حرفِ شوق

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 29 ستمبر 2017

مختار مسعود کو علی گڑھ سے عشق تھا۔ یوں تو جو علی گڑھ پڑھنے گیا وہ اس کے سحر سے کبھی آزاد نہیں ہوا۔ مختار مسعود کا تو بچپن، لڑکپن اور جوانی کا ہوش آنے تک کا زمانہ علی گڑھ میں گزرا ۔ انھوں نے علی گڑھ سے اپنی محبت کی داستان ’’حرفِ شوق‘‘ میں بیان کی ہے ۔ یہ داستان وہ اپنے بچپن کے ایک دوست کو سنانا چاہتے تھے لیکن اس خواہش کی تکمیل سے پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اب یہ کہانی شایع ہوئی ہے تو خود مختار مسعود اس دنیا میں نہیں۔

مختار مسعود کی اپنے کالج سے محبت کی کہانی اسٹریچی ہال کے گرد گھومتی ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مرکزی ہال ہے۔ یہ عمارت جان اسٹریچی سے منسوب ہے جو یوپی کا لیفٹیننٹ گورنر تھا اور جس نے سرسید کوکالج کے لیے علی گڑھ میں زمین دی تھی۔ یونیورسٹی کے صدر دروازے کا نام وکٹوریہ گیٹ ہے۔ جو نوجوان علم کی تلاش میں علی گڑھ پہنچتا ہے، سب سے پہلے یہاں آتا ہے۔ اس کے بعد صحن ہے جو سرسید ہال کی عمارتوں سے گھرا ہوا ہے۔ سامنے اسٹریچی ہال کی عمارت ہے۔ سرسید نے اس ہال کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیل کی تھی، پانچ سو روپیہ چندہ دینے والوں کے نام ہال کی شمالی دیوار پر کندہ ہیں۔ مختار مسعود کہتے ہیں کہ یہ نام ہال کی دیوار پر ہی نہیں، نیکی کی کتاب اور تاریخ کے حاشیے پر بھی لکھے ہیں۔ سرسید نے اسٹریچی ہال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’جس جگہ ہم لوگ اس وقت جمع ہیں، ایک روز وہ اولوالعزم نوجوانوں کی بے تاب تمناؤں کا مرکز بنے گی اور یہاں سے علمی سرفرازی کے قافلے روانہ ہوں گے۔‘‘

اسٹریچی ہال کی عمارت کے بارے میں مختار مسعود لکھتے ہیں ’’مینار، فصیلیں، خندقیں، دیوان ہائے خاص و عام بادشاہوں کے محلات اور کسی حد تک مقبروں کو ہی زیب دیتے ہیں۔ علم و حکمت کے مسکن کو باوقار سادگی اور مسکنت کی خودداری درکار ہوتی ہے۔ اسٹریچی ہال کی کرسی دانستہ بہت نیچی رکھی گئی ہے۔ ایسے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے کا کارشناس، صاحب ذوق اور صاحب دل ہونا ضروری ہے۔ علی گڑھ کے بانی میں یہ سب خوبیاں موجود تھیں۔‘‘

اسٹریچی ہال کی تقریب افتتاح 1893 میں ہوئی۔ 28 مارچ 1898 میں سرسید کا انتقال ہوگیا۔ سرسید کو یونیورسٹی کی مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا جو اسٹریچی ہال سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ تعزیتی جلسہ اسٹریچی ہال میں ہوا۔ مسلم یونیورسٹی کا پہلا کانووکیشن 1922 میں اسی ہال میں منعقد ہوا۔ مسلم یونیورسٹی کی خاتون چانسلر، بھوپال کی حکمراں سلطان جہاں بیگم نے صدارت کی اور خطبہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس دانشگاہ کا حاصل ایسے طلبا ہوں جو اپنی زندگی علم کے لیے وقف کردیں۔

مختار مسعود نے اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے حوالے سے قائد اعظم کی دو تقریروں کا ذکر کیا ہے۔ ایک وہ جو انھوں نے 1837 میں اسٹریچی ہال میں کی تھی اور دوسری وہ آخری تقریر جو انھوں نے اسی ہال میں 1944 میں کی تھی۔ پہلی تقریر میں انھوں نے برطانوی ہند میں ہندو مسلم یک جہتی کے لیے اپنی کوششوں کا ذکر کیا تھا، دوسری تقریری میں انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ ہندو مسلم ایک نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کا وجود میں آنا یقینی ہے۔ مختار مسعود لکھتے ہیں ’’میں نے یہ اعلان ایک عالم سرشاری میں سنا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان وجود میں آگیا۔ میں اس وقت اسٹریچی ہال کی پست اور مختصر اسٹیج کے نیچے قائد اعظم کے قدموں میں بیٹھے ہوئے طلبا میں شامل تھا۔

علی گڑھ میں اپنے بچپن کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے مختار مسعود لکھتے ہیں۔ ’’ہمارا علاقہ تار والا بنگلہ کہلاتا تھا۔ یہاں اساتذہ کے بہت سے گھر بنے ہوئے تھے۔ بیچ میں ایک تکونا سا میدان تھا جہاں بچے سہ پہر کو کھیلا کرتے تھے۔ ہمارے گروہ میں بیس پچیس لڑکے تھے۔ وہ صبح سویرے تیار ہوکر اسکول کی راہ لیتے۔ چھوٹے بچے یونیورسٹی اسکول کے ظہور وارد کا رخ کرتے (جہاں پہلی سے چوتھی کلاس کی تعلیم ہوتی تھی)۔ بڑے لڑکے منٹو سرکل کی پرشکوہ قلعہ نما عمارت کی طرف روانہ ہوجاتے۔ ہائی اسکول کی یہ عمارت طلبا کے لیے ان کی کل کائنات تھی۔‘‘

میٹرک پاس کرنے کے بعد مختار مسعود نے اسکول کو خیرآباد کہا۔ چونکہ یہ یونیورسٹی کے علاقے میں ایک مدت سے رہتے تھے اس لیے انھیں مغالطہ تھا کہ وہ یونیورسٹی کو بھی اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ اسکول کو۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دونوں اداروں کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے جو سال بہ سال بڑھتا جائے گا۔‘‘

انٹرمیجیٹ کو مختار مسعود نے بڑا دلچسپ پایا۔ فضا کی وسعت دیکھی تو حیران رہ گئے۔ اسکول بہت یاد آیا، محدود فضا، صرف ایک راستہ، ایک ہی رخ ۔ بچپن سے لڑکپن تک بس ایک ہی عنوان تھا، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔ یونیورسٹی میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ نوجوانی کے سامنے سو راستے ہوتے ہیں۔ بی اے میں پڑھائی کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ بڑی بڑی ضخیم نصابی کتابیں ختم کرو اور حوالہ جات کے تعاقب میں دور نکل جاؤ۔ بی اے کے امتحان کا نتیجہ آیا مئی 1946 میں۔ فرسٹ ڈویژن میں مختار مسعود نے تیسری پوزیشن حاصل کی، معاشیات اور سیاسیات میں اول اور انگریزی میں دوم آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1984 میں ان کی صاحبزادی عالیہ مسعود نے پنجاب یونیورسٹی کا بی اے کا امتحان اسی ڈویژن اور اسی پوزیشن میں پاس کیا۔ مختار مسعود ایم اے میں آئے تو معاشیات ان کا مضمون تھا۔ دوسرا سال شروع ہونے والا تھا تو ملک کو آزادی مل گئی۔ ایم اے کا آخری سال ہنگاموں اور فسادات کا سال ثابت ہوا۔ نتیجہ آیا تو معاشیات میں ان کی فرسٹ پوزیشن تھی۔ مختار مسعود کے والد پروفیسر شیخ عطا اللہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد تھے۔

مختار مسعود کو علی گڑھ سے جتنی محبت تھی اتنی ہی عقیدت علی گڑھ کالج کے بانی اور روح رواں سرسید سے تھی۔ان کا ایک طویل مضمون جو ’’حرفِ شوق‘‘ میں شامل ہے اس سوال کے جواب میں ہے کہ سرسید احمد خان کون تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جس طوفان نوح میں برعظیم کے مسلمانوں کا کوئی ہزار سالہ اقتدار غرق ہوگیا تھا اس سے بچنے کے لیے چند مسلمان جنھیں کبوتر بازی، شطرنج اور مجرے کی لت نہیں پڑی تھی، ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی آرمینیا میں کوہ آراراٹ کے بجائے علی گڑھ میں وکٹوریہ گیٹ پر آکر ٹھہری۔ اس میں سے جو شخص سب سے پہلے اترا اس کا نام سید احمد تھا۔‘‘

مختار مسعود لکھتے ہیں ’’سرسید ایک بلند کردار انسان تھے۔ روشن خیال اور روشن دماغ شخص۔ انھیں یقین تھا کہ اگر برعظیم کے مسلمان جدید مغربی تعلیم بالخصوص سائنسی علوم اور تکنیکی فنون سے محروم رہیں گے تو ان کا کوئی سیاسی، معاشی اور معاشرتی مستقبل نہیں ہے۔ اسلام پر سرسید کا یقین کامل اور پرخلوص تھا۔ انھوں نے اپنے تن من اور دھن کو جدید تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کردیا۔ ان کا مدرسہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مثالی ادارہ بن گیا۔ 1883 میں انڈین ایجوکیشنل کمشنرز نے اس رائے کا اظہارکیا کہ بعض معاملات کے لحاظ سے یہ ادارہ جس کے بانی سرسید احمد خان ہیں، ہندوستان کے تمام تعلیمی اداروں سے افضل ہے۔‘‘

مختار مسعود سوال کرتے ہیں کہ وہ کون سے معاملات تھے جن کے لحاظ سے سرسید کا مدرسہ آغاز سے آٹھ سال کے بعد، کالج کا سنگ بنیاد نصب ہونے کے چھ سال کے بعد اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے موسوم ہونے کے صرف دو سال کے بعد ہندوستان کے تمام تعلیمی اداروں سے افضل قرار پایا؟ جب انھیں اس سوال کا جواب کہیں سے ملتا نظر نہیں آیا تو انھوں نے خود جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ سرسید پر ان کا مضمون ان کے سوال کا جواب ہے اور بہت خوب ہے۔

’’حرفِ شوق‘‘ میں ایک اور مضمون ’’باعث تحریر‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کی تحریک مختار مسعود کے بچپن کے دوست اور اسکول کے ساتھی، ریاض الرحمن خاں شروانی کے ایک خط سے ہوئی جس میں وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مختار مسعود نے اردو نثری ادب کو سیراب کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ مختار مسعود نے اس کا جواب بڑی تفصیل اور خوبصورتی سے دیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’وجوہات کی فہرست بنی۔ ذرا طویل تھی۔ مختصر کرتے کرتے تین محرکات پر آکر رک گیا۔ ایک نصیحت۔ ایک کتاب، ایک کنواں۔‘‘ ان تین محرکات کو جاننے کے لیے آپ کو پورا مضمون پڑھنا پڑے گا۔ ہاں اگر اس ترغیبی تحریر کی نشان دہی مطلوب ہو جس کی مثال، کشش، انگیخت اور فیضان نے مختار مسعود کو سنجیدگی سے اردو نثر لکھنے پر آمادہ کیا تو وہ ابوالکلام آزاد کی ’’غبارِخاطر‘‘ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔