مغربی منافقت

ڈاکٹر یونس حسنی  ہفتہ 30 ستمبر 2017

مغرب کی رواداری، برداشت اور قانون کی عمل داری کے قصائد بڑی شد و مد کے ساتھ پڑھے جاتے تھے اور اس کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن ستمبر 2011 کے بعد ایک نئی دنیا نے جنم لیا ہے اور اس نئی دنیا کی بات بھی امریکا نے اٹھائی اور یورپ نے سر سے سر ملادیا۔

ستمبر 2011 کے واقعہ کے حقائق سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے مگر اس واقعے کے بعد پورے یورپ اور امریکا کو جیسے فرنجک ہوگئی ہے۔ یہ بات کسی نہ کسی طرح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ ’’جڑواں میناروں‘‘ پر جہازوں کا حملہ مسلمانوں نے کیا تھا، اس کی منصوبہ بندی ہزارہا میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن نے کی۔ چنانچہ اسے افغانستان سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ انکار کی صورت میں جو اہل افغانستان کا شیوہ ہے امریکا نے افغانستان پر حملہ کرنے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو کھنڈر بنانے کی دھمکی دے کر پاکستان کے آمر حکمران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ امریکا نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔

افغانی اپنی صدیوں پرانی روایت کے علمبردار تھے، وہ بے قصور مہمانوں کو امریکی دھمکیوں میں آکر بے دخل کرنے کو تیار نہیں ہوئے، البتہ پاکستان جو ایٹمی قوت بھی تھا اور ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج بھی رکھتا تھا آخر کیوں بلبلے کی طرح بیٹھ گیا۔

دراصل اس وقت امریکیوں کی خوش بختی کے باعث پاکستان میں آمریت کا راج تھا۔ آمریت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عالمی طاقتیں آمروں سے معاملہ کرنے میں آزاد ہوتی ہیں، کیونکہ انھیں اپنی مقاصد کے لیے صرف ایک آدمی سے سودا کرنا ہوتا ہے، سو انھوں نے کرلیا۔

جڑواں عمارتوں پر کس نے حملہ کیا تھا، کس نے کرایا تھا، یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔ اس کا اسامہ بن لادن سے کیا تعلق تھا، یہ بھی کسی کو درست طور پر معلوم نہیں۔ اسامہ بن لادن کب، کہاں، اور کیسے مارا گیا؟ یہ بھی ابھی ایک راز ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

لیکن مسلمانوں نے اس ساری منصوبہ بندی کو اپنے خلاف سازش سمجھا اور مغرب نے یہی بات باور کرانے کی کوشش بھی کی۔ ہوائی سفر کے دوران ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے جوتے تک اترواکر تلاشی لینا، بعض ممالک کی اہم شخصیات کی اس طرح تلاشی لیا جانا جس سے ان کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہوا، مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔

اب نہ مساوات کا نعرہ کسی کام آرہا تھا نہ رواداری دکھائی دے رہی تھی، نہ قانون کی عمل داری تھی، اب مسلمان بھی اپنے آپ کو بے بس اور لاچار سمجھ رہے تھے اور بے بسی و لاچاری جو ردعمل پیدا کرتی ہے، پرتشدد اور نفرت سے مملو ہوتا ہے۔ گویا مسلمانوں کو دیوار سے لگاکر مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس کے لیے بہانہ جڑواں عمارتوں کا انہدام بنا۔

لیکن یہ محض ان دو عمارتوں کے انہدام کا واقعہ نہیں تھا جو اس قبضے اور اس سے پیدا شدہ مسائل کا حل بنا بلکہ یہ سالہا سال سے پکنے والا لاوا تو یورپی اور امریکی ذہنوں میں عرصے سے پک رہا تھا اور بہہ نکلنے کے لیے بے تاب تھا۔

لوگ جب اپنے لیے کوئی چارہ نہیں پاتے تو بے بسی انھیں آگ میں چھلانگ لگانے پر مجبور کردیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو ہی اس بے بسی سے واسطہ کیوں؟

اب دنیا کی تمام جمہوری حکومتوں میں ایک اور متوازن حکومت ہوتی ہے، جسے ایجنسیاں کہتے ہیں، یہ لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے پالتے ہیں اور مقاصد کی تکمیل کے بعد انھیں دہشت گرد قرار دے کر ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں یورپ میں جو خودکش حملے ہوئے وہ یورپی سرزمین پر پیدا ہوکر وہاں کے نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں نے کیے، ان کے عمل کو برطانوی جرمن یا فرانسیسی نظام تعلیم کا نتیجہ قرار کیوں نہیں دیا جاتا۔ ان کو مسلم قرار دے کر دہشت گردی کو مسلمانوں کی میراث بنادیا گیا ہے۔

پچھلے دنوں مانچسٹر کا خودکش حملہ آور برطانوی خفیہ ایجنسی کا پروردہ اور ان کا منظور نظر وہ جس گروپ سے تعلق رکھتا تھا برطانوی خفیہ ایجنسی اسے کرنل قذافی اور بشارالاسد کے خلاف استعمال کرتی رہی تھی، ان جہادیوں کو لیبیا بھیجے جانے کی شہادت ہاؤس آف لارڈز کا مقرر ممبر لارڈ نذیر خود دیتے ہیں کہ یہ معاملات ان کے چشم دید ہیں۔

سعیدہ وارثی ایک محب وطن برطانوی شہری ہیں وہ محض شہری نہیں ہیں بلکہ برطانیہ سب سے بڑی اور حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی کی صدر رہ چکی ہیں۔ وہ برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر رہ چکی ہیں اور اب ان کی سوانح عمری شایع ہوئی ہے۔ انھوں نے برطانوی معاشرے کے تضادات، مسلم دشمنی اور ایسی پالیسیوں کی قلعی کھول دی ہے جو مسلمانوں میں بنیاد پرستی پیدا کرنے کا باعث بنی ہیں۔

انھوں نے برطانوی کابینہ سے استعفیٰ فلسطین پر حکومت کے قول و فعل کے تضاد کے باعث دیا تھا۔ وہ گھر کا بھیدی ہیں، وہ ایک عام کارکن سے ہوتی ہوئی کنزرویٹیو پارٹی کی سربراہ بنی، جو بظاہر برطانوی نظام میں رواداری اور مساوات کے باعث ہوا مگر جو کچھ اندر ہوتا ہے باہر دکھائی کچھ اور دیتا ہے اور:

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

مسلم ممالک میں کوئی ایسا رہنما پیدا نہیں ہوا جو مغرب کی منافقت کا جواب صاف گوئی اور سادہ دلی سے دے اور ایسا سخت جواب ہو جو منافقوں کو حیرت زدہ کردے۔ شاید طیب اردگان کو انھوں نے اسی لیے موقع دیا ہو کہ وہ صاف اور دو ٹوک سیاست سے مغرب کو آشنا کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔