سرجری کی ضرورت نہیں؛ قدرتی طریقے سے دانت خود اُگائیے

ویب ڈیسک  جمعـء 13 اکتوبر 2017
اگر یہ طریقہ طبی آزمائشوں میں کامیاب رہا تو آنے والے چند برسوں میں مصنوعی دانت اور بتیسیاں بنانے والوں کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)

اگر یہ طریقہ طبی آزمائشوں میں کامیاب رہا تو آنے والے چند برسوں میں مصنوعی دانت اور بتیسیاں بنانے والوں کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)

پورٹ لینڈ: دانت قدرت کا انمول تحفہ ہیں جو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اچھی صحت کے ضامن بھی ہوتے ہیں۔ کسی بالغ انسان کا دانت ٹوٹ جائے تو تکلیف دہ سرجری کے ذریعے مصنوعی دانت لگانا پڑتا ہے جس پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں لیکن اب جدید طریقوں کے بجائے قدرتی طریقے سے اپنے دانت خود اگائے جاسکتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر جیریمی ماؤ کی سربراہی میں طویل تحقیق کے بعد  ایک ایسا قدرتی طریقہ دریافت کیا ہے جس میں اسٹیم سیلز کے ذریعے 9 ماہ میں قدرتی طور پر دانت اگانا ممکن ہے۔ واضح رہے کہ اسٹیم سیلز ان خلیوں کو کہتے ہیں جو جسم کے کسی بھی عضو میں موجود خلیات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں: آنول نال کے خلیات سے ہارٹ فیل کے مریضوں کا علاج ممکن

ڈاکٹرجیریمی کے مطابق اسٹیم سیلز نئے دانتوں کی نشوونما میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اور اس قدرتی طریقے کی دریافت کے بعد دانتوں کی سرجری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسٹیم سیلزکودانتوں کے ساتھ  ملاکر ان میں ٹشوز شامل کرتے ہوئے نئے دانت اگائے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی دانت ٹوٹ جائے تو اس کے نچلے حصے میں موجود خالی مسوڑھے کے اندر اسٹیم سیلز اور ٹشوز کا ملاپ کرنے سے دانت دوبارہ اُگنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسٹیم سیلز ان خلیات کو جنم دیتے ہیں جو ٹوٹے ہوئے دانت کو دوبارہ اگانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں؛ اور یوں نیا دانت بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

یہ طریقہ دانت اگانے کا قدرتی اور آسان عمل ہے تاہم یہ صبر آزما بھی ہے کیونکہ یہ عمل 9 ہفتے لیتا ہے۔ اس قدرتی طریقے سے مصنوعی دانتوں سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے اور بار بار ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ قدرتی طریقہ اپنے آپ میں مکمل اور ہر ایک کے لیے ہے یعنی جو چاہے اسے آزما سکتا ہے۔

یہ تحقیق ابھی طبّی آزمائشوں (کلینیکل ٹرائلز) کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہی ہے اور اگر کامیاب ثابت ہوگئی تو آنے والے چند برسوں میں مصنوعی دانت لگانے اور بتیسی بنانے والوں کا کاروبار شدید طور پر متاثر ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔