بھارت نے انھیں پناہ کیوں دے رکھی ہے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 29 ستمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ میانمار(برما) کے اُن چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکال کر دَم لیں گے جنہوں نے (برمی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر) بھارت میں پناہ لے رکھی ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مگر بھارت اپنے چار ہمسایہ ممالک کے اُن لوگوں کو خوش دِلی سے اپنے ہاں پناہ بھی دے رہا ہے اور اُن کے جُملہ بھاری اخراجات بھی اُٹھا رہا ہے جو اپنی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے کارن اِن ممالک کو مطلوب ہیں۔ بھارت اِنہیں پناہ فراہم کرکے دراصل اپنے بڑے ایجنڈوںکی تکمیل چاہتا ہے۔یہ ایجنڈے کیا ہیں اور یہ عناصر کون ہیں اور کہاں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، ہم اِسی کا جائزہ لیں گے تاکہ معلوم ہو کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کوکن کن اشکال میں زِچ کرنے اور اِن ممالک میں دخیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

پانچ ممالک بھارت کے بڑے پڑوسی ہیں: میانمار، سری لنکا، پاکستان، چین اور بنگلہ دیش۔پانچ میں سے چار ممالک کے قومی مجرموں کو بھارت اپنے ہاں پناہ دے رہا ہے۔ اُس نے بنگلہ دیش کی ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کو اپنے ہاں برسوں سے پناہ دے رکھی ہے۔ بھارت میں اُس کی پناہ گیری بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لیے مسلسل دل آزاری کا باعث بن رہی ہے۔ بھارت میں بیٹھ کر یہ ’’محترمہ‘‘ بنگلہ دیشی حکومتوں اور بنگلہ دیش کی مسلمان مذہبی جماعتوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں اُس نے نئی دہلی میں بروئے کار India Ideas Conclaveفورم میں جو تقریر کی ہے، اِس نے ایک بار پھر بنگلہ دیش اور تمام مسلمانوں کا دل دکھا دیا ہے ۔ بنگلہ دیش کو مسلسل دباؤ میں رکھنے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے بھارت بڑی چالاکی سے ڈاکٹر تسلیمہ نسرین کو بطور ِ ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

چین اور بھارت کے درمیان جو نفرت پائی جاتی ہے، اِس میں ایک عنصر دلائی لامہ کو پناہ دینے کا بھی ہے۔اپنے ہمسایوں پر اپنی مرضی کے مطابق اثر انداز ہونے اور ہمسایہ ممالک میں دخیل ہونے کی بھارتی عادت اتنی پُختہ ہو چکی ہے کہ بھارت کی طرف سے سری لنکاکے سب سے بڑے دہشتگرد اور علیحدگی پسند پر بھاکرن نامی لیڈر کو بھی بار بار پناہ دی جاتی رہی ہے۔ بھارت پربھاکرن کو پناہ بھی دیتا تھا، اسلحہ بھی فراہم کرتا تھا، سری لنکن علیحدگی پسندوں کو (بھارتی صوبے تامل ناڈو میں) تربیت بھی دیتا تھا اور علیحدہ وطن بنانے کے مشورے بھی۔ کنور نٹور سنگھ صاحب نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ 256پر اِس بارے میں بھی کئی انکشافات کیے ہیں۔کوئی تین عشرے ، اِسی وجہ سے، سری لنکا اور بھارت کے تعلقات سخت کشیدہ رہے ہیں۔ دہشتگرد پر بھاکرن کی وجہ سے سری لنکا میں جو سیکڑوں دہشتگرد اور سری لنکن سیکیورٹی فورسز کے جوان مارے گئے، اُن سب کے خون کے چھینٹے بھارتی دامن پر بھی صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں ثبوت کے لیے سابق سری لنکن صدر جناب مہندا راجہ پاکسا کا انٹرویو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔بھارت کی طرف سے سری لنکن دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا یہ سلسلہ برسوں جاری رہا ہے، حتیٰ کہ ایک روز سری لنکن فوج کے ہاتھوں دہشتگرد پربھاکرن بہت بُری طرح قتل ہو گیا۔

بھارت یہی ہتھکنڈے پاکستان کے خلاف بھی استعمال کرتا آ رہا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دَور میں بھارت نے پاکستان کے کئی افراد(جن میں سے کئی افراد واپس آچکے ہیں اور اب بھی زندہ ہیں) کو اپنے ہاں پناہ اور مالی امداد فراہم کرتے ہُوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے ، خصوصاً بلوچستان کے حوالے سے، یہ ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری کر رکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف ان بھارتی وارداتوں میں تیزی بھی آئی ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہُوا ہے۔ مبینہ طور پر ’’بی ایل اے‘‘( بلوچستان لبریشن آرمی) کے کئی افراد کو بھارت نے دانستہ اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ بلوچستان میں وہ مُٹھی بھر لوگ جنہوں نے انارکی اور نام نہاد علیحدگی پسندی کی ’’تحریک‘‘ شروع کر رکھی ہے، ان کے ’’لیڈر‘‘ خفیہ طور پر(براستہ افغانستان) بار بار بھارت کے دَورے کرتے ہیں۔

مبینہ طور پر یہ عناصرفرار ہو کر پہلے افغانستان جاتے ہیں اور پھر وہاں سے انھیں پوری سہولیات کے ساتھ بھارت بھجوا دیا جاتا ہے۔بھارتی وارداتیں اب کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔ اگر ہم سابق پاکستانی وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری کی سفارتی یادوں پر مشتمل کتاب Neither a Hawk Nor a Dove کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت اب تک کن کن علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کو اپنے ہاں دَورے کروا چکا ہے(مثلاً: براہمداغ بگٹی کے بھارتی خفیہ دَورے) پاکستان کو ان افراد کی تمام سرگرمیوں کی پَل پَل کی خبر ہے(قصوری صاحب کی مذکورہ کتاب کا صفحہ 524)۔بھارت نے نبیلہ قادری نامی ایک پاکستانی  خاتون کو بھی اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور اُسے بھارت بھر میں پرموٹ کیا جارہا ہے تاکہ بلوچستان کے نام پر پاکستان کے خلاف گند اچھالا جا سکے، حالانکہ بنیادی طور پر اِس خاتون کا تعلق بلوچستان سے ہے ہی نہیں۔بلوچستان کے خلاف بھارت نے اپنے ریٹائرڈ فوجی اور سابق سینئر انٹیلی جنس افسروں کی نگرانی میں ’’ہند بلوچ فورم‘‘ نام کی جو تنظیم بنائی ہے۔

اِس کی نام نہاد کانفرنسوں میں جن مقررین کو مدعو کیا جاتا ہے، بھارتی میڈیا میں یہ شو کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق پاکستانی صوبے بلوچستان سے ہے اور انھوں نے ’’ڈر کے مارے‘‘ بھارت میں پناہ لے رکھی ہے(مثلاً: جولائی 2017ء کو بنگلور میں ’’ہند بلوچ فورم‘‘ کے تحت کانفرنس کا انعقاد) بھارت نے جن پاکستانی افراد کو دانستہ اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور انھیں جن مقاصد کے تحت پالا پوسا جا رہا ہے، یہ بلّی بھی اب تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ ان میں سے کچھ افراد کو بھارت سے سوئٹزر لینڈ بھجوایا گیا۔ ستمبر2017ء کے تیسرے ہفتے، منصوبے کے مطابق،ان افراد نے سوئٹزر لینڈ میں پہلے سے موجود بعض بلوچ ’’لیڈروں‘‘ سے مل کر جنیوا میں پاکستان کے خلاف (اور’’ آزاد بلوچستان‘‘ کے حق میں) پوسٹر لہرائے۔ پاکستان نے اس پر سخت الفاظ میں سوئٹزر لینڈ سے احتجاج تو کیا ہے لیکن لگتا ہے پاکستان مخالف بھارتی وارداتیں جلد رُکنے والی نہیں ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے نیویارک میں’’ایشیا سوسائٹی‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے بجا کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی وارداتیں، براستہ افغانستان، مسلسل جاری ہیں۔ امریکا مگر ایک کان سے پاکستان کی یہ شکایات سُنتا ہے اور دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔