تھر کی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی، نئی صبح کی کرن

عشرت انصاری  جمعرات 5 اکتوبر 2017
کرن نے ثابت کردیا کہ پسماندہ علاقے اور مشکلات کے باوجود تھر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی بھی یکساں قابلیت رکھتی ہے۔ (تصاویر بشکریہ: دیپک آکاش)

کرن نے ثابت کردیا کہ پسماندہ علاقے اور مشکلات کے باوجود تھر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی بھی یکساں قابلیت رکھتی ہے۔ (تصاویر بشکریہ: دیپک آکاش)

کراچی: تھر میں نسیمِ صبح اور بارش کے قطرے کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن باہمت کرن سدھوانی درحقیقت تھرپارکر میں روشنی کی ایک کرن ہیں اور تھر کو ایسی ہی کرنوں کی ضرورت بھی ہے۔

کرن سدھوانی تھر سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون انجینئر ہیں جو اب ’’تھر کول پروجیکٹ‘‘ سے وابستہ ہوکر اپنے علاقے کی خدمت کررہی ہیں۔ حیدرآباد میں واقع مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے بی ایس کرنے کے بعد جب تھر کول پروجیکٹ میں ملازمتوں کو اعلان ہوا تو انہوں نے کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے بجائے خود اپنے علاقے تھرپارکر میں قسمت آزمائی کیا تاکہ وہ اپنی دھرتی کی خدمت کرسکیں۔ بصورت دیگر وہ کراچی میں بہ آسانی روزگار تلاش کرسکتی تھیں۔

ایکسپریس ٹریبیون سے اپنی گفتگو میں 23 سالہ کرن سدھوانی نے کہا کہ 8 ماہ قبل انہیں 4000 سے زائد امیدواروں میں سے منتخب کیا گیا۔ بھرتی کا طریقہ کار بہت سخت تھا اور ہر مرحلے پر انہیں ناکامی کا خدشہ بھی تھا لیکن قدم بہ قدم وہ تمام مراحل میں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔

’’اس طرح میں نے ثابت کر دکھایا کہ پسماندہ علاقے اور تمام تر مشکلات کے باوجود تھر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی بھی یکساں قابلیت رکھتی ہے،‘‘ کرن نے کہا۔

25 کامیاب امیدواروں میں سے کرن واحد خاتون ہیں جو تھرکول پروجیکٹ کی سائٹ پر کام کررہی ہیں۔ ’’آخری انٹرویو کےلیے میں اپنے والد کے ساتھ یہاں آئی تو میرے والد کا اصرار تھا کہ میں گھر پر ہی رہوں اور دن میں یہاں روزانہ آتی رہوں۔ وہ سائٹ پر میری رہائش کے خلاف تھے کیونکہ یہاں دیگر مرد افسران اور مزدور بھی رہتے ہیں،‘‘ کرن نے بتایا۔

’’تاہم میں سائٹ کے پاس ہی رہنا چاہتی تھی تاکہ کان کنی کا براہ راست مشاہدہ کرکے فیلڈ سے سیکھتی رہوں۔ میں دفتری امور تک محدود رہ کر اپنے ’حلقہ آرام‘ (کمفرٹ زون) میں قید نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ اسی لیے میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ مجھے سائٹ پر ہی رہنے دیں،‘‘ کرن نے واضح کیا۔

کرن کے اصرار پر اس کے والد نے سائٹ پر دیگر افسران سے ملاقات کی اور اپنی بیٹی کو وہاں ٹھہرنے کی اجازت دیدی۔ اب ہر 15 روز بعد وہ مٹھی میں اپنے گھر جاتی ہیں۔ ’’(رہائش کی اجازت کے بعد) میں خود کو چاند پر محسوس کررہی تھی کیونکہ مجھے خود کو ثابت کرنے کا ایک پلیٹ فارم میسر آگیا تھا۔‘‘

کرن خود چاہتی ہیں کہ تھرپارکر کی خواتین اپنی سکونت سے باہر نکلیں اور خود کو اہل ثابت کریں۔ کرن نے بتایا کہ ان کے والدین انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے کیونکہ انجینئرنگ کا شعبہ خواتین کےلیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ’’یہ میری زندگی کا پہلا چیلنج تھا جس میں کامیابی ملی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ میڈیکل یا تدریس کا شعبہ ہی خواتین کو کام اور مہارت نہیں دلاتا بلکہ درحقیقت یہ ان کا جذبہ ہوتا ہے جو کامیابی دلاتا ہے،‘‘ کرن نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔

اس وقت تھرپارکر میں لوگوں کے ذہن بدلنے کی اشد ضرورت ہے جو کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں تک کہ خطے میں کام کرنے والی سینکڑوں غیرسرکاری تنظیمیں بھی ذہن سازی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہیں۔

کرن سدھوانی ہندو برادری لوہانو سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ یونیورسٹی جانے اور انجینئر بننے والی اپنی کمیونٹی کی پہلی خاتون بھی ہیں۔ مٹھی کے متوسط طبقے کے ایک خاندان میں آنکھ کھولنے والی کرن نے پرائمری سے انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی اور اس کے بعد مہران یونیورسٹی کا رخ کیا۔

کام اور دیگر معمولات کے علاوہ کرن رضاکارانہ امور کا بے حد شوق رکھتی ہیں۔ جب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی ( ایس ای سی ایم سی) نے خاتون ٹرک ڈرائیوروں کا پروگرام شروع کیا تو وہ کرن ہی تھیں جنہوں نے گاؤں گاؤں جاکر تھری خواتین کو ہمت دلائی کہ وہ یہ کام کریں اور خود کو مضبوط بنائیں۔ کرن کے مطابق ’’ضروری نہیں کہ ڈمپروں کی تمام خواتین ڈرائیور ہی بہت غریب ہوں یا آمدنی چاہتی ہوں، بلکہ وہ خود مختار ہوکر اپنے بل پر کچھ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اپنے اہلِ خانہ کی زندگی سنوار سکیں۔

اپنے فارغ وقت میں وہ تھر کی ترقی کے علاوہ ٹیبل ٹینس، موسیقی اور کتب بینی وغیرہ جیسے مشاغل میں خود کو مصروف رکھتی ہیں۔

کرن سدھوانی، تھر میں منور ہونے والی ایک ایسی کرن ہے جس سے تھر روشن ہوگا؛ اور ایسی ہی کرنیں روشن ہوتی رہیں تو پورا ملک ترقی کی روشنی سے جگمگا اٹھے گا۔

نوٹ: یہ مضمون روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہوچکا ہے۔ اصل انگریزی تحریر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔