- بھارتی چینل میں مصنوعی ذہانت پر مبنی پہلی ’’اینکر‘‘ متعارف
- عدالتی اصلاحات سے متعلق بل 2023 قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور
- فیٹف کے بعد پاکستان کے نام ایک اور بڑی کامیابی؛ ہائی رسک ممالک سے نام خارج
- مجھے نہیں لگتا پاکستان 2023 ورلڈکپ کیلئے بھارت میں میچز کھیلے گا، وسیم خان
- کرسی پر میں بیٹھوں گا! نگراں وزیر اطلاعات کے پی اور سیکریٹری اطلاعات میں تنازع
- یونان؛ یہودی عبادت گاہ پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں 2 پاکستانی گرفتار
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کی ون ڈے میں بادشاہی برقرار، ٹی20 میں راشد کا پہلا نمبر
- بھارت میں جیولری کی دکان میں فلمی انداز میں چوری
- سپریم کورٹ ججز آمنے سامنے ہوں تو پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا چاہیے، وزیرداخلہ
- انتخابات ایک دن میں ممکن نہ ہوں، تو دو دن بھی ہوسکتے ہیں، چیف جسٹس
- طیبہ گل ہتک عزت کیس؛ سابق ڈی جی نیب عدالت میں پیش
- تائیوان کی صدر سے ملاقات کی تو امریکا جنگ کیلیے تیار رہے؛ چین
- دی ہنڈریڈ؛ مائیک ہسی نے شاہین، حارث سے توقعات وابستہ کرلیں
- جسٹس نقوی کیخلاف ریفرنس؛ شکایت کنندہ نے بیان حلفی جمع کرادیا
- ہاؤسنگ سوسائٹی ریفرنس؛ خواجہ برادران کیخلاف نیب ریفرنس واپس
- کھاتے وقت منہ سے نکلنے والی آوازیں دوسروں کیلیے ذہنی اذیت بن سکتی ہیں
- شہباز گل کو چار ہفتوں کے لیے امریکا جانے کی اجازت
- بابراعظم کپتان ہیں، انہیں عمر اکمل کے کم بیک کا دیکھنا ہے، سابق کرکٹر
- جج دھمکی کیس؛ عمران خان کے ایک بار پھر ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
- کراچی کی 6 یو سیز میں دوبارہ گنتی روکنے کے حکم میں توسیع
1992 سے 2009 تک 84 ارب کے قرضے معاف کیے گئے
740کیسز میں سنگین بے قاعدگیاں،سول اور ملٹری بیورو کریسی سے بینکار خوفزدہ ہیں. فوٹو: فائل
اسلام آباد: قرضہ معافی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1992 سے2009 تک84ارب 62 کروڑسے زائد جبکہ1971 سے1991 تک2 ارب 16 کروڑ کے قرضے معاف کیے گئے سیاسی بنیاد پر قرضوں کی معافی کا کوئی ثبوت نہیں دیاگیا۔
بینکار ،سول اور ملٹری بیورو کریسی سے خوفزدہ ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے قرضہ معافی مقدمات کی تحقیقات کیلیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جسٹس ریٹائر جمشید علی کی سربراہی میں قائم اس کمشین نے اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے جس کے مطابق قرضہ معافی کے740مقدمات کی تحقیقات کی گئیں جن میں سنگین بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں، بینکوں اور مالیاتی اداروں نے بااثر افراد کو بچانے کیلیے قرضوں سے متعلق معلومات کمیشن سے چھپائیں اور مالیاتی اداروں نے قرضہ معافی کی صرف کاروباری وجوہات بیان کی ہیں اور سیاسی اور دیگر بنیادوں پر قرضہ معافی کا کوئی ذکر رپورٹ میں موجود نہیں ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بینکر، سول اور ملٹری بیوروکریسی سے خوفزدہ ہیں اور انھوں نے کمیشن کو تفصیلات فراہم نہیں کیں۔رپورٹ میں 700کمپنیوں کے نام دیے گئے ہیں اور کہا ہے کہ قرضہ معاف کرانے والے ملزمان نے دستاویزات پر اپنے فنگر پرنٹس نہیں چھوڑے،کمیشن نے قرضوں کی معافی کیلیے 4 سفارشات دی ہیںاول یہ کہ جنھیں قرضہ دیا گیاان سے صرف اصل زر وصول کیا جائے،دوسرا کہ پھر اصل رقم اور جمع شدہ رقم کا فرق وصول کرلیا جائے، تیسرا کہ قرضوں کی معافی کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ریٹائر جج پر مشتمل ٹریبونل بنائے جائیں،چوتھا یہ کہ قرضوں کی معافی کیلیے نئی قانون سازی کی جائے تاکہ قومی خزانے کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی ہوسکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔