لُوڈینگ پنگ، دنیا کی واحد ’ اسپائیڈروومن ‘

غزالہ عامر  جمعرات 28 ستمبر 2017
لوڈینگ روزانہ صبح آٹھ بجے سے شام چھے بجے تک کئی بار اس خطرناک فن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ فوٹو: نیٹ

لوڈینگ روزانہ صبح آٹھ بجے سے شام چھے بجے تک کئی بار اس خطرناک فن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ فوٹو: نیٹ

الین رابرٹ کے نام سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ فرانس سے تعلق رکھنے والا یہ شخص رسی یا دوسرے اوزاروں کی مدد کے بغیر محض ہاتھ پاؤں کے ذریعے چٹانوں اور فلک بوس عمارتوں پر چڑھنے کے لیے شہرت رکھتا ہے۔

الین مختلف ممالک کی مشہور عمارتیں سَر کر چکا ہے جن میں مشہور زمانہ برج خلیفہ بھی شامل ہے۔ جرأت اور بے خوفی سے آراستہ منفرد ٹیلنٹ کی بنا پر وہ اسپائیڈرمین کی عرفیت سے مشہور ہوچکا ہے۔ الین کی طرح کئی اور افراد بھی اس ٹیلنٹ کے مالک ہیں مگر اس فیلڈ میں عورت صرف ایک ہی ہے۔

لُو ڈینگ پنگ کا تعلق چین کے صوبے گوئیژو سے ہے۔ وہ سو میٹر اونچی عمودی چٹان پر محض ہاتھ پاؤں سے کام لیتے ہوئے چڑھ جاتی ہے۔ لُوڈینگ کا تعلق جنوب مغربی چین کے پہاڑی علاقے میں بسنے والے میاؤ قبیلے سے ہے۔ چٹانوں اور پہاڑیوں پر چڑھنے کی تربیت قبیلے کے لوگ بچپن ہی سے حاصل کرنے لگتے تھے۔ اس کی وجہ وہ قدیم روایت تھی جس کے تحت مُردوں کو پہاڑی چوٹی پر بنے غاروں میں رکھ دیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت اہمیت کھونے لگی اور مُردوں کو زمین دفن کیا جانے لگا مگر مرد پھر بھی روزانہ پہاڑیوں اور چٹانوں پر چڑھا کرتے تھے۔ اس کی وجہ جڑی بوٹیوں کی تلاش تھی جن کی فروخت سے وہ اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالتے تھے۔

مغربی دواؤں کی مقبولیت بڑھنے لگی تو وہ روزگار کے دوسرے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یوں ان کے لیے عمودی پہاڑیوں اور چٹانوں پر چڑھنے کا جواز ختم ہوگیا۔ آج میاؤ قبیلے چند ایک ہی افراد اس قدیم روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جن میں لوڈینگ واحد عورت ہے۔ میاؤ قبیلے میں مُردوں کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے اور بعدازاں جڑی بوٹیوں کی تلاش کے لیے مرد ہی عمودی چٹانوں پر چڑھا کرتے تھے، مگر لوڈینگ پنگ نے یہ روایت توڑ دی۔

اس کا سبب یہ تھا کہ لوڈینگ کے والد ماہر کوہ پیما تھے مگر ان کا کوئی بیٹا نہ تھا جو قبیلے کی اس قدیم رسم کو زندہ رکھتا۔ چناں چہ یہ ذمہ داری لوڈینگ نے اپنے سَر لے لی۔ اس نے گاؤں کے قریب واقع عمودی چٹان پر چڑھنے کی مشق شروع کردی۔ اس وقت اس کی عمر پندرہ سال تھی۔ ابتدا میں وہ بڑی گھبرائی مگر والد کی جانب سے حوصلہ افزائی پر اس نے دل جمعی کے ساتھ کوہ پیمائی کی تربیت لینی شروع کردی۔ اسے یہ صلاحیت والد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ چناں چہ مختصر عرصے میں وہ اس فن میں ماہر ہوگئی۔

نوجوانی میں لوڈینگ نے گاؤں چھوڑ دیا اور شہر آکر محنت مزدوری کرنے لگی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ گاؤں لوٹ گئی اور شادی کرلی۔ اس کا شوہر ٹرک ڈرائیور ہے۔ گھر کے خرچ میں شوہر کا ہاتھ بٹانے کی غرض سے وہ جڑی بوٹیوں کی تلاش میں قریبی پہاڑیوں اور چٹانوں پر چڑھ جاتی تھی۔ پھر دو سال پہلے مقامی حکومت نے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک پہاڑی مقام کی تشہیری مہم شروع کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاحوں کی تفریح طبع کے لیے کوہ پیماؤں کی خدمات بھی حاصل کرنے لگی جو محض ہاتھوں اور پاؤں کے ذریعے طویل عمودی چٹانوں پر چڑھنے کا مظاہرہ کرسکیں۔

حکومت کو ایسے چھے افراد دستیاب ہوسکے جن میں سینتیس سالہ لوڈینگ واحد عورت ہے۔ لوڈینگ روزانہ صبح آٹھ بجے سے شام چھے بجے تک کئی بار اس خطرناک فن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کے عوض اسے ماہانہ تین ہزار یوآن ملتے ہیں۔ معاوضہ اگرچہ کم ہے مگر لوڈینگ کے لیے یہ ملازمت یوں موزوں ہے کہ یہ سیاحتی مقام اس کے گھر سے تھوڑی ہی دور ہے، اور وہ اوقات کار کے دوران وقفہ لے کر اپنے دو بچوں کی خبرگیری کے لیے بھی پہنچ جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔