طاقت، رعونت اور عوام

مقتدا منصور  جمعرات 5 اکتوبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرے سامنے اس وقت جوزف ایس نائے (Joseph S. Nye)کی تحریر کردہ کتاب “The Future of Power”رکھی ہوئی ہے ۔ جس میں فاضل مصنف نے طاقت(Power) کے مستقبل اور اس کی مختلف اقسام اور بیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران عالمی طاقت(Global Power) کے نئے ابھرتے تصور پر بحث کی ہے۔ آخری باب میں ان عوامل پر بحث کی ہے، جو امریکا کی بحیثیت عالمی طاقت انحطاط (Decline)کا باعث بنے ہیں ۔

گو کہ یہ کتاب ا مریکا کے تناظر میں لکھی گئی ہے، مگر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ، ان میں سے دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں نظم حکمرانی کی خامیوں اور خرابیوں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر اس کتاب کے مطالعے سے پاکستان کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی خرابیوں اور نقائص کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے، اگر اپنی توجہ کتاب کے اس باب پر مرکوز رکھیں کہ ’’ امریکا بحیثیت عالمی طاقت ‘‘ کیوں انحطاط پذیر ہے؟ تو اس سے ہمیں اپنے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کی انحطاط پذیری کے بارے میں زیادہ بہتر انداز میں آگہی ہوتی ہے ۔

اس باب میں فاضل مصنف نے یونان کے زوال سے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کی تباہی کا جائزہ لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تاریخ عالم کی یہ ریاستیں مسلسل جنگ و جدل میں ملوث رہنے کے سبب تباہی سے دوچار ہوئیں۔ کیونکہ انھوں نے اپنے قومی وسائل کا بڑا حصہ جنگی صلاحیت اور آلات حرب میں اضافے کے لیے استعمال کیا ۔ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور اقتدار و اختیار پر جابرانہ انداز میں اپنی گرفت قائم کی ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلایونان ہوکہ رومن ایمپائیر، سلطنت عباسیہ ہوکہ عثمانیہ، قیصران جرمنی ہوں یا عظیم برطانیہ(Great Britain) سبھی عظیم الشان سلطنتیں زوال پذیر ہوکر نشان عبرت بن گئیں۔

عظیم الشان ریاستوں کی تباہی کا دوسرا سبب ریاست پر اہلیت کے بجائے موروثیت کی بنیاد پر اقتدار واختیار کی منتقلی، جوکمزور اور نا اہل حکمرانی کا باعث بنی ۔ جس کی وجہ سے عوام بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ۔ تیسرا سبب حکمران اشرافیہ کا اپنی سلطنتوں میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والوں ، لسانی و نسلی اکائیوں اور چھوٹی قومیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک تھا ۔ نتیجتاً ملک و معاشرہ اندرونی خلفشارکا شکار ہوکر تباہی کے دہانے تک جا پہنچا۔

ماضی قریب کی تاریخ میں برطانوی سلطنت سب سے بڑی مثال ہے۔ اٹھارویں سے انیسویں صدی کے دوران اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، لیکن بیسویں صدی میں ہونے والی دو جنگوں میں فتحیاب ہونے کے باوجود اس قدر مضمحل ہوگئی کہ اس کا دائرہ اختیار محدود تر ہوگیا ۔ دوسری مثال سوویت یونین کی ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، لیکن جنگی صلاحیت میں مسلسل اضافے اور نت نئے آلات حرب کی تیاری کی خواہش میں قومی وسائل کا بیشتر حصہ اس مد میں استعمال کرنے سے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے چلے گئے۔ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے پرامن ڈپلومیسی کے بجائے جنگی حکمت عملی پر اربوں ڈالر صرف کیے گئے۔ نتیجتاً یہ عظیم سلطنت بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ختم ہوگئی ۔

امریکا بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ امریکا کا رقبہ بھارت کے رقبے سے تین گنا ہے، جب کہ آبادی بھارت کی آبادی کا ایک تہائی ہے۔ امریکا میں قدرتی وسائل کی بہتات ہے ۔ امریکا نے دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز قائم کیے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کی، مگر جاپان پر جوہری بم گرانے سے کوریا کی جنگ میں ملوث ہونے تک ۔ ویت نام اورکمبوڈیا کی جنگ میں کودنے سے افغان قضیے میں الجھنے تک ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عراق سمیت دیگر عالمی تنازعات میں ملوث ہونے کی پالیسی نے اس کی معیشت کو زمیں بوس کردیا۔ آج امریکا بہترین وسائل رکھنے کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ جس کی عالمی حیثیت تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے۔

اس تناظر میں پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان تیسری دنیا کا ترقی پذیر بلکہ خاصی حد تک پسماندہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی معیشت بیرونی اور اندرونی قرضوں اور بیرون ملک مقیم شہریوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات  زرRemittances سے مشروط ہے۔ پڑوسی ملک کے جنگی جنون سے لاحق خطرے کے باعث اپنے وسائل کا بیشتر حصہ دفاعی ضرورت پر صرف کرنے پر مجبور ہے۔ جس کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں تخفیف ایک ناگزیرہو گئی، جب کہ دوسری طرف جمہوری سیاست سے انحراف نے ان گنت سنگین مسائل کو جنم دیا ہے۔ جن میں ریاست گریز رجحانات بھی شامل ہیں۔

پاکستان برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی انتظامی یونٹوں (جہاں ہر یونٹ میں ایک الگ قوم آباد ہے) پر مشتمل وفاق کی شکل میں وجود میں آیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مختلف قومیتوں نے اپنی آزادی کو شئیر کیا ہو اور مسلم اقلیتی صوبوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کرکے آباد ہوئی ہو، وہاں وفاقی جمہوری نظام ہی تمام یونٹوں کو مجتمع رکھنے اور مختلف کمیونٹیوں کو مطمئن کرنے کا باعث بنتا ہے، مگر ملک کی مقتدر اشرافیہ نے جمہوری روایات کو فروغ دینے کے بجائے ملک کو وحدانی ریاست بنانے کی کوششیںشروع کردیں ۔ اس عمل میں مغربی پاکستان کے بعض افراد کا کردار انتہائی منفی تھا۔ انھوں نے بنگالی عوام اور قیادت کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈا کرکے مغربی پاکستان کو بنگالیوں کے خلاف اکسایا۔

دوسری طرف چھوٹے صوبوں کو نوآبادیات بنانے کے لیے ون یونٹ قائم کرکے ان کا سیاسی، سماجی اور ثقافتی تشخص ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی ایوب خان نے مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کو تیسرے درجے کا شہری بنانے ان کا معاشی قتل کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل کردیا ۔ اس کے علاوہ سندھ کے وسائل پر قبضے کی خاطر ہندوستان سے آنے والوں اور مقامی سندھیوں اور بلوچوں کے درمیان نفرت کا ایسا بیج بویا، جو آج تناور درخت بن چکا ہے۔ یوں ملک پر ایک صوبے کی مکمل بالادستی قائم ہوگئی۔ ہر دور میں مخصوص ٹولے چھوٹے صوبوں کے عوام اور مختلف کمیونٹیز کی ریاستی منتظمہ سے شکایات اور تحفظات کو ملک کے طول عرض تک جانے سے روکنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔

یہاں چند سوالات قابل غور ہیں۔ اول، ملک کے اندر ریاست گریز رجحانات کیوں پیدا ہوئے اور ان میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ دوئم، جس کمیونٹی کے افراد کے بزرگوں نے نئے ملک آنے کا فیصلہ کیا، اس کی نئی نسل سے ملک کے ساتھ وابستگی کے بارے میں بے تکے سوالات کیوں کیے جارہے ہیں؟ کیا چھوٹے صوبوں کے عوام اور چھوٹی کمیونٹیوں کی آوازوں کو دبا دینے سے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ پنجاب کے عوام تک چھوٹے صوبوں کے عوام کے تحفظات پہنچنے سے روکنے کے پیچھے کیا عزائم ہیں؟

ان سوالات پر اسٹبلشمنٹ کے منصوبہ سازوں کے علاوہ میڈیا منیجروں اور بااختیار صحافیوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب عظیم الشان ریاستیں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کے باعث قائم نہ رہ سکیں، توکیا ایک غریب ملک چھوٹی کمیونٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اپنے کوتاہ بین اقدامات سے نفرتوں کوکم کرنے کے بجائے بڑھاوا دینے کا باعث تو نہیںبن رہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔