قومی مفاد

عبدالقادر حسن  ہفتہ 30 ستمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکا کے دورے کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کے مطالبات کے مطابق پاکستان میں مختلف مذہبی تنظیموں اور افراد پر پابند ی لگا دینی چاہیے اور اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے۔ ہمارے وزیر خارجہ عالمی برادری کے اس موقف سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک طرح سے انھوں نے عالمی طاقتوں کے ڈو مور کے مطالبے کو مان لیا ہے اور اپنی نئی خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کر دئے ہیں۔

انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے نواز شریف نے سیاسی قیمت بھی چکائی۔ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ جن لوگوں کو امریکا ذمے دار ٹھہرا رہا ہے یہی لوگ کبھی امریکا کے لاڈلے تھے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اُڑایا کرتے تھے اور 80ء کی دہائی میں امریکا کی حمایت ہماری سب سے بڑی غلطی تھی جس کو ہم اب تک بھگت رہے ہیں کیونکہ امریکا نے اپنی روایات کے مطابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد ہمیں تنہا چھوڑ دیا جس کے بعد ہم جہنم میں چلے گئے۔

لگتا یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ذمے داروں نے خارجہ امور کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں جس کا ایک واضح اشارہ خواجہ آصف کی حالیہ تقریر ہے جس میں وہ پاکستان پر دہشتگردی کے متعلق لگائے گئے الزامات سے متفق نظر آتے ہیں اور انھوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ پاکستان کو اس سلسلے میں ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سے پہلے ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی امریکا کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ اب امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو امریکا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ باتیں اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ ہمارے خطے میں طاقت کی تبدیلی کے مرکز تبدیل ہونے جا رہے ہیں اور اب ہمارا جھکاؤ ہمارے ہمسایہ ممالک کی جانب ہی ہو گا جن میں چین اور روس سر فہرست ہیں۔

لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ امریکا جنوبی ایشیا سے جغرافیائی طور پر دور ہونے کے باوجود سیاسی اور عسکری طور پر ہمارا ہمسایہ ہی ہے کیوں کہ اس کے اس خطے سے مفاد وابستہ ہیں اور وہ ایک فوجی طاقت کے ساتھ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی موجود ہے اور اس خطے میں اس کے مزید فوجی اڈے بھی ہیں ان سب کے باوجود پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے جو واضح اشارے دیے ہیں وہ ہو سکتا ہے کہ اس خطے میں ہونے والی نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ ہوں یا پھر دوسری صورت میں امریکا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کا ساتھ دیا ہے اور اس بات کا امریکا کو اعتراف کرنا ہو گا۔

دوسری طرف اگر آپ دیکھیں تو ہمارے سپہ سالار ہر روز اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پاکستان میں کسی نہ کسی جگہ موجود ہوتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے بغیر ان کا وجود نامکمل ہے اور ریاست کی تما م اکائیوں کو جوڑے رکھنے سے ہی پاکستان مکمل ہوتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر کل ہی بلوچستان کے متعلق کہا کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے اور بیرون ملک پاکستان کے خلاف جو سازش کی جارہی ہے پاک فوج ان سے نپٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

بلوچستان کی آزادی کے بارے میں بیرون ملک جو اشتہار لگائے گئے وہ ہمارے دشمن ملک بھارت کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات مخدوش ہیں لیکن اس کی یہ سازشیں ہمیشہ کی طرح ناکام نظر آ رہی ہیں کہ ہماری حکومت نے یہ مسئلہ سامنے آنے کے بعد سوئٹزر لینڈ کے سفیر کو بلا کر شدید احتجاج کیا اور فوری طور پر پاکستان مخالف اشتہارات ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جس کے بارے میں مزید معلومات کا ابھی انتظار ہے کہ ہمارے احتجاج کو کس قدر اہمیت دی گئی اور پاکستان مخالف پراپیگنڈہ اشتہارات ختم کیے گئے یا نہیں۔

ایک بات جو مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سپہ سالار نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ اب ہم نے ڈور مور نہیں کرنا بلکہ دنیا ہمارے لیے ڈو مور کرے جب کہ ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا یہ بیانیہ اس کے متضاد ہے وہ دینا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ان کے مطالبے کے مطابق ڈو مور کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے اس تضاد کو فوری طور پر دور کرنا ہو گا ہماری سول حکومت اور فوجی قیادت کو خارجہ پالیسی کے معاملے پر مل بیٹھ کر ایک ایسا مربوط  لائحہ عمل ترتیب دینا ہے جو کہ آنے والے حالات میں پاکستان کے سود مند بھی ہو اور ہمارے عزت و وقار کے مطابق بھی ہوتا کہ ہم دینا کو یہ پیغام واضح طور پر دے سکیں کہ ہماری سول اور فوجی قیادت کی پالیسیاں ایک ہی ہیں اور خارجہ معاملات میں بھی ہمارا لائحہ عمل متفقہ ہے۔ ہمیں ڈو مور اور نو مور کے چکر سے اپنے آپ کو نکالنا ہو گا یہی بہتر بھی ہے اور قومی مفاد کا تقاضہ بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔