ریاست کا اہم ستون

رئیس فاطمہ  ہفتہ 23 فروری 2013

’’جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں اور پھر بھی زندہ ہیں تو اس کا کریڈٹ کسی حد تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی جاتا ہے، لیکن آپ اکثر کالموں میں پوری صحافی برادری کو صلواتیں سنادیتی ہیں، جب کہ صحافیوں، رپورٹروں اور دیگر اخباری کارکنوں کا بھی وہی حال ہے جو پورے سماج کا ہے، اچھے اور برے سب جگہ ہوتے ہیں، لیکن چند مفاد پرست عناصر کی وجہ سے جو موقع پرست ہیں اور کسی بھی طرح صحافی نہیں، کیا پوری صحافی برادری کو مورد الزام ٹھہرانا جائز ہے؟‘‘

یہ تھا وہ شکوہ جو میرے ایک دیرینہ کرم فرما نے کیا تھا۔ بات تو ان کی سو فیصد درست ہے اور میں تسلیم بھی کرتی ہوں کہ وہ لوگ جو کسی سیاسی جماعت کی یا کسی طاقت ور شخصیت کی وابستگی کی وجہ سے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں، دو کمروں کے مکان سے اٹھ کر عالیشان بنگلوں میں پہنچ چکے ہیں اور بڑی بڑی شخصیات کے پہلو میں نظر آتے ہیں، جو ناشتے، لنچ اور ڈنر پر ان کے ساتھ اس لیے ہوتے ہیں کہ ان بڑی شخصیات کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں۔ وہ اصل صحافی نہیں ہیں بلکہ کسی سلیمانی ٹوپی نے انھیں ایسے منصب پر فائز کردیاہے جہاں بیٹھ کر وہ ملک کی قسمت کے فیصلوں کی روز عدالت لگاتے ہیں اور میڈیا ٹرائیل کرتے ہیں۔

یہ صحافی دراصل محکمہ تعلیم کے ان پروفیسرز کی طرح ہیں، جو سارا سال سیاست کرتے ہیں، جلسے جلوس نکلواتے ہیں، دیگر اساتذہ کی جیبوں سے پیسے نکلواتے ہیں، ہڑتالیں کرکے حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور مذاکرات کرکے خفیہ ڈیل کرلیتے ہیں، کالج کبھی کبھار جاتے ہیں، تاکہ پوری تنخواہ وصول کرسکیں، لیکن اپنے اپنے کوچنگ سینٹرز پر لیڈر اساتذہ پورے وقت موجود ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے ذاتی کوچنگ سینٹرز ہیں اور جو ان میں پڑھاتے ہیں وہ بھی ناغہ اس لیے نہیں کرتے کہ پرائیویٹ ادارے ’’کام‘‘ کے عوض رقم دیتے ہیں جب کہ سرکاری کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی اکثریت اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرنے کے باوجود پوری تنخواہ کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہر شعبے میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اس ملک کو تباہ وبرباد کر رہی ہیں۔

لیکن اس وقت ہم بات کر رہے ہیں صحافیوں کی، جن کی اکثریت بسوں، اور رکشوں، ٹیکسیوں میں سفر کرتی ہے۔ کسی کے پاس اسکوٹر یا موٹرسائیکل ہے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی شخص کسی اخبار یا چینل سے وابستہ ہے وہ لاکھوں میں کھیل رہا ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ ان صحافیوں کی اکثریت وہ لوگ ہیں جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دور دراز مقامات پر رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں، خطرناک جگہوں پراپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر یہ لوگ اپنے فرائض منصبی بڑی ذمے داری سے ادا کرتے ہیں۔

بارہا ایسے موقعوں پر خود ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہوتے رہے ہیں۔ کبھی کسی جرم کی نشاندہی کرکے، کبھی ٹارگٹ کلرز کو بے نقاب کرکے، کبھی ان کی خفیہ سرگرمیاں سامنے لاکر، کبھی مجرموں اور دہشت گردوں کی تصویریں بناتے بناتے یہ اپنی جان بھی ہار جاتے ہیں اور کبھی بڑے بڑے طاقتور مجرموں اور مافیاز کو پبلک کے سامنے لانے کے جرم میں جھیل اور تالاب ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ ولی خان بابر اور سلیم شہزاد ابھی ہمارے حافظوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہ رپورٹر، کیمرہ مین اور دیگر اخباری امور سے وابستہ ہزاروں لوگ ہر صبح اپنی جان ہتھیلی پر لے کر اپنی اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں تو ان کے لواحقین کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ وہ جو ڈیسک ورک کرتے ہیں وہ بھی کسی طرح خطرے سے خالی نہیں۔ ہم کالم نگار بعد میں زد میں آتے ہیں، پہلے تو انھیں ہی سب کچھ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ کتنے دباؤ میں کام کرتے ہیں، اس کا اندازہ ایک عام آدمی کو نہیں ہوسکتا، گروپ ایڈیٹر سے لے کر دیگر صفحات کے انچارج صاحبان سب ہی ممکنہ خطرات کو سہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایک لفظ بھی کچھ ایسا ویسا چلا گیا تو گردن زدنی صفحے کا انچارج پہلے ٹھہرایا جائے گا، کوئی اور بعد میں۔۔۔۔۔ وہ زمانے گئے جب صحافت مشن ہوا کرتی تھی۔ مولانا ظفر علی خاں، چراغ حسن حسرت اور حسرتؔ موہانی جیسے لوگوں پر تو یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ:

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

اب صحافت کاروبار تو ہے اور صنعت بھی، لیکن ایسی صنعت جس سے غریب اخباری کارکن کا روزگار جڑا ہے۔ پھر بھی یہ سب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عوام کو وہ سچ بتاتے اور دکھلاتے ہیں جنھیں عام آدمی نظروں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے اخباری کارکن، ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور اپنے اپنے صفحات کے انچارج اور رپورٹرز مسلسل دباؤ میں رہتے ہوئے بھی جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتے۔

یہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی کا کرم ہے کہ حقائق لوگوں تک پہنچتے ہیں، خواہ وہ رپورٹر کے ذریعے پہنچیں یا کسی کالم نگار کے۔ مختاراں مائی جسے آج مغربی دنیا بھی اچھی طرح جانتی ہے، اس کو پہچان دلوانے میں بھی ایک اخباری رپورٹر ہی کا ہاتھ ہے۔ اگر وہ وہاں کی مسجد میں موذن سے مختاراں مائی پر ہونے والے ظلم و بربریت کا احوال نہ سنتا تو آج وہ بھی کسی گمنام گوشے میں پڑی سسک رہی ہوتی اور اپنے عورت ہونے پر اپنی قسمت کو کوس رہی ہوتی۔ سانحہ نواب پور، سانحہ محراب پور اور دیگر قبائلی و قصباتی علاقوں میں جو ظلم عورتوں پر وہاں کے طاقت کے نشے میں چور وڈیروں نے روا رکھا وہ سب میڈیا ہی کی بدولت لوگوں کے سامنے آیا۔ بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا واقعہ بھی چھپا رہتا اگر میڈیا کھوج نہ لگاتا۔

آفرین ہے ان تمام لوگوں پر جو دباؤ میں رہتے ہوئے بھی خطرات کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن افسوس کہ چند لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ساری صحافی برادری پر زد پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی خاتون اپنا گھر بگاڑ رہی ہے، بچوں کو چھوڑ رہی ہے، کہ شوبز کی چکاچوند کر دینے والی روشنیوں نے رشتوں کو دھندلادیا ہے تو اس میں ٹیلی ویژن اسکرین کا کیا قصور؟ قصور اگر ہے تو اس تربیت کے فقدان کا جہاں ماؤں نے گھر، بچے اور شوہر کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا، یہ چکا چوند عارضی ہوتی ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو ڈھلتی عمر اور چہرے کی جھریاں ماضی یاد دلانے لگتی ہیں، لیکن اس وقت تک بہت زیادہ دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

دراصل اس ملک میں کوئی ادارہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو، لیکن تعلیم اور صحافت دو ایسے شعبے ہیں جن سے ایک وقار وابستہ ہے۔ اسی لیے لوگ ان اداروں کی کرپشن ہضم نہیں کرپاتے، لیکن جس طرح تمام لیکچررز، پروفیسرزاور اسکول ٹیچرز کرپٹ نہیں ہوتے، اسی طرح چند جعلی صحافیوں کی ’’مصروفیات‘‘ کی بناء پر پوری برادری کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں۔ کیونکہ صحافت خواہ پرنٹ میڈیا کی ہو یا الیکٹرانک میڈیا کی، ریاست کے اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ خدا اسے مزید طاقت عطا کرے اور یہ دھمکیوں کے باوجود اپنا مشن جاری رکھ سکے، آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔