نوجوان خودکشی کیوں کرتے ہیں؟…

لیاقت علی کُرد  اتوار 24 فروری 2013

ہر انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی کی محبت کا شکار ہوجاتا ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ وقت گزرتے ہی وہی آدمی کسی دوسرے کی بے وقوفی پر نکتہ چینی کر رہا ہوتا ہے۔ نہ جانے وہ سب کیوں وہ کیفیت وہ شدت بھول جاتے ہیں ۔حالانکہ صرف ایک ہی نسل اس دنیا میں آباد ہونے نہیں آئی ۔ہر شخص مکمل پیدا ہوتا ہے،جو اپنے احساسات میں جذبات میں نفسیات میں خواہشات میں چاہت میں نفرت میں غرض ہر حوالے سے مکمّل ہوتا ہے ۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل سمیت کورٹ میریجز پھر پنچایتیں ، تیزاب پھینکنے کے واقعات سے لے کر بے لگام قتل و غارت تک نظر آتی ہے اور زیادہ تر واقعات میں پسند کی شادی نہ ہونا بنیادی وجہ ہوتی ہے یا جس سے شادی ہوئی ہے اس سے ناخوش ہونا۔کتنے ہی شاعر اردو کی ادبی تاریخ میں اس عظیم سانحے سے گزرے کتنے ہی لوگ اس درد کو زندگی بھر بھلا نہ پائے ۔ خلیل جبران ، مرزاغالب سے لے کر موجودہ دور تک ۔سوشل سسٹم میں بلیک ہول کی طرح ہر خوشی کو کھاتی ہوئی ایک ضد کہ نہیں… ہم تمہارے ماں باپ ہیں شادی تمہاری ، تمہاری خوشی کے لیے مگر ہماری مرضی سے ہو گی ۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ منطق کیا ہے شادی وہ بھی بنا مرضی کے کوئی خوشی بھی ہے کیا؟

شادی کی تین بنیادی اقسام ہیں پسند کی ،طے کی ہوئی، اور زبردستی کی شادی۔ طے کی ہو ئی شادی میں،خاندان اپنے بچّے کا جیون ساتھی چنتے ہیں جب کہ بچوّں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ قبو ل کریں یا نہیں۔ زبردستی کی شادی میں ایک شخص کو یہ کہا جاتا ہے کہ چاہے اس کی مرضی ہو یا نہیں اس کی شادی کی جائے ۔اس کی بہت سی وجوہ ہیں ۔ ایسی شادی کے لیے نوجوانوںکو زبردستی مجبور کیا جاتا ہے ۔ ’’اس کا تعلّق خاندان کی عزت و شرمندگی ،تعلقات ومفادات سے ہوتا ہے۔‘‘ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’’کچھ خواتین خوف کی وجہ سے شادی پر آمادہ ہوتی ہیں ۔

بعض اوقات ان کی دھوکے سے شادی کرا دی جاتی ہے جب کہ انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہوا کیا ہے۔ وہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ چھٹّیاں منانے جارہے ہیں ، ان کی آبائی سرزمین پر مگر اچانک وہ خود کو واقعات کی ایک ایسی زنجیر میں جکڑے ہوئے پاتے ہیں جس پر ان کا کوئی بھی اختیار نہیں ہوتا‘‘بہت سی لڑکیوں اورعورتوں کو مجبورکیا جاتا ہے اور ایسی شادی کے لیے وہ جنسی زیادتی اور گھریلو تشدّد کا شکار ہوجاتی ہیں۔صورتحال نوجوانوں کو اس حد تک لے جاسکتی ہے کہ وہ خود کو نقصان پہنچائیں،بھاگ جائیں ،حتٰی کہ انھیں خود کشی پر بھی آمادہ کر سکتی ہے ۔انکار ایک نوجوان کو قتل کے خطرے سے بھی دوچار کر سکتا ہے (جو غیرت کے نام پر خون کرنے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)۔

خاص طور پر لڑکیوں کو قتل کی دھمکیاں اپنے خاندان سے بھی بہت زیادہ ملتی ہیں۔بہت سی لڑکیوں کو اسی خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ اپنی زندگی میں اپنے لیے کہیں کوئی فیصلہ نہ لے لیں تعلیمی اداروں سے نکال کر ان کے اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی طرح رکھا گیا ۔اس کے علاوہ اگر شادی کے بعد سسرال والوں کو یا شوہر کو (کہ جس سے زبردستی شادی پر مجبور کرایا گیا تھا)پتہ چل جاتا ہے کہ لڑکی کی پسند کچھ اور تھی تو لڑکی کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے نہ ختم ہونے والا عذاب بنا دیا جاتا ہے۔یہ بات ذہن میں بٹھانی چاہیے کہ لڑکی کے لیے زبردستی کی شادی میں نفسیاتی طور پر تشدد مسلسل بے حرمتی تصور کیا جائے گا ۔ اس طرح پورا خاندان ملکر نفسیاتی دبائو تک کا استعمال بھی کرتا ہے ،جس میں والدین کی زندگی کو لاحق خطرات کا بھی واسطہ دیا جاسکتا ہے جس میں دل کا دورہ ،صدمہ وغیرہ شامل ہیں ۔

والدین سے بغاوت کر کے اپنی پسند سے شادی کرنے والے جوڑوں کی زندگی بھی مکمّل عذاب بنا دی جاتی ہے ،جس میں انھیں ہمیشہ جان کا خطرہ لگا رہتا ہے۔پاکستانی معاشرہ کے روایتی خاندانی ڈھانچے میں بزرگانہ اختیار بہت طاقتور ادارہ ہے،اور اس کا استعمال زیادہ تر ذاتی منشاء و پسند کے لیے ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے مکمّل انسان کی مرضی سے ، وہ مکمّل انسان جو اولاد کہلاتی ہے۔اس کے برخلاف اگر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرے تو اسے خاندان کی بے عزتی سمجھا جاتا ہے اور یہیں پر اس کے خلاف اقدار ،روایات ، اخلاقیات اور معاشرت کی درندگیاں پیچھے لگا دی جاتی ہیں جو بعض اوقات قتل پر ہی منتج ہوتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ2011 میں ،اس خود مختار تنظیم نے کئی واقعات کا کھوج لگایا ، خبروں اور فیلڈ رپورٹس کے مطابق کم ازکم 943 عورتوں کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا جن میں سے 219 کو محض اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ وہ خود اپنا جیون ساتھی چننا چاہتی تھیں۔

حتٰی کہ جب ان کیسوںکی تفتیش ہوتی ہے،تب قاتل اکثر چھوٹ جاتے ہیں۔ قانونِ جرائم ،جو اس قسم کے قتل کے مقدموں پر لاگو ہوتا ہے پاکستان میں،حاثہ کا شکار،ورثہ یا خاندان کے افرادکو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ مرتکب کو کچھ رقم لے کر معاف کردیں۔جب کہ زیادہ تر کاروکاری کے قتل کے اقدامات قریبی رشتہ داروںکی طرف سے ہوتے ہیں،جو عام طور پر دبائو میں آکر مرتکب کو معاف کر دیتے ہیں،جو اس کے بعد آزاد گھومتا ہے۔

یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اسلام زبردستی کی شادی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔اسلام نے واضح طور پر مرد اور عورتوں کے لیے حقوق مختص کر دیے ہیں کہ وہ اپنے ہونے والے جیون ساتھی کو دیکھیں شادی سے پہلے اور پھر اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کریں۔ایک تحقیق کے مطابق زبردستی کی شادی دو نسلوں میں تفاوت اور باہمی بد اعتمادی کا نتیجہ ہے۔والدین ہمارے معاشرے میں اپنے بچوں سے اعتماد کا تعلّق نہیں جوڑ پاتے۔والدین شاذ ہی اپنے بچوںکی بات سمجھ سکتے ہیں ۔زندگی بھر کا لاڈ پیار اور محبت ہوا ہوجاتی ہے جب اولاد اپنا ایک حق طلب کریں جو ہوتا ہے فیصلہ کا۔جب تک کوئی گڑیا ہے، پری ہے،تارا ہے ،ننھی منھی ننّا منّا ہے، لاڈلا لاڈلی ہے ،تب تک تو سب ٹھیک ہے مگر جب وہ انسان بنتا ہے ،بڑا ہوتاہے،چھوٹی سی آزادی چاہتا ہے تووہی انسان برا بن جاتا ہے،نا فرمان بن جاتاہے ۔ اس پر والدین کی امیدوںکو توڑنے والے کا بہتان لگ جاتا ہے ۔میرا سوال ہے کہ کیا ہمیں اسی وقت ہی محبت ملنی چاہیے جب ہم ہاں ہاں کہتے رہیں؟…کیا ہماری آزادی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ؟

عموماََ نوجوان مرد عورتوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ خودکشیوں کا ارتکاب کرتے ہیں،جب کہ مردوں کی نسبت سے اگر دیکھا جائے تو خود کشیوں کی کوششیں عورتوں کی طرف سے3گنا زیادہ تواتر سے کی جاتی ہیں ۔ایک ممکن وجہ وہ طریقہ ہے جس سے مرد خود کشی کی کوشش سر انجام دیتے ہیں جیسا کہ عام طور پر آتشی اسلحے کا استعمال،جس میں 78-90% میں ہلاکت یقینی ہوتی ہے۔عورتیں اس حوالے سے مختلف طریقہ انتخاب پر عمل کرتی ہیں،جیسے زہر یا دوائو ں کی زیادہ خوراک جو کم موثر ہوتی ہیں۔ جہاں تک کم عمری کی خود کشیوں کا تعلق ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں، کچھ عام حالات جو اس انتہائی حد تک جانے کا باعث ہوتے ہیں۔

ان میں شدید ترین مایوسی،ناپسندیدگی،ناکامی،اور ایسا نقصان جیسے محبت کی ناکامی، بڑے امتحان میں ناکامیابی،اور خاندان میں کسی بڑے ہنگامے کا مشاہدہ کرنا۔کم عمر افراد ان سخت پریشان کن لمحات میں خود کو سنبھا ل نہیں پاتے۔جب وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ خود کشی ایک مستحکم عمل ہے ایک غیر مستقل مسئلے کے حل کے لیے ۔ وہ اپنی زندگی کو بدلتا نہیں دیکھ پا رہے ہوتے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشرہ اور والدین بے قصور ہیں ۔اس قسم کے حالات کوئی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ یہ اس معاشرے سے ملنے والی دوائی کی روزانہ خوراک ہے اور موت ایک اووَرڈوز۔

پاکستان ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں 60 فیصدسے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے،مگر نوجوان کیا خود کو یہاں خوش قسمت سمجھتا ہے؟یہی سوال میری تشویش ہے یہی میرا غم یہی میری پریشانی ہے ۔ تحریر پڑھ کہ اگر لگتا ہے میں نوجوانوں کی وکالت کر رہا ہوں تو یہی میرا مقصد ہے ۔ میری التجا بس اتنی سی ہے کہ جسے پیدا کیا گیا اس پر بھروسا کیا جائے ۔ اس کی پسند کو پرکھا اور دیکھا تو جائے ۔ شادی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے اسے صرف جنسی نہیں بلکہ جسمانی،ذہنی اور روحانی طور پر دیکھا جائے۔کیونکہ ’دِلستان‘ Heart landکے باسی کا علاج دِلستان میں ہی ہوتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔