’’مناہل اور خلیل‘‘

اشرف میمن  پير 25 فروری 2013
’’ایکسپریس‘‘ پر پیش کی جانے والی پیار بھری کہانی۔  فوٹو : فائل

’’ایکسپریس‘‘ پر پیش کی جانے والی پیار بھری کہانی۔ فوٹو : فائل

دسمبر 2012 میں ’’ایکسپریس‘‘ پر ’’مناہل اور خلیل‘‘ شروع ہوا اور اس کہانی نے ناظرین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ جلد ہی خوب صورت منظر نگاری، بہترین اداکاری اور رومان سے سجی اس کہانی کو کروڑوں ناظرین میسر آگئے اور یہ ’’ایکسپریس‘‘ دیکھنے والوں کے دلوں میںاتر چکا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مناہل اور خلیل ناظرین سے بے تحاشا داد سمیٹ رہا ہے اور انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کے اس وقت جاری ڈراموں میں مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ اس کی پزیرائی اور کام یابی کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ممالک کی سطح پر ثقافت کی ترویج کے لیے ڈراما مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے اور اِس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی ڈراما کسی طرح بھی بین الاقوامی معیار سے کم نہیں۔ پاکستان میں’’مناہل اور خلیل‘‘ کی پسندیدگی اس بات کی عکاس ہے کہ عوام اِسے اپنے دل کے بہت زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔

مناہل اور خلیل، دو پیار کرنے والوں کی کہانی ہے۔ اس کی ابتدا برلن کی ایک بیکری میں نوکری کرنے کے دوران مناہل اور خلیل کی ملاقات سے ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی محبت میں بدل جاتی ہے۔ اِدھر مناہل کا لالچی باپ چند ہزار کی رقم کے عوض اپنی معصوم اور حسین بیٹی کی شادی زبردستی مصطفیٰ کے ساتھ کر دیتا ہے، لیکن مصطفیٰ کی بدمزاجی کی وجہ سے مناہل اس شادی سے خوش نہیں ہوتی۔ مصطفیٰ کی حرکتوں کی وجہ سے ایک دن مناہل اور خلیل جرمنی کے شہر برلن سے بھاگ کر ترکی کے شہر استنبول چلے جاتے ہیں۔ اُن کے پیچھے پیچھے مصطفیٰ اور مناہل کا بھائی قادر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مناہل، مصطفیٰ سے طلاق لینے کے بعد خلیل سے شادی کر لیتی ہے۔

یاد رہے کہ زینب جو خلیل کی سابق منگیتر اور بزنس پارٹنر ہے، اب بھی اُسے پسند کرتی ہے، جب کہ نعمت جو خلیل کا سوتیلا باپ اور اُس کا بزنس پارٹنر بھی ہے، مصطفیٰ کے دل میں مناہل اور خلیل کے خلاف بھڑکتی ہوئی انتقام کی آگ اسے ایک سفاک قاتل بنا دیتی ہے۔ اس کے باوجود کہ نعمت کے محافظ اور استنبول کی پولیس مصطفیٰ کو ڈھونڈ رہی ہے، مصطفیٰ مناہل کو اغوا کر لیتا ہے اور اغواء کے بعد اُسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتاہے۔ اس الم ناک واقعے کے بعد مناہل اپنے وجود کو ایک بوجھ اور سماج میں خود کو ایک بدنما داغ سمجھتی ہے۔ اُس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اب وہ کسی طور پر بھی خلیل کے لائق نہیں اور انھی خیالات کے پیشِ نظر وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کی کو شش بھی کرتی ہے، لیکن قسمت کی دیوی اُس پر مہربان ہوتی ہے اور وہ بچ جاتی ہے۔

اس نازک صورتِ حال کی وجہ سے مناہل اور خلیل کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں، لیکن خلیل، مناہل کو ایسے کم زور لمحات میں نہ صرف سہارا دیتا ہے بلکہ ہر ممکن اُس کی دل جوئی بھی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مناہل زندگی کی طرف لوٹ آئے اور اپنے دامن میں زندگی کی ساری خوشیاں بھر لے، لیکن مناہل کی اداسی ہے کہ کسی طور کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اُدھرمصطفیٰ کی تلاش میں پولیس جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے، لیکن مصطفیٰ کو جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کہ اُس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، مگر پولیس بھی شاید قسم کھا کے بیٹھی ہے کہ مصطفیٰ کو ڈھونڈ کر ہی دم لے گی اور اسی لیے پولیس اُس کی تلاش میں رات دن متحرک ہے۔ پولیس والوں کاکہنا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آج نہیں تو کل مصطفیٰ قانون کے شکنجے میں ہوگا۔

گزرتے وقت اور خلیل کی بھرپور توجہ کی وجہ سے مناہل آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹنے لگتی ہے۔ اِسی دوران مناہل اور خلیل اپنی رحم دل طبیعت سے مجبور ہو کر امینہ کی معصوم بیٹی شبنم کو جو امینہ کے جیل جانے کے بعد بہت تنہا ہو گئی تھی، اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور اُسے اتنا پیار دیتے ہیں کہ وہ کچھ ہی دنوں میں مناہل اور خلیل سے بہت زیادہ مانوس ہو جاتی ہے۔ ’’مناہل اور خلیل‘‘ دیکھنے والوں پر اُس وقت حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب انھیں یہ پتا چلا کہ نعمت جسے وہ ہمیشہ سے خلیل کا سوتیلا باپ سمجھتے آئے تھے، خلیل کا اصل باپ ہے۔

دو پیار کرنے والوں کی زندگی میں جدائیوں کے ابھی کتنے موڑ آنا باقی ہیں؟ خلیل، مصطفیٰ سے اپنی مناہل کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا بدلہ کس طرح لے گا؟ اور کیا مناہل اور خلیل ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھر سے محبت کی وادی کی سیر کریں گے؟ یہ جاننے ’’ایکسپریس‘‘ دیکھتے رہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔