روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اورعالمی ضمیر ( دوسرا اور آخری حصہ )

شبیر احمد ارمان  منگل 3 اکتوبر 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمان باغیوں کے حملوں کی مذمت کرنے کے بعد کافی وقت تک پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی جب کہ اس دوران روہنگیا مسلمانوں پر قیامت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، ان کے سر تن سے کاٹے جا رہے تھے جیتے جاگتے انسانوں کو جلایا جارہا تھا، معصوم بچوں کو بے دردی سے ذبح کیا جارہا تھا، چادر اور چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے عورتوں کی عصمتیں لوٹی جارہی تھیں، املاک لوٹی اور جلائی جارہی تھیں اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والی اقوام متحدہ خاموش تھی، وہ برمی فوجیوں کی مظالم کی مذمت کرنے کے بجائے میانمار کی مسلم اکثریتی ریاست رخائن سے پناہ کی خاطر بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد گن رہی تھی کہ روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مسلمان پناہ گزین کے متعلق یہ پہلے اعداد وشمار تھے اور اس ایک ہفتے کے دوران جھڑپوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 400 تک پہنچ چکی تھی، درجنوں گاؤں جلادیے گئے تھے ،2600 مکانات کو جلادیا گیا تھا،اس دوران برما کی حکومت یہی کہتی رہی کہ وہ علاقے سے مزاحمت کاروں کو باہر نکال رہی ہے تاکہ عام شہریوں کا تحفظ کیا جاسکے جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ برمی فوج ، برمی پولیس اور انتہا پسند بدھ بکھشوں مل کر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف تھے اور عالمی ضمیر خاموش بالکل خاموش تھا ۔

شاباش ہے دنیا کے زندہ ضمیر انسانوں پر جنھوں نے اپنے طور سے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پرآواز بلند کی۔ میانمار حکومت کے خلاف مظاہرے کیے اور سوئے ہوئی عالمی ضمیرکو جگانے کی کوشش کی جو کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ انھی احتجاجی مظاہروں کی گونج میں بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر توڑے گئے مظالم وانسانیت سوز واقعات کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے میانمار سے مطالبہ کیا کہ راخائن میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے اور روہنگیا بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

اقوام متحدہ کی پانچ رکنی سلامتی کونسل نے میانمارکی ریاست راخائن میں ملکی اداروں کی جانب سے انتہائی زیادہ طاقت کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ ان ارکان میں چین بھی شامل تھا جس نے میانمارکی حکومت کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ سلامتی کونسل میانمارکی انتہائی کشیدہ صورتحال پر متفق ہوئی اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ 9 برسوں میں روہنگیا اقلیت کی صورت حال پر سلامتی کونسل کا یہ پہلا بیان تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیوگوئٹرس نے بھی راکھائن میں طاقت کے استعمال کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا اور میانمارکی حکومت سے کہا کہ وہ علاقے میں فوجی کارروائیاں روکے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف منظم حملے کرنے اور ان کی نسل کشی کو نظر اندازکرنے پر بھی سخت تنقیدکی۔

دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے میانمارکے وزیرخارجہ اور آنگ سان سوچی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔بعد ازاں سلامتی کونسل کا اجلاس سات ممالک امریکا ، فرانس ، برطانیہ ، مصر، قازقستان ، سینیگال اور سوئیڈن کی درخواست پر بلایا گیا۔

یاد رہے کہ میانمارکے معاملے پر 8 سال میں پہلی بار سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں کونسل کے مستقل رکن ممالک کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ۔ چین اور روس نے میانمار کی حکومت کی حمایت کی جب کہ امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل میانمارکی فوج کے خلاف تادیبی اقدامات تجویزکرے کیوں کہ وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف نفرت اور استحصال کا باعث بنی ہے ، تمام ممالک میانمارکو اسلحے کی سپلائی معطل کردیں، مسلمانوں کو بدترین ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اگر میانمار حکومت نے رویہ نہ بدلہ توکسی ایکشن سے گریز نہیں کریں گے۔

برطانیہ اور فرانس سمیت کئی ممالک نے امریکی موقف کی تائید کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ فی الفوربند کرنے کا مطالبہ کیا ۔ دوسری طرف غیر ملکی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ میانمار حکومت کے سامنے اٹھانے پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور امدادی رضا کاروں کو روکا تھا ۔

بی بی سی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم سے متعلق رپورٹ ترتیب دی ہے جس میں ان کے نمایندے نے وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر اسے رپورٹ کیا ۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ایک سابق عہدیدارکا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ میانمار میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان حساس علاقوں کا دورہ کرنے سے روک دیا تھا جہاں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مقامی سابق سربراہ نے عملے کے ان ارکان کو بھی الگ تھلگ کردیا جہنوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق خبردار کیا تھا ۔ واضح رہے کہ اس وقت بنگلہ دیش کے چار پناہ گزین کیمپ قائم ہیں اور اب تک چار لاکھ 80 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں اور اب بھی بہت سے روہنگیا مسلمان میانمار میں ظلم وستم کا شکار ہیں اور انسانی ہمدردی کے منتظر ہیں اسی طرح بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا مسلمان مدد کا انتظارکررہے ہیں۔

اب تک دنیا کہ بہت سے ممالک نے امدادی سامان روانہ کرنے کے اعلانات کر رکھے ہیں ۔ یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ اکیسویں صدی میں رہ کر بھی طاقتورانسان کمزور انسانوں سے درندوں جیسا سلوک کررہا ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاون کے بعد دنیا بھر سے چار لا کھ سے زائدافراد نے نوبل کمیٹی سے جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی سے امن انعام واپس لینے کے مطالبے کے لیے آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں افراد روہنگیا مسلمانوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور جبری نقل مکانی پر اظہار تشویش کیا گیا ہے ۔

پاکستان نے میانمار کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ رخائن کے علاقے میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کروائے اور ذمے داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے ۔ روہنگیا مسلمان دنیا کی واحد اقلیت ہے جس کا کوئی وطن نہیں، انھیں ان کے اپنے وطن برما میانمار میں بے وطن کردیا گیا ہے اور کوئی ملک انھیں اپنانے کو تیار نہیں ہے سب کے سب بیان بازی میں لگے ہوئے ہیں ، کوئی اپنا اسلحہ فروخت کرنے کا خواہش مند ہے تو کوئی نام نہاد انسانیت کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا دو طبقات میں منقسم ہوچکی ہے ، ایک مظلومین کی تو دوسری ظالموں کی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔