ہمارے ملک کے نارسس

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 4 اکتوبر 2017

ہمارے موجودہ و سابق نااہل حکمران اصل میں قدیم یونان کی ایک دیومالائی کہانی کے ہیرو نارسس ہیں۔ ان کے نام تو مختلف ہیں لیکن ان میں چھپی ساری خوبیاں نارسس کی ہی ہیں، اگر یہ کہاجائے کہ ان سب میں نارسس چھپا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

وہ دیومالائی کہانی کچھ یوں ہے کہ نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے جسے اپنے چاہنے والوں اور اردگرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خود پسند ہوگیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہوگیا، بس دن رات اپنے عکس کو دیکھتا رہتا بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے ہوئے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا چنانچہ وہ پیاس سے نڈھال ہوکر مر گیا۔ دیوتاؤں نے اسے نر گس کا پھول بنا دیا۔ اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیاگیا ہے جس کا بنیادی مفہوم خود سے محبت ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ ’’خود پسندی کے مریض کو پہچانا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بنائے رکھتا ہے چنانچہ خود پسندی کے مریض دھوکا دہی کے استاد بن جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس اگر وہ سب کے استاد ہیں تو پاکستان کے بیس کروڑ عوام ان سے بڑے استاد ہیں۔ اس لیے کہ وہ اپنے ملک کے نارسسوں کو خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں وہ لاکھ روپ بدل لیں لاکھ دوسرے نام رکھ لیں، لاکھ اداکاری کرلیں لیکن وہ پھر بھی اپنے نارسسوں کو آرام سے ڈھونڈ لیتے ہیں اور ان کو پہچاننا مشکل ہوبھی کیسے سکتا ہے ان کی ادائیں، ناز نخرے، عیش وعشرت، شان و شوکت، پروٹوکول، ان کے مہکے ہوئے کپڑے، عالیشان جوتے، عظیم الشان گھڑی، ٹائی، واسکٹ دیکھ کر معصوم سے معصوم انسان بھی بتاسکتا ہے کہ یہ سب خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ انھیں اپنے آپ سے عشق ہوگیا ہے یہ سب تیار ہونے کے بعد زبردستی آئینے سے جدا کیے جاتے ہیں،اگر جدا نہ کیے جائیں تودن رات بس آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو تکتے رہیں۔

یہ ا س حد تک خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں، انھیں اپنے آپ سے عشق ہوگیا ہے۔ یہ اس حد تک خود پسندہیں کہ ملک میں کتنے سے کتنا بڑا حادثہ یا سانحہ کیوں نہ ہوجائے ان کے چہر وں پر کبھی بھی حقیقی غم کے سائے تک نظر نہیں آتے ہیں اور جب با دل نخواستہ متاثرین کے پاس جاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی غیر ملک کے بادشاہ ان سے ملاقات کرنے آرہے ہیں اور پھر ان موقعوں پر ایسے ایسے بیانات دیتے ہیں جیسے غم کے سارے پہاڑ ان پر ہی ٹوٹ پڑیں ہوں۔

ان کی شان وشو کت اور عیش وعشرت دیکھ کر لگتا ہے کہ سات نسلوں سے بادشاہت ان کے خاندانوں سے گئی ہی نہیں ہے۔ ان کے قصے اور کہانیاں سن کر دنیا کے قدیمی بادشاہوں کی روحیں تڑپ تڑپ گئی ہیں اور قبروں میں اس حدتک بے چین ہوگئے ہیں کہ گورکن تک ان کی قبروں کے پاس جاتے ہوئے ڈر رہے ہیں،اگر سپریم کورٹ اور J.I.T ان کا بھانڈا نہیں پھوڑتی تو یہ آج بھی ہیرو بنے بنے پھر رہے ہوتے۔

خدا خوش رکھے پاناما لیکس کو لیکس کرنے والوں کا جنہوں نے ان کے کرتوت ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کرکے رکھ دیے ہیں اب یہ سب سند یافتہ ولن ہیں جو ہیروکا روپ دھارے دھارے پھررہے تھے،اگر آپ کو اس بات میں ذرا برابر بھی شک ہے تو آپ برائے کرم ولن میں پائے جانے والی کوئی ایک ایسی خوبی بتا دیں جو ان میں موجود نہیں ہے۔ جی صرف ایک خوبی بتادیں آپ کو یہ سہولت بھی دی جارہی ہے کہ آپ اپنے بچپن سے لے کر آج تک کی تمام ملکی اور غیر ملکی فلمیں اور ڈرامے یاد کرسکتے ہیں اور ان فلموں اور ڈراموں کے ولنوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کا پورا حق بھی آپ کوحاصل ہے۔

آپ ان کے سارے کارنامے ، کرتو ت ، سارے قصے وکہانیاں، سارے کردار اچھی طرح سے یاد کرلیں جب آپ یہ Exercise کرچکیں تو پھر آپ ہی بتادیں کہ ہمارے نارسس ہیرو ہیں یا ولن ہیں کیا یہ لٹیرے نہیں ہیں جھوٹے اور فریبی نہیں ہیں کیا یہ ہر خوبصورت شے کے دشمن نہیںہیں۔ کیا یہ عوام کے مال پر عیش وعشرت کرتے نہیں پھرتے ہیں؟ کیا انھوں نے ملک کا خزانہ لوٹ لوٹ کر خالی نہیں کردیا ہے؟ کیا یہ صادق اور امین ہیں؟ کیا یہ بھروسہ کرنے کے قابل ہیں ؟کیا یہ جعلسازی کے ماہر نہیں ہیں؟ اور کیا ان کو جن لوگوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے وہ صادق اور امین ہیں یا ایماندار اور دیانت دار ہیں۔

جناب اعلیٰ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ خود پسند لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر اولیت دے سکیں وہ دوسروں کے لیے ہمدردی سے خالی ہوتے ہیں ندامت اور تشکر دونوں سے انکار ان کا نفیس ہتھکنڈا ہوتا ہے جس سے و ہ اپنی فضلیت و عظمت کا تحفظ کرتے ہیں یعنی اگر اپنی کوتاہی، اپنے جرم پر نادم ہوں یادوسروں کی نوازشات کے شکر گزار ہوں تو انھیں اپنی عظمت جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ وہ تعریف و تحسین کے بھوکے ہیں تکبر، فخر، گھمنڈ ان کی صفات ہیں ان کے تمام خیالات اور طرز عمل دوسروں سے مستعار لیے ہوئے ہیں وہ نامور لوگوں کی پیروی کرکے خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں قانون کی پاسداری کر نا ان پر لازم نہیں ہے اگر انھیں ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے ہم تو انھیں ہر پانچ سال بعد یادآتے ہیں ان کے نزدیک ہماری حیثیت سیڑھی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اقتدار، طاقت، اختیار، حاصل کرنے کی سیڑھی۔اور جب وہ ہمارے ذریعے کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ سیڑھی کو اٹھا کر دور کہیں پھینک دیتے ہیں پانچ سال کے لیے، چونکہ ہم سب جانتے ہیں اور ہمیں سب معلوم ہے اس لیے ہم ان سے بڑے استاد ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔