آدھا تیتر آدھا بٹیر

جاوید قاضی  جمعرات 5 اکتوبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میاں صاحب پارٹی کے صدر بن گئے۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم درکار تھی۔ میاں صاحب یہ بھی شاید نہ کر پاتے اگر اس دن سینیٹ کے آٹھ میں سے سات ارکان غیر حاضر نہ ہوتے اور بقیہ ایک ممبر نے PML-N کی حمایت میں ووٹ نہ دیا ہوتا، اور تو اور اس روز سینیٹ سے رحمان ملک بھی غیر حاضر رہے اور جماعت اسلامی کے سراج الحق صاحب بھی موجود نہ تھے۔ اور پی ٹی آئی کے سینیٹر بھی غیر حاضر۔ ان تمام عنایتوں کی باوجود Electoral Reform Bill  ایک ووٹ کی اکثریت سے سینیٹ سے پاس ہوگیا۔

رہا سوال ایوان زیریں کا وہاں کیونکر نہ پاس ہوتا۔ یوں کہیئے کہ سینیٹ نے بال بنا کر پھینکا اور میاں صاحب نے چھکا مارا۔ پاکستان کے تاریخ کا شاید یہ تیز ترین بل ہوگا۔ جب دونوں ایوانوں نے بل پاس کیا تو ہمارے صدر ممنون حسین صاحب کے زنگ آلود دروازے یوں پلک جھپکتے کھلے کہ جیسے ان کا دستخط پہلے ہوگیا ہو اور بل شاید بعد میں پاس ہوا ہو۔ اس بل کے لیے سادہ اکثریت درکار تھی سو ہوئی۔ مگر دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے جس کے لیے آرٹیکل 62 (1) (F) کو آئین سے خارج کیا جا سکتا ہے۔

ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی

ہاں ہم ہی کار بند اصول وفا نہ تھے

(فیضؔ)

میاں صاحب پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی بات کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اتنی با اختیار ہے کہ وہ آئین کے اندر ہر ترمیم کرتے ہوئے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ہلا سکتی ہے۔ گدھے کو گھوڑا اور گھوڑے کو گدھا کہہ سکتی ہے۔ آئین کے بہت بڑے فلسفہ نگار Albert Venn Diecy  کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اس حد تک سپریم ہے کہ وہ ہر بل پاس کر سکتی ہے لیکن یہ فلسفہ غیر تحریری آئین کے تناظر میں پیش کیا۔ برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی اپنی ایک تاریخ ہے جہاںترمیم کے لیے سادہ اکثریت ہی درکار ہوتی ہے۔ اور کورٹ ایسے بہت سارے فیصلے جن کے تحت مخصوص قوانین میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکتا اس میں ان کا Human Rights Act 1998 بھی آتا ہےBrexit  کے بعد شاید کچھ اثر اس پر بھی ہوا ہو۔ لیکن ہمارا آئیں غیر تحریری نہیں اور پھر پارلیمنٹ سپریم بھی نہیں۔  ہمارے سپریم کورٹ کے ایسے کئی فیصلے ہیں  1973ء کے آئین کے بعد جس سے ہمارا Origin امریکا کے آئین سے جڑتا ہے۔

امریکا کی سپریم کورٹ کہتی ہے کہ آئین و قانون میں ترمیم بھلے ہو مگر اس حد تک جس سے آئین کا بنیادی ڈھانچے متاثر نہ ہو۔

ہمارا آئین تحریری ہے اور یہ نکتہ اس بات کی تصدیق ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں بلکہ آئین سپریم ہے۔

اور بھی بات دوبارہ میاں صاحب نے چھیڑ دی بالکل اس طرح ہی ہوا تھا۔ جرمنی میں 27 فروری 1933ء کی اس شب جب پارلیمنٹ ( Reichstag) میں آگ لگی تھی اس کا الزام کمیونسٹ پارٹی پر دیا گیا تھا۔ اور Reichstag کی بڑھتی ہوئی آگ سے نازی جرمنی ظہور پذیر تھا اور یہی اس  پارلیمنٹ نے ہٹلر کو ایک دن جرمنی کا تاحیات سربراہ بنانے کے قرارداد پاس کردی۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں پارلیمنٹ کچھ بھی کر سکتی تھی گھوڑے کو گدھا، گدھے کو گھوڑا بنا سکتی تھی۔ اور پھر ایک دن اسی ہٹلر نے جرمنی کا وہ بیانیہ تخلیق دیا جس نے دنیا کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لے لیا جو آگ Reichstag سے شروع ہوئی تھی اور یہی بات ہندوستان کہ kesavananda کیس کے مکھ وکیل نانی پالکھی والا نے کی تھی جب سانحہ ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی اتنی مقبول ہوئی کہ اس نے مدت پوری ہونے سے پہلے انتخابات کروائے اور یوں دو تہائی اکثریت  پارلیمنٹ میں حاصل کر گئی اور وہ ترامیم کرتے ہوئی کورٹ سے Judicial Review  کا اختیار لینا چاہتے تھی۔ اندرا سمجھتی تھی کہ آئین سپریم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور وہ آئینی ترمیم کر سکتی ہے فقط ایسا کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت ہو۔ نانی پالکھی والا نے کہا کہ یہ وہ عمل ہے جس سو خود ہٹلر پیدا ہوا تھا (آج ہندوستان کے پاس ہندوستان کے تاریخ کا سب سے بڑا فاشسٹ مودی اندرا گاندھی سے بھی آگے نکل گیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کورٹ کس طرح اپنے آپ کے Assert  کرتی ہے)

کورٹ نے نانی پالکھی والا  سے پوچھا کہ بنیادی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے۔ نانی نے جب بنیادی ڈھانچہ بتایا تو کورٹ نے کہا کہ ایسا کچھ تحریری طور پر آئین میں  نہیں ہے۔ نانی نے کہا کہ ایسا کچھ آئین میںہےDoctrine of Implied Limitation  کے تحت ہے۔ کورٹ نے کہا کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے اس تھیوری کا Origin  ہے۔ نانی نے بتایا اس تھیوری کا بانی Sir John Marshal  امریکا کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے جنہوں  نے Marbury vs Madison  کیس میں یہ تھیوری سنائی تھی۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ امریکا کا آئین تحریری آئین ہے اس لیے وہ سپریم ہے اور ترمیم کرنے کا اختیار اس کی کوکھ سے نکلتا ہے ،مگر اس طرح ایسی کوئی ترمیم جو خود اس کے روح کو مسخ کرے اس کی اجازت نہیں۔ اور اس طرح یہ اختیار سپریم کورٹ کہ پاس ہے کہ وہ اپنی Judicial Review  کی جورسڈکشن کو عمل میں لاتے ہوئے ایسی ترمیم کو پرکھے۔

میاں صاحب کو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے صادق اور امین کے برخلاف پایا۔ Article 62 (1)(F) یقیناً آئین کے روح میں نہیں جاتی، ایک آمر کی اس ترمیم نے خود آئین میں ابہام ڈالا مگر پانامہ کیس میں میاں صاحب مجرم ہیں ایک حوالے سے اور نیب کیس میں ملزم ہیں واضح حوالے سے۔ وہ پبلک آفس ہولڈ نہیں کر سکتے اور پارٹی کے آفس bearer نہیں ہو سکتے۔ اور آرٹیکل 62 (1)(F) ابھی موجود ہے گیا نہیں، ایسی حرکت سے خود سپریم کورٹ کی روح Judicial Review  مجروح ہوئی ہے۔

پارلیمنٹ نے جو الیکشن اصلاحات 2017ء کا بل پاس کیا ہے۔ وہ خود مخصوص حالات میں کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین کے ترمیم یا قانون میں ترمیم کر کے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ اور اس طرح سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے تابع ہے۔ آجکل PML-N  پہ جوش جنون سوار ہے اور ایسے کئی جمہوریت کے شیدائی اور متوالے یہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب آئین کی بالادستی، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ نیب کورٹ کو یہ چلنے نہیں دیتے اسے یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ سوال حل ہونا چاہیے کے رینجرز کس کے حکم پر وہاں پہنچی لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ گئے کیوں تھے؟ پچھلی دو شنوائیوں میں پولیس نے صحیح سیکیورٹی کورٹ کو فراہم نہیں کی، اس لیے کورٹ کا انتظام رینجرز کے حوالے ہونا چاہیے اس لیے کہ نیب کیس میں حکومت خود Indirectly  فریق ہے۔ وہ کورٹ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ لہٰذا آیندہ کے دن بہت اہم ہیں۔ اگر سپریم کورٹ یہ باور نہ کراسکی کہ قانون میں 2017ء کے بل والی ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ متاثر نہیں ہوتا وہ چاہے کتنا بھی میرٹ کو مد نظر رکھ کر فیصلہ ہو۔ سول ملٹری ٹکراؤ اور شدید ہو گا۔ کیوں کہ جو کچھ ہو رہا ہے میاں صاحب اور ان کے رفقا یہ باور کراتے ہیں کہ جیسے یہ سب ریاست کے اندر بیٹھی ہوئی ایک ریاست کروا رہی ہے۔

اقتدار کی اس رسہ کشی میں میاں صاحب ٹکراؤ چاہتے ہیں وہ اس لیے کہ ان کی ذات کے بارے میں کچھ فیصلے ہو چکے ہیں۔ اور وہ ان فیصلوں کو ختم کرنے کے لیے اس حد تک جارہے ہیں جہاں خود  سسٹم کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔