بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کی ضرورت

شاہد سردار  اتوار 1 اکتوبر 2017

اسلام آباد کے اہم علاقے ریڈزون میں وزارت صنعت کی 5 منزلہ عمارت اچانک آگ لگنے سے وفاقی ٹیکس محتسب اور نجکاری کمیشن سمیت 40 سرکاری و تجارتی کمپنیوں کا قیمتی اور حساس ریکارڈ جلنے اور اربوں روپے کے نقصان کا سانحہ حکومت کے متعلقہ اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کے حوالے سے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے جن کا جواب ماضی میں اسی نوعیت کے افسوس ناک واقعات کی تحقیقات بے نتیجہ رہنے کی روایت کے سبب شاید ہی مل سکے۔

آتش زدگی کے ایسے واقعات اس سے پہلے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں بھی پیش آچکے ہیں اور اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں کچھ عرصہ پہلے خوفناک آگ بھڑک چکی ہے۔ کراچی میں کچھ عرصہ قبل بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں آگ لگی جس سے تین سو افراد لقمہ اجل بن گئے۔ لاہور میں ایک کمرشل پلازہ اور ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے درجنوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں اس کے علاوہ بھی ملک کے کئی دیگر بڑے شہروں میں آگ تباہی مچاتی رہی اور ہر موقع پر یہی بات سامنے آئی کہ آگ بجھانے کے آلات ناقص تھے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آگ عموماً اس جگہ لگتی ہے جہاں کسی نہ کسی طرح کا حساس مالی ریکارڈ ضایع کرانا مقصود ہوتا ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر کا نہایت اہم ریکارڈ جلنا اتفاقیہ آگ کا نتیجہ ہے یا یہ دانستہ کارروائی ہے۔ کیا اس کا تعلق ٹیکس چوروں اور کرپٹ لوگوں سے ہے؟ ان سوالوں کا جواب شفاف تحقیقات سے ہی مل سکتا ہے۔ آتش زدگی کے علاوہ بھی ایسے سانحات مسلسل پیش آرہے ہیں۔ کراچی کی ساحلی تفریح گاہ ہاکس بے پر لائف گارڈز اور دوسرے انتظامات موثر نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے 12 افراد سمندر کی نذر ہوگئے، دو تین سال قبل بھی ایک ایسے ہی واقعے میں 21 افراد ڈوب گئے تھے۔

کراچی جیسے بڑے اور بین الاقوامی شہر کے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات کا عرصہ دراز سے فقدان چلا آرہا ہے۔ دنیا بھر کے ساحلی مقامات پر قابل اعتماد حفاظتی انتظامات انتہائی ذمے داری کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور کیمروں اور دوربینوں کی مدد سے سمندر کے اندر جان بچانے والی ساز و سامان سے لیس جدید ترین کشتیوں پر سوار عملہ معمولی واقعات کے لیے بھی چوکس رہتا ہے۔ اگر کسی مقام پر یہ انتظامات نہ ہوں تو وہاں شہریوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

کراچی ڈیڑھ کروڑ آبادی کا شہر ہے جہاں ساحل سمندر سے لطف اندوز ہونے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں، کلفٹن ، ہاکس بے اور کلری جھیل وغیرہ سارا سال سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ اگر انتظامیہ کو عالمی معیار کے حفاظتی اقدامات کے لیے وسائل میسر نہیں تو شہریوں کو بھی ایک دائرے کے اندر رکھا جانا چاہیے۔ یہ بھی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ شہریوں کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے انتظامات اور قوانین پر پوری طرح عمل کیا جائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ہر سال تقریباً 17 ہزار کے قریب افراد آگ لگنے کے واقعات میں ہلاک اور پونے دو لاکھ زخمی یا معذور ہوجاتے ہیں۔ چار کھرب روپے کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ابھی تک نیشنل فائر سیکیورٹی پالیسی نہیں بنائی جو بیرونی ملکوں میں تقریباً ہر جگہ نافذ ہے، اگر ایسی فائر سیکیورٹی پالیسی بنا دی جائے تو یہ نقصان ختم نہیں پھر بھی بڑی حد تک کم ضرور ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں اس ایکٹ کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔

انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ کے حوالے سے بے عملی اور بے حسی کی نہایت افسوسناک مثال کراچی، لاہور، راولپنڈی سمیت ملک کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں اسٹریٹ کرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہونا بھی ہے۔ رہزنی، موٹرسائیکل و گاڑیوں، قیمتی اشیا کی چوری سمیت مختلف شکلوں میں روزانہ ملک کے لاکھوں شہریوں کو کروڑوں روپے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ وارداتیں موبائل فون، خواتین سے پرس چھیننے اور راہ گیروں کو نقدی اور دیگر قیمتی اشیا سے محروم کرنے کی ہیں۔

اگر سال بھر کے اعداد و شمار کا اندازہ لگایا جائے تو یہ اربوں روپے بنتے ہیں۔ اس صورتحال سے ملک میں عدم تحفظ، زندگی کے مختلف شعبوں میں افراتفری اور بے یقینی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہو رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی ایک وجہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت بھی ہے جس سے شہری نہ صرف اپنی قیمتی اشیا سے محروم ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کے آنے کے بعد اسٹریٹ کرائمز میں کمی آئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب پھر یہاں بھتہ مافیا، چوروں اور ڈکیتوں کا راج قائم ہو رہا ہے۔

کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے اور مشہور شہروں کی فٹ پاتھوں پر غیر قانونی تجاوزات سے کروڑوں روپے ماہانہ بھتہ حکام کو پہنچ جانے سے ارباب اختیار کوئی کارروائی نہیں کرتے یوں شہروں میں پتھاروں کا قبضہ ہے اور اس کی وجہ سے ٹریفک جام اور لوگوں کو فٹ پاتھ میسر نہ آنے سے ان کا حادثے کا شکار ہو جانا بھی وطن عزیز کے معمولات میں سے ایک معمول بنا ہوا ہے۔ غیر معیاری اور جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کا بھی کوئی احتساب نہیں کر رہا اور یہ گھناؤنا کاروبار عروج پر ہے کبھی کبھار نمایشی چھاپے ڈالے جاتے ہیں اور اس کاروبار کو کرنے والوں کو عدالتیں ضمانتوں پر رہا کردیتی ہیں، جب ثابت ہوچکا کہ یہ کاروبار کرنے والے لوگوں کی زندگیوں اور صحت سے کھیل رہے ہیں پھر اس میں عدالتیں کیوں ضمانتیں منظور کرتی ہیں؟

ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے لیے صرف سیاستدانوں کا محاسبہ کافی نہیں، اس دائرے کو اب تمام ریاستی اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی اور لوٹ کھسوٹ کی نذر ہوجانا ایک معروف حقیقت بن چکی ہے اور مدت دراز سے پوری کی پوری سرکاری مشینری اس کا شکار ہے۔ کوئی ریاستی ادارہ، کوئی وزارت اور کوئی محکمہ کرپشن یا لوٹ مار کی لعنت سے محفوظ نہیں۔

اربوں روپے کے مالی گھپلوں کی خبریں آئے دن ذرایع ابلاغ کے توسط سے قوم کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے محض سیاسی شخصیات ہی نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے بااثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس لعنت میں ملوث چلی آرہی ہے۔

ہمارا یہ ایمان ہے کہ قابل احتساب لوگ کسی اور کا احتساب نہیں کرسکتے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارا آئین کمزور ہے، ہمارا قانون کمزور ہے اور یہ سب اس لیے کمزور یا لاچار ہیں کہ پاکستان کے دستور (آئین) پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرانے والے لوگ کمزور ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے اس ملک میں کوئی بھی ادارہ کام نہیں کر رہا فرض شناسی اور فرائض کی بجا آوری میلوں دور کھڑی نظر آتی ہے۔

تمام اداروں میں ہم نے ایسے لوگ بھرتی کر لیے ہیں جو بھاری تنخواہیں اور مراعات تو لے رہے ہیں لیکن وہ اپنے منصب سے انصاف ہرگز نہیں کر رہے، یہاں ادارے تو بہت بن گئے ہیں اور دنیا جہان کی عیاشیاں بھی قوم کے پیسوں سے کی جا رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ یہ سب گندے، غلیظ لیکن لمبے ہاتھ اس ملک کے لوگوں کو ان کے حقوق دلائیں، ان کی دادرسی کرسکیں، انھیں شفاف اور فوری انصاف دلا سکیں۔ سال ہا سال سے اس ملک میں نااہل حکمرانوں اور کرپٹ بیورو کریسی اور نام نہاد بوگس اداروں کی راج دہانی قائم چلی آرہی ہے اور عوام دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں ہے۔

جس طرح خودکشی کرنے کے لیے زہر کی نہیں بہادری کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب عصر حاضر کی اہم بلکہ اولین ضرورت ہے اور ایسا کرکے ہی اصلاح احوال کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔