غیر قانونی اسلحہ، نیا قانون کراچی پولیس میں ’’مک مُکا‘‘ کیسے روکے گا

مظہر عباس  اتوار 24 فروری 2013
شاہ زیب قتل کیس میں بھی ’’مک مکا‘‘ ہورہا ہے،بڑا حصہ بہرحال پولیس کو ملے گا، اگلے چند روز میں تصویرواضح ہوجائے گی. فوٹو ایکسپریس

شاہ زیب قتل کیس میں بھی ’’مک مکا‘‘ ہورہا ہے،بڑا حصہ بہرحال پولیس کو ملے گا، اگلے چند روز میں تصویرواضح ہوجائے گی. فوٹو ایکسپریس

کراچی: غیرقانونی اسلحہ رکھنے کی زیادہ سے زیادہ سزا 3 سال سے بڑھا کر 14سال کرنے اور جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے کے نئے قانون سے کیا پولیس اور ملزم میں ’’مک مکا‘‘ بھی روکا جاسکتا ہے یا اس میں اضافہ ہوگا؟۔

ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز مظہر عباس نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ کراچی میں اس وقت سیکڑوں بلکہ ہزاروں غیرقانونی ہتھیار موجود ہیں اور پولیس روزانہ اس جرم میں اوسطاً 25سے 30ملزم گرفتار کرتی ہے۔ 90فیصد واقعات میں غیرقانونی اور بلالائسنس اسلحہ ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کیا گیا۔ یوں نئے قانون کے تحت ٹارگٹ کلنگ میں گرفتار افراد کی ضمانت نہیں لی جاسکے گی۔ نئے قانون کے تحت غیرقانونی اسلحہ رکھنے پر پکڑے جانے والے کسی ملزم کی ضمانت نہیں ہوسکتی، مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے بجائے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں چلایا جائیگا۔

کیس کی تفتیش پر ایس پی رینک کے پولیس افسر کی رپورٹ بھی لازمی ہوگی اور جرم ثابت ہونے پر 14سال قید کی سزا دی جائے گی۔ نئے قانون میں موجودہ ایکٹ کی دفعہ 13ڈی ختم ہوجائیگی جس کے تحت جرم قابل ضمانت تھا اور زیادہ سے زیادہ سزا 3 سال ہے۔ البتہ ایسی شقیں موجود ہیں جن سے ملزم کے ساتھ ’’مک مکا‘‘ کرنے کے معاملے میں پولیس افسر کو مزید اختیارات مل جائیں گے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں پولیس انتہائی بدعنوان ہو اور خود کئی جرائم میں ملوث ہو وہاں نئے قانون میں انھیں گرفتار ملزموں پر دبائو ڈالنے کیلیے مزید اختیارات مل جائیں گے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے برعکس اس قانون میں تفتیش مکمل کرنے کا کوئی مخصوص دورانیہ بھی مقرر نہیں کیا گیا۔

مثال کے طور پر نئے قانون کے تحت ملزم کو اسی صورت میں سزا مل سکتی ہے اگر 2پولیس افسر شواہد کی مشترکہ توثیق کریں اور ملزم کے خلاف بیان دیں۔ پہلے قانون میں علاقے کے کسی معزز شخص کی گواہی ضروری تھی تاہم نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس افسر اگر غلط بیانی کا مرتکب ہوگا تو اسے بھی 3سال قید کی سزا ملے گی۔ اب کوئی ملزم کیسے ثابت کرے گا کہ اسے غلط طور پر ملوث کیا گیا ہے اور وہ مستقبل میں پولیس کی دست برد سے کیسے محفوظ رہے گا۔ ایک ایسی پولیس جو سیاست زدہ اور جرائم تک میں ملوث ہو وہ ان ’’وی آئی پی‘‘ اور ’’وی وی آئی پی‘‘ افراد کے بچوں کے کیسے پکڑے گی جو سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں غیرقانونی اسلحہ لیکر گھومتے ہیں۔ لاکھوں افراد سال نو اور جلسوں کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں۔ کیا انھیں بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے یا سزا دی جاسکتی ہے۔

8

اس بات کی وجوہ موجود ہیں کہ پولیس آخر عدالتوں بالخصوص اعلیٰ عدلیہ میں اسلحے کے مقدمات کیوں ہار جاتی ہے۔ اس کی وجہ کمزور پراسیکیوشن ہوتی ہے۔ کیس اس طرح تیار کیے جاتے ہیں کہ فائدہ ملزم پارٹی کو ہوتا ہے۔ حال ہی میں شاہ زیب قتل کیس میں بااثر شخص سکندر جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو میڈیکل رپورٹ میں گڑبڑ کرکے بچانے کی کوشش کی گئی تاہم کیس کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیے جانے کے باعث انھیں فائدہ نہ پہنچ سکا۔ یہ بات اب بھی ایک سربستہ راز ہے کہ ملزم کس طرح بیرون ملک فرار ہوا اور شاید یہ کبھی معلوم نہ ہوسکے کہ شاہ رخ جتوئی کو مک مکا کے بغیر کس نے باہر جانے کی اجازت دی۔ کم ازکم ملزم کو نابالغ ظاہر کرنے والے ڈاکٹروں اور پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

اس کیس میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ریمارکس دیے کہ ’’ کراچی کا ائیرپورٹ اگر اتنا غیرمحفوظ ہے کہ ملزم کسی مشکل کے بغیر بیرون ملک فرار ہوگیا تو کل کو کوئی دہشت گرد بھی باہر بھاگ سکتا ہے‘‘۔ جناب عالی !ماضی میں اسی قائداعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے کئی دہشت گرد بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ شاہ زیب قتل کیس میں ایک اور ’’مک مکائو‘‘ ملزم پارٹی اور پولیس میں ہورہا ہے چونکہ مدعی پارٹی غریب ہے اور ملزم پارٹی سے کچھ رقم ملنے پر وہ مطمئن ہوسکتی ہے۔ اس ریستوران کو بھی رقم ملے گی جہاں وقوعہ رونما ہوا تھا لیکن مک مکا کا بڑا حصہ بہرحال پولیس کو ملے گا۔ اگلے چند روز میں تصویر واضح ہوجائے گی ۔

ان حالات میں غیرقانونی ہتھیاروں کی روک تھام کا نیا قانون ’’مک مکائو‘‘ پر کیسے نظر رکھ سکے گا جبکہ کیس کو ناقابل ضمانت بھی قرار دیا گیا ہے ۔ اب مک مکائو کی شرح پہلے سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس طرح پولیس کو سیاست سے پاک اور مکمل پیشہ ور بنانے تک قانون میں ترمیم کا فائدہ صرف پولیس کو ہوگا۔ اعلیٰ پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں روزانہ اوسطاً 25سے 30ملزم غیرقانونی اسلحہ رکھنے پر حراست میں لیے جاتے ہیں اور پھر ان کی ضمانت پر رہائی ہوجاتی ہے، دیکھتے ہیں نئے قانون کے تحت اگلے دو تین ماہ میں یہ تعداد کتنی ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔