وہ آدمی اور جسٹس صاحب

نسیم انجم  اتوار 1 اکتوبر 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

علمی و ادبی لحاظ سے ان کی حیثیت مسلم ہے، دلی کی گلیوں میں کھیلتے کودتے، پڑھتے لکھتے بڑے ہوئے، کوچہ چیل امیران نام تھا لیکن لوگوں نے اس کا نام اتنا بگاڑا کہ کوچہ چیلاں پڑگیا۔ یہ کوچہ مشاہیر اور اہل علم کا مسکن تھا، قریب ہی اینگلو عربک اسکول دریا گنج تھا، ابتدائی تعلیم اسی اسکول میں حاصل کی۔

تقسیم ہند کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی آگئے اور یہاں جیکب لائن بوائز اسکول میں داخلہ لے لیا، یہ اسکول دلی کے مہاجرین کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کامرس کالج میں داخلہ لے لیا، انٹرکامرس کرنے کے بعد سندھ مسلم آرٹس کالج سے بی اے 1954 میں کیا۔ 1956 میں سندھ مسلم لاء کالج سے ایل ایل بی اور کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ جنوری 1957 میں وکالت کے پیشے سے منسلک ہوئے اور 1988 تک بحیثیت ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پریکٹس کی۔

سندھ مسلم لا کالج میں بھی پڑھایا اور 27 برس تک قانون کے استاد رہے اور اسی عرصے میں 7 سال کی مدت تک پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ مصور غم علامہ راشدالخیری کے پوتے اور مولانا رازق الخیری مدیر ’’عصمت‘‘ اور بیگم آمنہ نازلی کے صاحبزادے ہیں۔ بیگم آمنہ نازلی کا شمار افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

یقینی بات ہے اب آپ انھیں ان کے نام سے پہچان گئے ہونگے، جی ہاں جسٹس حاذق الخیری۔ جس پیشے سے جسٹس صاحب منسلک رہے وہاں بیشمار کہانیاں اور ان کے کرداروں سے ملاقات ہوتی رہی ہوگی اور پھر گھر میں بھی کہانیوں کا طلسم کدہ ضرور اپنے سحر میں جکڑتا ہوگا، شاید یہی وجہ ہے کہ حاذق الخیری نے نثر کے میدان میں قدم اس طرح رکھا کہ قدم خودبخود جم گئے کہ باصلاحیت تھے اور لکھنے کا فن انھیں ورثے میں ملا تھا۔ ان کی تین اہم کتابیں ادب کی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں، افسانوں کا مجموعہ ’’گزرتی شب‘‘ اور سرگزشت ’’جاگتے لمحے‘‘ اس کے بعد ان کی کتاب ’’وہ آدمی‘‘ منظر عام پر آئی جو تین منفرد ڈراموں پر مشتمل ہے۔

’’شہرزاد‘‘ سے شایع ہوئی ہے اور 128 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی تحریر کا وصف یہ ہے کہ سادگی، روانی اور تحریر کی دل کشی نے قاری کو پوری کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور کردیا ہے۔ تحیر کی فضا اور برجستہ مکالمہ نگاری نے تحریر میں رنگ بھر دیا ہے، ساتھ میں دلی کی شستہ اور بامحاورہ زبان مطالعہ کی دلچسپی کو دوبالا کردیتی ہے۔ انتظار حسین نے اپنے کالم ’’بندگی نامہ‘‘ میں جسٹس حاذق الخیری کی کتاب ’’جاگتے لمحے‘‘ کے کئی اقتباسات نذر قارئین کیے ہیں اور دلی کے رہنے بسنے والوں کے ماضی کو تھوڑی سی دیر کے لیے زندہ کردیا ہے۔

’’دلی کے مہاجرین کے ساتھ دلی کے باورچی بھی کراچی آگئے، دلی کی بریانی، قورمہ، نہاری، حلیم، گولا کباب، ربڑی اور کھیر مختلف محلوں میں ملنے لگی۔ دلی میں دو باورچی بہت مشہور تھے، ایک شفیع باورچی، دوسرا کالی باورچی۔ شفیع کی بریانی اور کالی کا قورمہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا‘‘۔ دوسرا جاگتا لمحہ، جس کا انتخاب بھی انتظار حسین نے خود کیا ہے۔

’’جیکب لائن میں لڑکیوں کا بھی اسکول تھا، جہاں میں، آپا اور صبیحہ حسن کو جو ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں چھوڑتا ہوا چلا جاتا تھا۔ صبیحہ حسن، شیری رحمان کی والدہ اور پرنسپل حسن علی عبدالرحمن کی دوسری بیوی ہیں، ہمارے اسکول میں حبیب جالب بھی پڑھتے تھے اور چاک گریباں سگریٹ پیتے ہوئے آتے جاتے تھے، جس پر ہمارے استاد قطب الدین صاحب نے کئی مرتبہ ناراضگی کا اظہار کیا‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ خود بھی گنگناتے رہتے تھے:

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو سب جالب جالب کہتے ہیں

ملا واحدی نے ’’وہ آدمی‘‘ کے حوالے سے اپنی آرا کو اس طرح طشت ازبام کیا ہے۔’’میں قصے کہانیاں بہت کم پڑھتا ہوں، مگر حاذق الخیری کے ڈرامے، وہ آدمی کا پلاٹ تو انوکھا، نرالا اور لاجواب ہے، حاذق الخیری نے اچھا ادیب ہونے کا ہی ثبوت نہیں دیا بلکہ اچھا ایڈووکیٹ ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے۔‘‘

حاذق الخیری کو بے شک گھر کے ماحول اور والدہ بیگم آمنہ نازلی کی تحریروں نے متاثر کیا وہ افسانے لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1950 میں جب ان کی عمر انیس سال تھی ان کا پہلا افسانہ ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوا، اور گزرتے 10، 11 سال کے بعد ان کا مجموعہ بعنوان ’’گزرتی شب‘‘ شایع ہوچکا تھا۔ صدر آفتاب احمد خان جو کبھی انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر کے عہدے پر فائز تھے ان کی رائے کے مطابق ’’جسٹس حاذق الخیری ایک بڑے ادبی و علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، افسانہ نگار، وکیل، قانون کے پروفیسر، جج، محتسب اور پھر چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچے، ان کی خودنوشت اردو کی بہترین خود نوشتوں میں شامل ہوگئی۔‘‘

ڈرامہ ’’وہ آدمی‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی نشر ہوچکا ہے۔ پہلی کہانی میں بلقیس، آصف اور فہمی نمایاں کردار ہیں، ڈرامے کی آخری چند سطور سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ حادثے میں زخمی ہونے والے کا دماغ دوسرے شخص کے سر میں لگا دیا جاتا ہے، جو جسمانی طور پر چوٹوں سے محفوظ ہے، آصف بلقیس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہتا ہے ’’مجھے چھوڑ دو، مجھے جانے دو، اب میں آزاد ہوں، ایک نیا انسان ہوں، میرا ایک نیا روپ ہے، میں ایک آدمی کا جسم اور دوسرے کا دماغ ہوں، لیکن وہ جو ایک جسم اور ایک دماغ ختم ہوگیا، وہ کس آدمی کا تھا، کس آدمی کا تھا۔ پردہ گرتا ہے۔

دوسرا ڈرامہ بھی اسی قبیل کا ہے، جب کہ تیسرا ڈرامہ بندریا کی گود ہے، ہندوستان میں بندروں کی آزادی کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن انسان آج بھی قید و بند کی اور نسلی منافرت کے دکھ جھیل رہا ہے، ایک بندریا ایک بچے کو لے اڑتی ہے اور درخت پر جاکر بیٹھ جاتی ہے، اسے درخت سے نیچے بحفاظت اتارنا آسان کام نہیں ہے لیکن جسٹس صاحب جس طرح قانونی پیچیدگیوں کو اپنی ذہانت و علمیت کے بل پر سلجھا لیتے ہیں، بالکل اسی طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا اس طرح منواتے ہیں کہ کرنل رضی بندریا کا بچہ لے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں، بندریا اسے بستر پر پاکر انسان کا بچہ واپس کردیتی ہے۔

جسٹس حاذق الخیری ہائی کورٹ کے جج، محتسب اعلیٰ سندھ اور فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ اگر کسی بڑے آدمی سے ملنا ہو تو جسٹس حاذق الخیری سے ضرور ملاقات کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔