کے بدلے کام کروں گا تو آپ نے ہیرا پالیا۔ ایسے سچے بندے کہاں ملیں گے؟ آپ پوری کمپنی اس کے پیچھے باندھ دیجیے کیونکہ اسے خود پوائنٹ اے سے بی تک پہنچنا ہے، یہ آپ کی پوری کمپنی کھینچ لے گا۔ لیکن اتنا بھی یاد رکھیے کہ جب تک آپ کا وژن آپ کے ملازم کے وژن سے ہم آہنگ نہیں ہوگا، آپ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔

12۔ تنقید نہ کیجیے: مانا کہ کوئی کام سیدھا نہیں ہوتا۔ کرکٹ میچ کےلیے پورا کاروبار بند کرا دیا جاتا ہے۔ کام کوئی نہیں کرتا۔ لیکن اگر آپ صرف تنقید کرتے رہے تو بہت جلد فرسٹریٹ ہوجائیں گے۔ بس سرجھکا کر کام کرتے رہیے۔ دنیا کے سارے بڑے کام آہستہ آہستہ تدریجاً ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی دعا مکہ المکرمہ کےلیے 2500 سال میں پوری ہوئی۔ اللہ تو کافر کی محنت بھی ردّ نہیں کرتے، آپ تو پھر مسلمان ہیں۔

13۔ تنقید وتعریف نہ سنیے: دنیا بھر کے لوگوں کو مار کر ایک بار اپنے دل میں دفنا دیجیے اور فاتحہ پڑھ لیجیے، نہ کسی کی تعریف سے کوئی فرق پڑے نہ تذلیل سے۔ یہ دونوں دیمک کی طرح آپ کی صلاحیتوں کو چاٹ جاتی ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں سے دور رہیے۔ کوئی تعریف کرے یا تنقید تو کانوں میں انگلیاں دے دیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہو مثلاً استاد یا کمپنی کے ایڈوائزر وغیرہ۔

14۔ ایمانداری اپنایئے: یقین کیجیے یہ کاروبار کا بہترین اثاثہ ہے۔ سچ بولیے، کام پورا کیجیے، محنت ولگن سے کیجیے، ملک آپ کا ہوا۔ ہر مسئلہ ایک اپرچیونیٹی (موقع) ہے۔ ہر مشکل آپ کے کمپیٹیشن کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ماردیتی ہے، اگر آپ سروائیو کرگئے تو ریس میں آپ اکیلے ہی ہیں۔

ان 14 نکات کے بارے میں آپ خود کیا سوچتے ہیں؟ اپنی آراء سے ضرور نوازیئے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔