تیسرا پہلو

حسان خالد  اتوار 24 فروری 2013
’تیسرا پہلو‘‘ میں جو مباحث چھیڑی گئی ہیں، ان سے ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا سابقہ پڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

’تیسرا پہلو‘‘ میں جو مباحث چھیڑی گئی ہیں، ان سے ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا سابقہ پڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

مغرب میں سیلف ہیلپ اور کیرئیر گائیڈز کی کتابوں کو خاص طور پر پذیرائی ملتی ہے اور اس نوع کی کتابیں بیسٹ سیلر بھی قرار پاتی ہیں۔

ہمارے ہاں بھی بعض پبلشر اس قسم کی مقبول کتابوں کے اردو تراجم کرا کے چھاپتے ہیں، جنہیں ادھر بھی خاطر خواہ پذیرائی ملتی ہے۔ لیکن، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہر معاشرے کا مختلف مزاج اور طرز رندگی ہوتا ہے، اپنے ماحول کے اعتبار سے لوگوں کے اخلاقی اقدار اور کامیابی کے پیمانوں میں فرق ہوتا ہے اور ان کو درپیش مسائل بھی الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیلف ہیلپ اور گائیڈز کی کتابوں کے یہ تراجم اپنی اثر پذیری اور افادیت کے اعتبار سے ہمارے ہاں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتے۔

ڈاکڑ خالد جمیل اختر کی کتاب ’’تیسرا پہلو‘‘ کو اگرچہ ہم معروف معنوں میں سیلف ہیلپ کی کتاب قرار نہیں دے سکتے، لیکن ان مضامین میں جن موضوعات اور مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور جو مباحث چھیڑی گئی ہیں، ان سے ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا سابقہ پڑتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کتاب کے مندرجات کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کریں، اس میں شامل تحریروں کی چیدہ چیدہ خصوصیات کا ذکر غیر اہم نہ ہو گا۔ ان تحریروں کے باب میں سب سے اہم بات تو یہ ہے، جیسا کہ اوپر ذکر آیا ہے، کہ اس کے موضوعات براہ راست ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مختلف معاشرتی مسائل، عام رویوں اور نقسیاتی الجھنوں کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا گیا ہے۔

ایک عام آدمی کس طرح سوچتا ہے یا اسے کیسے سوچنا چاہیے، ہر دو کا جواب ان تحریروں میں موجود ہے۔ پھر یہ کہ ان مضامین میں مانگے تانگے کے خیالات اور پٹے ہوئے نظریات بیان نہیں کئے گئے، بلکہ اپنے تجربے اور گہرے مشاہدے کی بنیاد پر مختلف ایشوز کو دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ مضامین کی زبان سادہ ہے اور بہت نپے تلے، مختصر جملوں میں اپنی بات کا مکمل ابلاغ کیا گیا ہے۔

موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے، جس میں ہر قسم کے پڑھنے والے کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کے لئے یہ مضامین اس لئے بھی اہم ہیں کہ ان کی بدولت وہ مختلف ایشوز کو زیادہ بہتر انداز میں دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوں گے، اور بہت ممکن ہے کہ اس کے مطالعے سے ان کی کچھ نفسیاتی الجھنیں بھی دور ہو جائیں اور وہ زیادہ clarity کے ساتھ سوچ کر حالات کا تجزیہ کر سکیں۔ دوسر ے، اس میں چونکہ تجربے کی باتیں ہیں، اور یہ نوجوان ہی ہیں جو دوسروں کی زندگی کے تجربات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ انہیں استفادہ کرنا بھی چاہیے۔

کتاب میں مختلف موضوعات پر 26  مضامین شامل ہیں۔ ہم اس جائزے میں ان چند مضامین کا تعارف کرائیں گے، جو کہ نوجوانوں کے لئے نسبتاً زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔ ’’امکانات اور خدشات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں، جس سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے، فاضل مصنف نے بتایا ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے optimist لوگ محنت کے بعد بھلائی اور بہتری کے امکانات پر نظر رکھتے ہیں، جبکہ منفی ذہنیت کے حامل لوگوں کے پیش نظر عموماً ناکامی کے خدشات رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی کی اصل دوڑ میں میں ان دونوں لوگوں کو ہی ناکام سمجھتا ہوں، کیونکہ میرے خیال میں کامیابی کا اسٹیشن اگلا اسٹیشن ہے اور یہ یقین کا اسٹیشن ہے، یاد رکھئے گا یہ اسٹیشن ہمیشہ امکانات کے اسٹیشن کے بعد آتا ہے۔۔۔

کامیابی کا ایک اور اسٹیشن بھی ہے جو کہ خدشات کی حدود سے بھی کافی پہلے آتا ہے، اور یہ ہے ’’تغافل‘‘ کا اسٹیشن، وہ لوگ بھی زیادہ کامیاب زندگی گزارتے ہیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر بہت سے خدشات اور خطرات سے غافل ہوتے ہیں، یعنی ایسے لوگ جو بہت آگے کی سوچتے ہی نہیں، کم ملے تو اسی کو کامیابی سمجھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور چونکہ وہ خطرات اور خدشات سے غافل ہوتے ہیں اس لیے بے خوف و خطر منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ کامیاب، امیر یا مشہور نظر آنے والے لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کو ان کی زندگیوں میں بے خبری کی دولت یا یقین کا خزانہ ضرور نظر آئے گا۔‘‘

مضمون باڈی لینگوئیج (Body Language) میں لکھتے ہیں: ’’جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مقابل اس سے بہتر یا برتر ہے تو وہ دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتا ہے، دفاع آپ تب کرتے ہیں جب آپ خوف زدہ ہوں اور اس خوف کی وجہ سے آپ کے دماغ کی صلاحیت کا تھرمو سٹیٹ (کنڑول میڑ) کچھ درجے کم پر سیٹ ہو جاتا ہے، اس طرح پورے دماغ کی کام کرنے کی صلاحیت اور روانی کم ہو جاتی ہے۔ جبکہ اپنے سے کم تر شخص کے سامنے آپ کے دماغ کی صلاحیت اس لئے بہتر ہو جاتی ہے کہ آپ کے دماغ میں خوف کی جگہ برتری اور جیت کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغ کی صلاحیت کا تھرمو سٹیٹ اوپر کی جانب سیٹ ہو جاتا ہے اور آپ کی کارکردگی خود بخود بہتر ہونے لگتی ہے۔ آپ نے کرکٹ کے میچ میں دیکھا ہو گا کہ جب ایک ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے کم رنز بنا کر آئوٹ ہو جائے تو دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئیج خود بخود اچھی ہو جاتی ہے‘اس ٹیم کے بیٹسمین آتے ہی سٹروکس کھیلنے لگتے ہیں‘ چھوٹی موٹی غلطی ہو جائے تو چہرہ بگاڑنے کی بجائے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور اکثر آسانی سے جیت بھی جاتے ہیں کیونکہ ان کا مائنڈ سیٹ یعنی تھرمو سٹیٹ بہت اوپر سیٹ ہوا ہوتا ہے۔‘‘

Doers, Planers and Thinkers کے عنوان سے ایک مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ مختلف انسانوں کی جبلتی خوبیوں کے اعتبار سے انہیں ان تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ منصوبہ ساز، عملی لوگ اور مفکر۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ہم میں Thinkers بھی ہیں اور Planners بھی، اور Doers بھی موجود ہیں لیکن ہماری بدنصیبی اتنی ہے کہ Thinker کی جگہ ہم نے Doer کو بٹھایا ہوا ہے اور Doer کی جگہ Planner۔ تو آپ خود ہی سوچئے کہ کام کیسے چلے گا۔‘‘

’’وقت کا تیسرا پہلو‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ ہوتا تو وہی کچھ ہے جو آدمی کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے، لیکن کامیابی کے لئے جدوجہد نہ کی گی ہو تو آدمی کامیابی سے لطف اندوز بھی نہیں ہو سکتا۔

مضمون ’’دس بارہ اہم لوگ‘‘ میں مصنف نے بتایا ہے کہ یہ درجن بھر لوگ ہی ہوتے ہیں جو فی الواقع آپ کی زندگی میں matter کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کوئی initiative لیتے ہوئے یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دنیا کیا سوچے گی۔ ’’زندگی میں اہمیت ان درجن بھر لوگوں کو دیں جو آپ سے منسلک ہیں۔ وہ کسی بات پر ناراض یا خوش ہو سکتے ہیں‘ انہیں آپ کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں یہ زیادہ اہم بات ہے۔ ان لوگوں کو کبھی یہ باور کرانا پڑ جائے کہ وہ آپ کیلئے کتنے اہم ہیں‘ یا ان کیلئے آپ کو دولت ترک کرنا پڑ جائے‘ چھوٹا موٹا نقصان اٹھانا پڑ جائے تو بالکل نہ ہچکچائیے‘سمجھئے یہی سب سے اہم ہے‘ کیونکہ ہمارے مرنے پر انہی لوگوں نے رونا ہے اور ہماری کامیابیوں پر انہی نے خوش ہونا ہے۔ ‘‘

’’شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کامیابی کے لئے commitment اور یقین بہت ضروری ہوتا ہے۔ ’’ترقی تبدیلی سے مشروط ہے‘‘ میں یکسانیت سے بچنے کے لئے روزمرہ کے معمولات میں جدت اور تبدیلی لانے کی بات کی گی ہے۔’’میڈیکل نقطۂ نظر سے اپنے معمولات کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انسان جب کوئی نیا کام کرتا ہے تو اس کیلئے اسے دماغ کے وہ تمام حصے استعمال کرنے پڑتے ہیں جن میں یاداشت ‘ذہانت ‘سوچ اور عمل شامل ہیں۔ لیکن جب ہم وہی کام بار بار کرتے ہیں تو کچھ عرصے بعد ہمارے دماغ کے یہ حصے خاموش ہو جاتے ہیں اور یہی کام دماغ کا ایک نچلا حصہ کرنا شروع کردیتا ہے۔ یعنی شعور کی جگہ لاشعور لے لیتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کی اپنی زندگی کی داستان عزم و ہمت سے عبارت ہے۔ دیگر کتب میں، آپ بیتی ’’تیسرا جنم‘‘، ’’کھلاڑی چوٹ اور علاج‘‘، ’’ہینڈ بک آف سپورٹس میڈیسن‘‘، ’’نئی منزلیں‘‘ اور ’’نئے راستے‘‘ شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب کی شریک مصنف فرح خالد ہیں، جو کہ مصنف کی شریک حیات بھی ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین ان دونوں کے درمیان ہونے والے تبادلہ خیال کا نتیجہ ہیں، جیسا کہ پیش لفظ میں بتایا گیا ہے، جنہیں بعد ازاں ضبط تحریر میں لایا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔