یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا !

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 24 فروری 2013

پوری دنیا کے عوام کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے جیسا کہ پاکستان کے عوام کو ہے آج ہم جس حال میں اور حالت میں کھڑے ہیں یہ 65سال پرانا قصہ ہے ۔ دنیا بھر میں ہماری رسوائی، تنہائی جگ ہنسائی اور پسپائی ہماری مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اور زبردست محنت کی کمائی ہے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے۔ ہم نے قدم بقدم پر اپنے لیے گڑھے کھودے، جال بچھائے،پھندے لگائے اور بالآخر خود جال اور پھندوں میں پھنس گئے آخر ساری دنیا ہماری دشمن کیوں ہوگئی ہے ۔

اقوام عالم کو ہمارے خلاف سازشوں کے علا وہ اور کوئی کام نہیں ہم پورے کرہ ارض کی آنکھوں میں کیوں کھٹکتے ہیں ہمیں اس حال میں کس نے پہنچا دیا سیا ست بہت پیچید ہ سی چیز ہے ۔ جوعناصر پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گر دی کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یر غمال بنا نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ عناصر کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ 1707میں بر صغیر میں مغلیہ سلطنت زوال پذ یر ہوئی با دشا ہ اورنگ زیب کا سورج ڈوب گیا اور انگریزوں نے منظم فوج کی بنیاد پر بر صغیر پر اپنی حکومت قائم کردی مسلمان اچانک بے یارو مددگار ہوگئے ۔

مولویو ں نے سب سے پہلی تباہی یہ پھیلائی کہ مسلمانوں کو جدید علم حاصل کرنے سے روک دیا اور مولو یوں نے مسلمانوں کی پسماندگی سے فائدہ اٹھا کر اپنی ملکیت قائم کر نے کے لیے مدرسوں کو قائم کر نا شروع کردیا۔ جب سرسید احمد خان نے کہا کہ مسلمانوں کو جدید علم حاصل کر نا چاہیے تو سرسید احمد خان پر کفرکا فتویٰ لگ گیا اگر اس وقت مولویوں کی حکو مت ہوتی تو سرسیداحمد خان کو پھانسی کی سزا ہوجاتی جب قائد اعظم محمدعلی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحد ہ ملک کا مطالبہ کیا تو پھر قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف فتوے شروع ہوگئے ۔ لیکن انھوں نے کبھی سرینڈر نہیں کیا بلکہ صاف صاف کہا کہ پاکستان ملائیت کی ریا ست نہیں ہوگی۔

قائداعظم محمدعلی جناح کی مخالفت میں مولوی حضرات کانگریس کے گرد جمع رہے پاکستان بنتے ہی بڑی تعداد میں مو لوی خاموشی سے پاکستان میں داخل ہو گئے اور انھوں نے اپنا کام شروع کردیا سب سے پہلے انھوں نے لیاقت علی خان کی مخالفت شروع کی۔ لیاقت علی خان کے بعد بننے وا لی کمزور حکومتوں میں مولویوں کو دبائو ڈالنے کا موقع مل گیا اور آئین میں بعض دفعات شامل کرا دیں جس کے سہارے مذ ہبی انتہا پسندی کو فرو غ دینے وا لے مولو ی اپنا کام بنا لیتے ہیں دوسری جانب بر صغیر کے مسلمان جاگیر دار بھی بہت بڑی تعداد میں پاکستان میں داخل ہوگئے۔ عوام کی اکثریت نے تو آزادی کی خوشبو میں سانس لینے کے لیے ہجرت کی تھی لیکن جا گیردار طبقے کو جواہر لال نہرو کے اعلان نے ہر اساں کر رکھا تھا جو جا گیر داری کے خاتمے کا تھا یہ خالی خولی اعلان نہیں تھا تقسیم کے فو را بعد نہرو نے اس پر عمل بھی کر ڈالا ۔

انگریزوں کے بر صغیر میں آ نے سے پہلے مغلوں یا پہلے مسلمانوں کے عہد حکومت میں زمین کا سسٹم نہیں تھا ۔ جو آج ہے انگریزوں نے لوگوں کو زمینیں بخشش کے طور پر دیں جن لوگوں نے ان کی حما یت کی تھی ان کو انھوں نے جا گیردار بنایا، سر دار بنایا، وڈیرا بنایا اور اس طرح انگریزوں نے اپنی حمایت حاصل کی ۔اس جا گیردارطبقے نے جو انتہائی موقع پرست ہیں پاکستان بنانے کے لیے کوئی قربا نی نہیں دی بلکہ یہ ہندوستان کی بندرگاہ بمبئی سے بحری جہازوں میں سوار ہوکر بخیروعا فیت کراچی میں اتر ے تھے ۔ وہ اپنے ساتھ اپنے پالتو طوطے اور چڑیاں بھی لائے تھے یہ بات تو طے ہے کہ مو لوی حضرات اور مذہبی جماعتیں اور جاگیردارطبقہ تحریک پاکستان کا حصہ نہیں تھے یہ صرف انتظار کرو اور دیکھو والی پالیسی اپنا ئے ہوئے تھے اور پاکستان کے نام سے بننے وا لے نئی ریا ست میں اپنے نئے کردار کا تعین کر نے میں مصرو ف تھے۔

وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کو قائم کیا تھا وہ کوئی آگے ایسی جماعت نہیں بنا سکے اور تر بیت یافتہ لو گ نہیں چھوڑسکے جو ان کے بعد اس نظام کو چلاتے خاص طور پر پاکستان بننے کے بعد جو شدید نقصان ہوا وہ قائد اعظم محمد علی جناح اور پھر لیاقت علی خان کی وفا ت کا تھا۔ ان دو شخصیا ت کے جا نے کے بعد فیوڈل لارڈ اور جمہوریت دشمن لابی حکومت میں شامل ہو نا شروع ہوئی۔ پھر انھوں نے غیر سیا سی قوتوں کو سیاست میں ملوث کرنا شروع کیا۔ اس دوران موقع پر ستانہ سو چ پر وان چڑ ھی مسلم لیگ پاکستان کے حصول میں کامیاب ہو نے کے بعد مال غنیمت کی تلاش میں سرگرداں لشکر میں تبدیل ہوگئی۔ مختلف جنگوں میں مسلمانوں نے مال غنیمت لو ٹنے کے چکر میں مارکھائی تھی اور خاصا نقصان اٹھایا تھا قیام پاکستان کے بعد ہمارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا۔

اس مر تبہ نقصان کے اثرات وقتی نہیں نسلوں پر محیط تھے اور اسی دو ران مذہبی انتہا پسند اپنے آپ کو مضبو ط بناتے چلے گئے اور جمہو ریت پسند قو تیں کمزور ہوتی چلی گئیں اور جس کا نیتجہ یہ ہوا کہ عوام کمز و ر حکومتی معاملا ت سے لا تعلق ، بد حال، ملکی ادارے کمزو ر سے کمزور ہو تے چلے گئے اور پھر 1958 میں پہلے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوا ، ملک کے جا گیر دار طبقے، موقع پرست سیا ست دانوں کی چاندی ہو گئی ا ور خرابیاں بڑ ھتی چلی گئیں۔ یہ عوام کے حقو ق ، آزادی اور حق حاکمیت پر شب خون کا آغاز تھا پاکستان نے اپنی تاریخ کے عظیم ترین نقصانات غیر سیا سی ادوار ہی میں بر داشت کیے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے، جب قوم تھی تو وطن نہیں تھا جب وطن ملا تو قوم ختم ہو گئی ۔ ملک میں جا ری وساری خرابیوں مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، بے رو ز گاری، بھوک، مہنگائی کی پو ری ذمے داری آمر یت پر عائد ہو تی ہے۔

ملک کے چاروں آمروں نے ملکی ادارے تباہ کر دیے ۔ ملک کو کھو کھلا کر دیا اور عوام کو بد حال کر دیا یہ با ت مسلمہ حقیقت ہے کہ جمہو ریت ہی ملک کے تمام مسائل کا حل ہے۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کا ذریعہ انتخابات ہوتے ہیں اور جمہوری ملکو ں میں سیا سی جما عتیں نہ صر ف جمہو ریت کو فرو غ دینے کی بنیا د ہو تی ہیں بلکہ ملک کی تر قی اور خوشحالی کے لیے سیا سی جماعتیں بنیادی کردار ادا کر تی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جمہو ری ملک رفتہ رفتہ خوشحالی ، ترقی،استحکام اور مضبوط دفاع کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ اب چونکہ ہم انتخابات کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں تو غیر سیاسی قوتیں سیاسی قوتوں کو موقع دیں کہ وہ خود اپنی غلطیاں درست کریں ۔پاکستان کو اس وقت ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو ملک کی تمام طا قتوں کے درمیان توازن رکھ سکے اور ملک اورعوام کے مفاد کو اولین ترجیح دے سکے۔ ہر طرح کے حالات میں پاکستان کا مفاد سب سے اہم ہے ۔

پاکستان کے عوام ہمیشہ بہتر فیصلہ کرتے ہیں اس لیے ہمیں تمام فیصلوں کا اختیار پاکستان کے عوام کو دے دینا چاہیے اور اس کے لیے انتخابات سے بہتر راستہ اورکوئی نہیں ہے۔ اگر آپ بھا ر ت کو دیکھیں یا امریکا کو جہاں اصلی جمہو ری نظام مو جود ہے اگر عوام نا اہل سیا ست دانوں کو حکومت میں لے آتے ہیں تو وہ قانون سے تو بچ سکتے ہیں مگر عوام کی طا قت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے۔ جمہو ریت ہمیشہ وقت کے ساتھ ہی پروان چڑھتی ہے اور صحیح رخ کا تعین خود کرتی ہے ۔ لہذا جمہوریت کو راستہ دے دیا جائے تاکہ ملک و قوم مضبوط،خوشحال ہوسکے اور ملک بحرانوں سے نکل سکے جمہوریت کے علا وہ تمام راستے ملکی تباہی کی جانب جا تے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔