اقوامِ متحدہ نے روہنگیا مسئلہ میانمار حکومت کے سامنے اٹھانے سے روکا، بی بی سی کا انکشاف

ویب ڈیسک  جمعـء 29 ستمبر 2017
میانمار میں بی بی سی کے نامہ نگار جوناہ فشر نے روہنگیا مسئلے پر اقوامِ متحدہ کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

میانمار میں بی بی سی کے نامہ نگار جوناہ فشر نے روہنگیا مسئلے پر اقوامِ متحدہ کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ینگون: میانمار (برما) میں بی بی سی کے رپورٹر جوناہ فشر نے اپنی تازہ رپورٹ میں اقوامِ متحدہ اور امدادی کارکنوں سے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کی قیادت نے روہنگیا حقوق کے معاملات کو حکومت کے سامنے اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

جوناہ فشر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ایک سابق عہدے دار نے انہیں بتایا کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا کے حساس علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے کی بھی کوشش کی۔ البتہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے عملے نے بی بی سی کی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی ہے۔

بی بی سی اردو پر مذکورہ رپورٹ کا مکمل ترجمہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

تاہم اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں اور میانمار کے اندر اور باہر موجود امدادی کارکنان نے نمائندہ بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ بحران سے چار سال قبل میانمار میں اقوامِ متحدہ کی ملکی ٹیم کے کینیڈین سربراہ رینیٹا لوک ڈیسیڈیلین نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی، اس معاملے پر لوگوں کو آواز اٹھانے سے روکا، اور عملے کے ان ارکان کو الگ تھلگ کر دیا جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہاں نسل کشی کی جا رہی ہے۔

اس بلاگ کو بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی 250 سالہ تاریخ

ایک امدادی کارکن کیرولین وانڈینا بیلے کا حوالہ دیتے ہوئے جوناہ فشر لکھتے ہیں کہ کیرولین نے 1993 اور 1994 میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے موقعے پر وہاں کام کیا تھا۔ اپنے تجربے کی روشنی میں کیرولین کا کہنا تھا کہ جب وہ میانمار آئیں تو انہیں یہاں بھی ویسے ہی حالات دیکھنے کو ملے کہ جن کا مشاہدہ وہ روانڈا میں نسل کشی کے موقعے پر کرچکی تھیں۔

کیرولین نے فشر کو بتایا کہ وہ کچھ برمی تارکینِ وطن اور تجارتی برادری کے لوگوں سے ریاست رخائن (راکھین) اور روہنگیا کے بارے میں بات کر رہی تھیں کہ ان میں سے ایک نے کہا ’’ہمیں انہیں یوں قتل کر دینا چاہیے جیسے وہ کتے ہوں۔‘‘ کیرولین بتاتی ہیں کہ ان کےلیے انسانوں میں ایسا غیر انسانی رویہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ اندرونی طور پر ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اس قسم کی بات کو قبول کرلیا جاتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام میں پولیس مدد کررہی ہے، بی بی سی

رپورٹ کے مطابق 2012 میں روہنگیا مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان جھڑپوں میں ایک سو سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے جبکہ تقریباً ایک لاکھ روہنگیا بےگھر ہوئے تھے، جس کے بعد سے وہاں تشدد کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہے۔ اس پیچیدہ صورتِ حال میں اقوامِ متحدہ کے عملے کو احساس تھا کہ روہنگیا کے انسانی حقوق کے معاملے پر آواز بلند کرنے سے بہت سے بودھ پیروکار ناراض ہوجائیں گے۔

نتیجتاً اقوامِ متحدہ کے عملے کےلیے روہنگیا کے بارے میں کھلے عام بات کرنا تقریباً ممنوع ہو کر رہ گیا اور راکھین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ پریس ریلیزوں میں روہنگیا کے لفظ سے مکمل گریز کیا جانے لگا۔

میانمار میں اقوامِ متحدہ کے عملے سے متعلق وانڈینا بیلے کے الفاظ دوہراتے ہوئے جوناہ فشر لکھتے ہیں: ’’اگر آپ ایسا کرتے تو اس کے نتائج بھگتنا پڑتے تھے۔ اس کے بعد آپ کو اجلاسوں میں نہیں بلایا جاتا تھا اور آپ کو سفری دستاویزات جاری نہیں کی جاتی تھی۔ ہمارے عملے کو ان کے کاموں سے ہٹا دیا جاتا تھا اور انہیں اجلاسوں میں شرمندہ کیا جاتا تھا۔ ایسا ماحول بنایا گیا تھا جس میں ان مسائل پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔