زراعت اور خواتین

شکیل فاروقی  منگل 3 اکتوبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

خواتین دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا تعمیری کردار ادا کر رہی ہیں جن میں زراعت کا شعبہ نمایاں مقام رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر خواتین کا خوراک کی پیداوار سے حصہ 50 فیصد جب کہ زراعتی افرادی قوت میں حصہ 43 فیصد ہے۔

ایشیائی زرعی نظام میں جو خاندانی نظام پر منحصر ہے، خواتین کا کردار اور بھی اہم اور نمایاں ہے۔ فلپائن، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی خواتین چاول کی پیداوار میں نصف محنت کشوں کا کردار ادا کرتی ہیں جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں شرح 80 فیصد ہے۔جی ڈی پی میں اضافہ کے لحاظ سے پاکستان کا زرعی شعبہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ ہماری محنتی خواتین کو ہماری زراعت پر منحصر معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارے چاول اور گندم پیدا کرنے والے علاقوں میں ہماری محنت کش خواتین خوراک کی پیداوار میں مردوں کے ساتھ ساتھ کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

ہماری یہ محنت کش مائیں، بہنیں اور بیٹیاں غربت کے شکنجوں میں بری طرح جکڑی ہوئی ہیں اور ان کی دکھ بھری زندگیاں ایک عذاب مسلسل سے کم نہیں۔ ان بدنصیبوں کو نہ دن کا چین میسر ہے اور نہ رات کا سکون۔ یہ موروثی غربت اور قرضوں کے کبھی نہ ٹوٹنے والے جال میں ماہی بے آب کی طرح پھنسی ہوئی ہیں جس سے رہائی پانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انھیں صحت کے طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں مگر خط غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے والی ان ابھاگنوں کے پاس اتنے پیسے کہاں کہ اپنا علاج کراسکیں۔ ان کے لیے تو اپنا اور اپنے ٹبر کا پیٹ پالنا اور تن ڈھانپنا ہی دوبھر ہے۔

زندگی ان کے لیے زندان کی طرح سخت ہے۔ ان میں سے بیشتر کے لیے زچگی کے دوران نگہداشت کرانا بھی ممکن نہیں جس کی وجہ سے بہت سی بدقسمت عورتیں بچے کی پیدائش کے مرحلے میں ہی لقمہ اجل بن جاتی ہیں جوکہ بے موت مر جانے کے مترادف ہے۔ اس کی بنیادی ذمے داری ہماری ریاست اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو جمہوریت کے نام پر خود تو عیش و آرام کی زندگیاں گزار رہے ہیں جب کہ عوام الناس کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر ہیں۔

یاد رہے کہ حکمرانوں کی ذمے داری کے حوالے سے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا رہ گیا تو اس کی ذمے داری خلیفہ پر عائد ہوگی۔ ہمارے یہاں جس جمہوریت کے حسن کے چرچے ہیں اس کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی تاب نہیں کیونکہ بقول شاعر:

زباں کو حکم ہی کہاں جو داستانِ غم کہیں
نظر نظر سے تم کہو ادا ادا سے ہم کہیں

کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے والی خواتین عموماً دو طریقوں سے معاونت کرتی ہیں۔ نمبر ایک زمین داروں یعنی Land Lords کے زیر ملکیت کھیتوں پر کام کرکے اور نمبر دو اپنے خاندانی کھیتوں پر خدمات انجام دے کر۔ زمینداروں کے کھیتوں پر کام کرنے کا معاوضہ انھیں عموماً زرعی پیداوار کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی سندھ کی زرعی محنت کش خواتین کو نصف ایکڑ رقبے پر کھڑی ہوئی فصل کی کٹائی کرنے کے عوض 40 کلوگرام گندم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

ظاہر ہے کہ معاوضہ کم ہے۔ اس گندم کو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے علاوہ دکان دار کو دے کر یا تو ضرورت کی دوسری اشیا خرید لی جاتی ہیں یا اس کے بدلے نقد رقم حاصل کر لی جاتی ہے۔ لین دین کے اس عمل میں فروخت کرنے والی خاتون کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور اٹھانا پڑتا ہے۔کھیتی باڑی کے کام میں زیادہ تر حصہ جسمانی محنت کا ہی ہوتا ہے جس میں وقت بھی لگتا ہے اور جس کے لیے توانائی بھی درکار ہوتی ہے۔

کام کے بدلے معاوضے کی ادائیگی بھی منہ زبانی ہی طے ہوتی ہے جس میں کم ازکم مزدوری کے لیے مقررہ قومی شرح کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ زرعی محنت کش خواتین میں سے 72 فیصد کا تعلق صرف فصل کی کٹائی تک کے کاموں تک ہی محدود ہوتا ہے اور پھلوں اور سبزیوں کی درجہ بندی (Grading) سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے ہماری زرعی خواتین ابھی تک نابلد ہی ہیں اس لیے وہ ابھی تک روایتی طور طریقوں سے ہی کام لے رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کھیتوں سے پیداوار کی زیادہ مقدار حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی حال مرد کسانوں کا بھی ہے۔

چنانچہ اس ناواقفیت کی وجہ سے انھیں مسلسل خسارہ ہو رہا ہے۔ مثلاً خدانخواستہ اگر کھیت پر ٹڈی دل حملہ کردے یا فصل کو نقصان پہنچانے والے کئی اور کیڑوں کا حملہ ہوجائے تو ایسی صورت میں متاثرہ حصے کو جلادیا جاتا ہے تاکہ باقی حصہ محفوظ کرلیا جائے۔ زراعت کے اس فرسودہ نظام کے جاری رہنے سے پیداوار محدود ہوکر رہ گئی ہے اور ہماری قومی زرعی ترقی کی راہ میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جسے جلدازجلد دور کرنا بے حد ضروری ہے، مگر یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

Social Capital اور انتہائی مربوط Social Community Networks کی عدم موجودگی بھی ہمارے کسانوں کی زندگیوں میں عموماً اور زراعت سے وابستہ ہماری محنت کش خواتین کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر زراعت سے وابستہ ہمارے محنت کش انجمن سازی کے ذریعے آسان شرائط پر نرم قرضوں کی سہولت حاصل کرنے کے لائق ہوجائیں تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اس طرح نہ صرف زیادہ سے زیادہ انفرادی پیداوار میں بلکہ ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

اپنی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے لیے زراعت سے وابستہ خواتین کی نمایاں کامیابی کا انحصار کمیونٹی نیٹ ورکس کے ساتھ ان کی وابستگی پر ہو کہ ایک مرتبہ معرض وجود میں آنے کے بعد کمیونٹی نیٹ ورکس کو مختلف نوعیت کے کئی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ مثلاً لائیو اسٹاک سے حاصل ہونے والی پیداوار میں شراکت داری ایک دوسرے کے ساتھ خرید و فروخت وغیرہ۔ صوبہ سندھ کی بعض NGO’s نے دیہی خواتین تک کو ٹیسٹ کی سہولت بہم پہنچانے کے لیے محدود پیمانے پر اس کام کا آغاز کردیا ہے لیکن اس طرح کے نیٹ ورکس کا بڑے پیمانے پر قیام ابھی ہونا باقی ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں سرمایہ اور فنانسز تک خواتین کی رسائی اور کنٹرول کا ہونا بڑا اہم ہے۔ زراعت کے شعبے میں اور خواتین کے لیے انتہائی مربوط قسم کے کریڈٹ سسٹم کی عدم موجودگی کے باعث سوشل کیپٹل اور نیٹ ورکنگ کا شدید فقدان ہے۔ فارم لیبر نہ صرف اس سے وابستہ خواتین بلکہ پوری معیشت کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مختلف قسم کے مطالعات سے اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کو اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور نشو و نما میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی اور لگن ہوتی ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگرچہ مرد حضرات ہی خاندان کے سربراہ ہوتے ہیں لیکن اپنی فیملی کی فلاح و بہبود کا زیادہ اور شدید احساس خاندان کی خواتین یا خاتون خانہ میں ہی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ثابت ہے کہ زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین جتنی زیادہ قوی اور بااختیار ہوں گی ان کا خاندان اتنا ہی خوش و خرم اور خوشحال ہوگا۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ حکومت اپنی زرعی پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کے علاوہ زراعت کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی خصوصی تربیت کا بھی اہتمام ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔