تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو قومی شناختی کارڈ دیے جانے کا انکشاف

عادل جواد  پير 25 فروری 2013
ہر ماہ سیکڑوں تارکین وطن کو پاکستانی شہریت دی جاتی ہے،جعلسازی میں ملوث عملے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ فوٹو: فائل

ہر ماہ سیکڑوں تارکین وطن کو پاکستانی شہریت دی جاتی ہے،جعلسازی میں ملوث عملے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ فوٹو: فائل

کراچی: شہر کے مضافاتی اور گنجان آباد علاقوں میں قائم نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے6سے زائد سینٹرز میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو قومی شناختی کارڈ کی فراہمی کا انکشاف ہوا ہے۔

نادرا کا عملہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی ملی بھگت سے عام شہریوں کے کوائف چوری کرکے غیرملکی شہریوں کو پاکستانی شہریت فروخت کررہے ہیں، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے شروع کی جانیوالی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ چند سال سے کراچی میں غیرملکی شہریوں کو جعل سازی سے پاکستانی شہریت فراہم کرنیکا سلسلہ جاری ہے، شہر کی مضافاتی آبادیوں اور گنجان آباد علاقوں میں قائم نادرا کے سوئفٹ رجسٹریشن سینٹرز سے غیر ملکیوں شہریوں کو 15 سے 25 ہزار روپے کے عوض کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ فراہم کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی شہریت برائے فروخت کے تحت چلائے جانیوالے یہ سینٹرز طاقتور سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں چلائے جاتے ہیں جبکہ ان سینٹرز پر تعینات نادرا کا عملہ بھی براہ راست سیاسی وابستگی کا حامل ہے یا سیاسی جماعتوں کے گروہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے انھیں اپنے زیر اثر لے لیتے ہیں، سینٹرز پر تعینات عملہ اتنا بااثر ہے کہ اس سلسلے میں سامنے آنے والے حقائق کے باوجود عملے کے خلاف نہ تو محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے اور اگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے کارروائی کا آغاز کرتے ہیں تو نادرا کے اعلیٰ افسران اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق لی مارکٹ، بلدیہ ٹائون، سولجر بازار، فیڈرل بی ایریا، کیماڑی اور اورنگی ٹائون میں واقع نادرا کے سوئفٹ سنٹرز کے ذریعے ہر ماہ سیکڑوں کی تعداد میں غیرملکی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو پاکستانی شہریت دی جاتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں نادرا کے ڈیٹا بیس میں محفوظ عام پاکستانی شہریوں کے کوائف چوری کیے جاتے ہیں اور غیرملکی شہریوں کو جعل سازی سے کسی بھی پاکستانی خاندان کا رکن ظاہر کرکے انھیں پاکستانی شہریت فراہم کردی جاتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں بڑی تعداد میں مقیم افغان پناہ گزینوں اور بنگالی تارکین کو پاکستانی شہریت کی فراہمی یقینی بنانے کیلیے ٹچ ڈاکومنٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

7

نادرا کے سوئفٹ سینٹر کے باہر اپنا غیرقانونی نیٹ ورک چلانیوالے ایک ایجنٹ نے ٹچ ڈاکو منٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی پاکستانی شہری کا پرانا (ہاتھ سے لکھا ہوا) شناختی کارڈ، کسی بھی خاندان کا ’’ب‘‘ فارم، نکاح نامہ غیرملکی شہریوں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کیلیے استعمال کیا جاتا ہے، جن پاکستانی شہریوں کے کوائف اس سلسلے میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ عمومی طور پر اس معاملے سے مکمل طور پر لاعلم ہوتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس غیرقانونی نیٹ ورک کے ذریعے فائدہ اٹھانے والوں میں افغانستان میں مقیم ہزارہ قبائل کے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو بلوچستان کی رہائشی ہزارہ برادری کا رکن ثابت کرنے کیلیے بلوچستان میں ڈومیسائل کی جگہ استعمال کیا جانے والا جعلی لوکل سرٹیفیکیٹ اور ماں باپ کے شناختی کارڈز کی نقول فراہم کرتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جعل سازی سے پاکستانی شہریت حاصل کرنے والے یہ افراد فوری طور پر پاسپورٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے ملائیشیا اور انڈونیشیا پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اپنی افغانی شہریت ثابت کرکے آسٹریلیا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایجنٹ ان افراد کو افغانی پاسپورٹ انڈونیشیا میں فراہم کرتا ہے یا وہ اپنے سامان میں چھپا کر ساتھ لیجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سلسلے میں جب ایف آئی اے حکام کسی ملزم کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں تو تمام سرے نادرا کے مذکورہ سوئفٹ سنٹرز تک جانکلتے ہیں لیکن نادرا کے اعلی حکام تفتیش میں معاونت کرنے کے بجائے اپنے سوئفٹ سنٹرز کے عملے کو تحفظ فراہم کرنے کیلیے ایف آئی اے کو ریکارڈ ہی فراہم نہیں کرتے، ذرائع نے بتایا کہ اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطابق ان سوئفٹ سنٹرز کے انچارجز اس غیرقانونی کاروبار میں براہ راست ملوث پائے گئے ہیں کیونکہ نادرا کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں شناختی کارڈ کی درخواست کی وصولی کیلیے تمام پاس ورڈز صرف انچارج کے پاس موجود ہوتے ہیں اور اس کی منظوری کے بغیر عملے کا کوئی اور رکن آن لائن درخواست مکمل نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔