اپنی اپنی چادریں اوڑھے ہوئے…

شیریں حیدر  ہفتہ 23 فروری 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’اچھا ہے کہ ہم سب نے اپنی اپنی چادریں اوڑھ رکھی ہیں ورنہ جیون گزارنا مشکل ہو جائے … ‘‘میں نے اپنی گاڑی کو انتہائی بائیں طرف کر کے اس اژدہام سے نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے دل میں سوچا۔ سڑک پر دو گاڑیاں تیز رفتاری کے باعث ٹکرا گئی تھیں اور عین وسط میں خون ہی خون بکھرا ہوا تھا اسی لیے ہر گاڑی بچ کر ایک طرف سے نکل رہی تھی، میں نے بھی ان کی تقلید میں اپنی گاڑی کو اس ’’ مصیبت ‘‘ سے نکالا… یہ اور بات ہے کہ مصیبت میں وہ لوگ تھے جن کو نظر انداز کر کے ہم نکل رہے تھے مگر پرائی بلا کون اپنے گلے ڈالتا ہے، کون وقت ضایع کرے اور ان لوگوں کی مدد کرے جن کا ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں اور پھر کوئی مر مرا جائے تو کون پولیس کے چکروں میں پڑے۔ اسی لیے تو سوچا کہ شکر ہے ہم سب نے اپنی اپنی چادریں اوڑھ رکھی ہیں، میں نے اور آپ نے، حکمرانوں نے،ہمارے منتخب نمایندوں نے اور مختلف محکموں نے…

آپ حیران نہ ہوں کہ آپ تو چادر نہیں اوڑھتے… میری مراد ہرگز اس چادر سے نہیں جو ہمارے ہاں عورتیں اوڑھتی ہیں یا سردیوں میں مرد حضرات بھی۔ میری مراد اس چادر سے ہے جو بے حسی کی ہے اور ہم سب نے اوڑھ رکھی ہے ورنہ اس کے سوا گزارا ہی نہیں، ہم تو گھر سے دفتر ، بازار یا جہاں کہیں جانے کی نیت سے نکلیں، پہنچ ہی نہ سکیں اور نہ ہی گھر لوٹ سکیں۔ یہ چادر اتار دیں تو ہمارے دلوں میں دوسروں کے لیے درد جاگ جائے گا، ہمیں ان کے مسائل کا احساس ہونا شروع ہو جائے گا، کسی بھکاری کو، کسی معذور کو دیکھ کر اس کی محرومی سے ہمارا دل کٹ کٹ جائے گا اور ہمارا جی چاہے گا کہ ہم اس کی مدد میں اپنی حد سے بھی بڑھ جائیں، اسے اپنے گھر لے جائیں اور اچھا لباس اور خوراک دیں ، معذور کی مدد کریں اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں۔

کوئی سڑک پار کرنے کو کھڑا ہو تو ہم نہ صرف اپنی گاڑی کو روک لیں گے بلکہ اتر کر اسے سہارا دے کر سڑک بھی پار کروائیں گے، کوئی ایمبولینس جو عموما بے بسی سے ہمارے پیچھے ہوٹر بجاتی رہتی ہے اور ہم اس کے آگے آگے گاڑی دوڑاتے ہی چلے جاتے ہیں، ہم ان ایمبولینسوں کے لیے راستہ چھوڑنا شروع کر دیتے اور ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی کئی سسکتے ہوئے مریضوں کی جان بچ جاتی۔

جو ہم یہ چادر نہ اوڑھیں تو ہمیں علم ہو جائے کہ اس دنیا میں ہمارے علاوہ بھی لوگ ہیں اور ان کے مسائل بھی ہیں جو ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل سے بڑھ کر ہیں۔ ہم اپنی ذرا ذرا سی تکلیف پر بلبلا اٹھتے ہیں اور اللہ تعالی سے شکوے گلے کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے ہمارے نصیب میں ہی خرابی کیوں لکھی ہے… ہمیں وہ سب نعمتیں بھول بھال جاتی ہیں جو ہمیں شبانہ روز حاصل ہیں ، ہمارے بچے، ہماری صحت، ہمارے گھر اور کاروبار وغیرہ ۔

ہم اپنے بچوں کی خاطر غلط کام اور دھندے کرتے پھرتے ہیں اور انھیں درست سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مفاد میں ہوتے ہیں اور ہمارے ان بچوں کے مفاد میں… ہم انھیں کامیابی اور ترقی کے اوج کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اس چادر کی اوٹ میں سب چھپ جاتا ہے کہ جن بچوں کے پیٹ میں ہم حرام کے لقمے ڈالتے ہیں وہ کیا کرتے پھر رہے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کو گھروں سے نکلتے ہیں تو انھوں نے بھی وہی چادر اوڑھ رکھی ہوتی ہے اور وہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بھی کرتے ہیں، غلط ملط دوستیاں بھی نبھاتے ہیں اور شغل کے طور پر دوستوں کے ساتھ مل کر چوری چکاری کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔

جن کاموں کو ہم دوسروں کے لیے ناجائز قرار دیتے ہیں، جب ہمارے اپنے مفادات داؤ پر لگے ہوں تو ہمیں وہ سب کام اپنے لیے جائز نظر آتے ہیں۔ رشوت، سفارش، اقرباء پروری، ناجائز منافع خوری، بد دیانتی، قانون کی خلاف ورزی، جھوٹ ، وعدہ خلافی، منافقت، بد زبانی … اور ایسی کتنی ہی خرابیاں ہیں جو ہمارے وجود سے چمٹ کر رہ گئی ہیں اور ہم انھیں چھپانے کو یہی چادر اوڑھ لیتے ہیں!! خود کو ہم مسلمان بھی کہلاتے ہیں مگر ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے، یہ جاننے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

کسی مریض کو جب تک علم نہیں ہوتا کہ اس کا مرض کتنا خطرناک ہے تب تک اسے امید ہوتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی صحت یاب ہو جائے گا مگر جب کسی مریض کو یہ علم ہو جائے کہ اس کا مرض لا علاج اور خطرناک ہے اور ایک مقام پر آ کر ڈاکٹر اسے لاعلاج قرار دے کر گھر بھجوا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اس سے آگے دعا کے سوا کوئی دوا کام نہیں کر سکتی تو گھر والے لازما پریشان ہوتے ہیں ۔ اپنا منہ مریض سے چھپاتے پھرتے ہیں اور جونہی مریض کو کسی نہ کسی طرح علم ہو جاتا ہے کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے اور اس کے پاس مہلت کم ہے تو اس کے بعد اس کی صحت اور بھی تیزی سے بگڑتی ہے کیونکہ اس کی امید دم توڑ دیتی ہے جس کے سہارے پر وہ کھینچ تان کر سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔ موت کا وقت تو معین اور مقرر ہے مگر موت کا یوں لمحہ بہ لمحہ انتظار اس کرب کو بڑھا دیتا ہے اور اذیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔جس مریض کے لیے ڈاکٹر غالبا دو ماہ کی مہلت دیتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ دو ہفتے بھی نہ جی پائے…

ہم بھی کسی اسپتال میں پڑے دم توڑتے ہوئے مریض جیسی قوم ہیں، جنھیں ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا ہے۔ ہم سب بے حس ہیں، ایک جیسی بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے مگر مسلسل اس تکرار میں کہ کون زیادہ بے حس ہے… دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری باقی تین انگلیاں ہماری طرف اشارہ کرتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس درجے پر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران زیادہ بے حس ہیں اور حکمران سوچتے ہیں کہ بے حس لوگوں پر بے حس لوگ ہی حکمران مسلط ہو سکتے ہیں۔حادثہ ہوتا ہے تو حادثے کا شکار ہونے والا یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ حادثے کا ذمے دار زیادہ بے حس ہے یا وہ لوگ جو اسے تڑپتا ہوا پڑا دیکھ کر نظر پھیر کر اپنی راہ ہو لیتے ہیں۔

کسی خود کش دھماکے یا فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو جانے والا تڑپتے ہوئے بھی سوچنا نہیں بھولتا کہ دھماکہ یا فائرنگ کرنیوالے زیادہ بے حس ہیں یا ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کی جان بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے انھیں لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف ہو جانے والے۔ مقتول سوچتا ہے کہ قاتل زیادہ بے حس ہے یا اس کے کیس میں بک جانے والے وکیل اور جج؟

دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے لوگ ہمیں بے حس سمجھتے ہیں جو کہ اس دھرنے کا حصہ نہیں جو انھوں نے اپنے شہداء کی میتوں کو سڑکوں پر رکھ کر دے رکھا ہے !! ان کے خون کا حساب مانگنے کے لیے،انصاف کے حصول کے لیے اور حکومت سے پوچھنے کے لیے کہ وہ کس کے ہاتھوں پر اپنے پیاروں کا لہو تلاش کریں؟ ہم متاثرین سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ بے حس ہیں اور اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ ان کے دھرنوں سے کاروبار زندگی کیسے معطل ہو جاتا ہے… لوگ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں نہیں پہنچ پاتے اس لیے کام رک جاتا ہے، ڈاکٹر اسپتالوں میں نہیں پہنچتے تو کتنے ہی مریض مشکل میں ہوتے ہیں، ایمبولینسیں بھی مریضوں سمیت حرکت کے قابل نہیں رہتیں، کتنے لوگ اپنے سفر کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے… نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی کسی جنازے پر نہیں پہنچ پاتا، کسی کی فلائٹ مس ہو جاتی ہے، رکشوں اور ٹیکسیوں میں بچے پیدا ہو جاتے ہیں کہ انھیں تو مقررہ وقت پر اس دنیا میں اپنی پہلی سانس لینا ہی لینا ہے… بعد میں چاہے جو ہو سو ہو!

کم از کم یہ بات تو طے ہے اور اس سے آپ سب بھی اتفاق کریں گے کہ ہم سب بے حس ہیں… کوئی کم کوئی زیادہ۔ کون کم ہے اور کون زیادہ، اس کا جواب ہمیں فقط آئینہ ہی دے سکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہم بسا اوقات آئینے کا سامنا نہیں کرنا چاہتے یا پھر اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتے جو کچھ ہمیں آئینہ بتا رہا ہوتا ہے اور پھر ہم اپنی اسی چادر کی بکل مار کر اس سے نظر چرا لیتے ہیں!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔