مشکل ہے مگر ناممکن نہیں

پاکیزہ منیر  جمعرات 28 ستمبر 2017

اس وقت ملک کی عجیب صورتحال ہے، ہر سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کو نیچا دکھانے پر زور دے رہی ہے، ہر سیاسی جماعت اقتدار کا حصول چاہتی ہے۔ عمران خان ہو یا نواز شریف یا آصف علی زرداری ہر بڑی سیاسی جماعت اور اس کا لیڈر اقتدار کے خواب دیکھ رہا ہے اور اقتدار کی اسی ہوس میں ان لوگوں نے ملک کو ایک تماشا بنادیا ہے، ان سیاسی جماعتوں کو فکر ہے تو بس اقتدار کی نہ ان کو فکر ملک کی ہے اور نہ ہی ملک کی عزت کی اور نہ عوام کو درپیش مصائب و آلام کی۔

آج ملک کے نفع بخش ادارے بڑے پیمانے پر خسارے کا شکار ہیں جس سے معیشت کوکافی نقصان پہنچ رہا ہے مگر ہمارے سیاسی حکمرانوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بس ان کے محلات سلامت ہیں اگر عوام مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں تو حکمرانوں کوکیا فرق پڑتا ہے ان سب کی تو جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، اولادیں ملک سے باہر زیر تعلیم ہیں۔

اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاج بھی بیرون ملک کرواتے ہیں تو ان حکمرانوں کو عوام یا عوام کی مشکلات کا کچھ بھی تو احساس نہیں ہے تبھی یہ آپ کو ہر ٹی وی چینل پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑے نظر آئیںگے اور ان میں آپ کو واضح اقتدار کی ہوس نظر آئے گی کہ کسی بھی طرح اقتدار پر قابض ہوجائیں اور عوام کا پیسہ لوٹیں۔

اگر آپ ملک کے اداروں پر نظر ڈالیں تو بے چارے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کوشش میں مصروف نظر آئیںگے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے گزشتہ مالی سال 2016-17ء کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے زرعی ترقیاتی بینک سے رواں مالی سال 2017-18ء کے پہلے 2 ماہ کا 80 ارب روپے کا ایڈوانس ٹیکس بھی جون 2017ء میں ہی لیے جانے کا انکشاف ہوا ہے مگر اس کے باوجود گزشتہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کا نظر ثانی شدہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکا اور ایف بی آر کو ڈیڑھ سو ارب کے لگ بھگ ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک میں ادارے ترقی کریں یا نقصان میں جائیں، اس سے ہمارے سیاسی حکمرانوں کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔

پاکستان پر 196 کھرب 33 ارب ملکی اور غیر ملکی قرضہ واجب الادا ہے۔ جون 2017ء کے آخر تک ملک کا اندرونی قرضہ 130 کھرب 31 ارب 40 کروڑ روپے رہا، پاکستان نے مجموعی طور پر 196 کھرب 33 ارب 50 کروڑ یعنی 19 ہزار ارب سے زائد ملکی غیر ملکی قرضہ ادا کرنا ہے۔ یہ قرضہ لیتے رہیںگے اور کھاتے رہیںگے۔ اپنے محلات بناتے رہیںگے۔ عوام پر ٹیکس پر ٹیکس کا بوجھ ڈالتے رہیںگے۔ بجلی مہنگی کرکے عوام کے اوپر بم گراتے رہیںگے۔ مہنگائی کے جھٹکے عوام کو مارتے رہیںگے، بجلی کے یونٹ حد سے زیادہ مہنگے کردیے گئے ہیں۔ چلیں ذرا ملک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں بیرونی قوتوں کو ہمیشہ اندرونی عناصر کا تعاون حاصل رہا ہے۔ ہم مثال ایوب خان کی لیتے ہیں بے شک ایوب خان ایک آمر تھا لیکن غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو ان کا دور حکومت ترقی اور خوشحالی کا دور تھا۔ ملک میں ان کے دور میں جو ترقی ہوئی وہ آیندہ پچاس سال میں بھی نہ ہوسکی۔ ملک کے تمام بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ان ہی کے دور میں تکمیل کو پہنچے وہ وارسک ڈیم، تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور حب ڈیم جیسے اہم منصوبوں کے خالق تھے۔

ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی ان ہی کے دور میں رکھی گئی۔ کراچی کا ایٹمی گھر ان ہی کے دور میں تعمیر ہوا ان کا دور حکومت یقینا جمہوری نہیں تھا مگر کسی بھی جمہوری دور کے مقابلے میں عوام اس دور میں زیادہ خوشحال، مطمئن تھے۔ ملک میں بے روزگاری نہیں تھی خوراک کی فراوانی تھی، ان کے دور میں آٹا بیس روپے من، بکرے کا گوشت تین روپے سیر، چینی ڈیڑھ روپے سیر، دودھ ایک روپیہ دو پیسہ سیر، گھی، دہی ڈیڑھ روپے سیر اور سونا ایک سو دس روپے تولہ تھا۔ کم سے کم تنخواہ ایک سو روپے سے بھی کم تھی مگر غربت ایسی نہ تھی جو آج یہ جمہوری حکمرانوں نے عوام کو دی ہے۔

آپ ضیا الحق کا دور اٹھاکر دیکھ لیں، آپ جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت دیکھ لیجیے آپ ملک کو ان کے دور میں خوشحال پائیںگے، ہر عوام کے گھر خوشحالی تھی ملک ترقی کی طرف گامزن تھا جمہوری حکمرانوں کے دور حکومت سے زیادہ ملک میں خوشحالی تھی۔

ابھی کراچی میں کچھ ہی عرصے پہلے بارشیں ہوئی، کراچی آدھا ڈوب گیا۔ حکومتی ادارے بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے اور عوام کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا گیا۔ شہر کراچی میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے بھی فوج کو طلب کیا گیا کراچی شہر کے اندر بگڑتی ہوئی صورتحال بڑھتی ہوئی دہشتگردی پر بھی قابو رینجرز نے ہی پایا اور آج شہر کراچی کی عوام بے خوف و فکر راتوں میں گھر سے باہر نکلتے ہیں۔

ملک کو بلا شبہ کثیر الجہتی چیلنجز کا سامنا ہے، داخلی وخارجی سطح پر ملکی سالمیت کے ضمن میں نہ صرف اہم پیشرفت کی ضرورت ہے بلکہ اٹھتے ہوئے طوفان سے نمٹنے کے لیے بھی سیاسی اور سفارتی مدبرانہ حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے لیے ہمہ گیر سیاسی اشتراک عملی وقت کا تقاضا ہے۔ محض بیانات سے یہ آندھی رک نہیں سکے گی۔ معاشرے کے مجموعی فکری سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات اور منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

آج ملک کے 80 فی صد سے زائد ادارے چل نہیں رہے ہیں اور جو 20 فی صد ہیں وہ نجکاری میں یا گروی رکھے جارہے ہیں۔ آج پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضے کی وجہ سے معاشی حالات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے لیکن پاکستان کے غریب آدمی کو ان تمام چیزوں سے کوئی مطلب نہیں وہ تو اپنے معاشی حالت سے اس قدر تنگ آچکا ہے کہ ہر روز ہمیں خودکشی کرنے کی خبریں اور بھوک کے خوف سے اپنے بچوں کو مارنے اور بیچنے پر مجبور ہیں اور ان تمام حالات کے ذمے دار یہ سیاسی جمہوری حکمران ہیں جنھوں نے جمہوریت کے نام پر غربت، مہنگائی کا تحفہ عوام کو دیا ہے۔

ایک شخص سمندر کے کنارے کھڑا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص نیچے جھکتا، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ ذرا قریب جاتا ہے توکیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پر پڑی تڑپ رہی ہیں شاید کسی بڑی موج نے انھیں سمندر سے نکال کر باہر ریت پر لا پٹخا تھا اور وہ شخص واپس ان مچھلیوں کو سمندر میں پھینک رہا تھا کہ ان مچھلیوں کی جان بچ جائے اسے اس شخص کی بے وقوفی پر ہنسی آگئی اور ہنستے ہوئے اسے کہا اس طرح کیا فرق پڑتا ہے ہزاروں مچھلیاں ہیں کتنی بچاؤگے؟ یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی پھر اس نے سکون سے دوسرے شخص کو کہا اسے فرق پڑا۔

یہ کہانی ہمیں سمجھارہی ہے کہ اس وقت عوام کی حالت بھی ان مچھلیوں سے مختلف نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔