مہذب ہونا خاصا مہنگا شوق ہے

وسعت اللہ خان  پير 25 فروری 2013

میں ایسے شہر میں رہتا ہوں جہاں زندگی ادھار کی ہے۔یہاں میں اپنی کوشش ، ذہانت ، بہادری ، بزدلی یا سخت جانی کے سبب نہیں بلکہ اس لیے زندہ ہوں کہ قاتل کی توجہ اب تک میری جانب نہیں گئی یا پھر اسے تھمائی گئی فہرست میں میرا نمبر ابھی تھوڑا نیچے ہے یا گولی چلانے والا کسی اور اہم مشن میں لگا ہوا ہے یا ابھی میرے بارے میں قاتل کی تحقیق نامکمل ہے یا میں اس قدر بے کار و ناکارہ ہوں کہ میرا زندہ رہنا نا رہنا برابر ہے۔۔۔

بس یہی احساس ہے جس نے مجھے بے خوف کردیا ہے۔ جب آپ کا اپنی زندگی اور موت پر سے اختیار اٹھ جائے تو پھر بے خوف رہنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ورنہ آپ صبح کیسے اٹھیں گے؟ بچوں کو اسکول کب لے کر جائیں گے ؟ اشیائے خورونوش خریدنے کب نکلیں گے ؟ دفتر میں روزانہ حاضری کس سے لگوائیں گے ؟ شادی غمی کے لیے وقت بے وقت کیسے نکالیں گے۔ان کاموں کے لیے نڈر تو بننا پڑتا ہے ، خوف کی چادر کو تو پھاڑنا پڑتا ہے۔آپ چاہیں تو اس کیفیت کو بے حسی بھی کہہ سکتے ہیں۔مگر اس کا دارومدار اس پر ہے کہ آپ میری روزمرہ زندگی کو کتنی بلندی پر یا پستی میں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں ؟

ایک ایسے شہر میں جہاں اوسطاً دس لاشیں روزانہ گرتی ہوں وہاں لوگ آخر خوفزدہ کیوں نہیں ہوتے، ان کے ہاتھ پیر کیوں نہیں پھولتے، وہ مستقل دھرنا کیوں نہیں دیتے، وہ لانگ مارچ کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔وہ کاروبار کیوں نہیں لپیٹ دیتے ، وہ کہیں اور بسنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے ؟

ہا ہا ہا ہا۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ جیسے نارمل علاقوں میں زندگی گذارنے والے اسی طرح کے بچگانہ سوالات کریں گے۔جیسے فرانس کی ایک ملکہ نے شاہی بالکونی کے نیچے زمین پر رینگنے والے انسانی کیڑوں کو دیکھ کر حل پیش کیا تھا کہ اگر ان بھوکوں کو روٹی میسر نہیں تو کیک کھا کر پیٹ کیوں نہیں بھرلیتے ؟ جیسے پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ٹماٹر مہنگے ہوگئے ہیں تو سالن بغیر ٹماٹر کے کیوں نہیں پکا لیتے۔چائے میں چینی کے بجائے کینڈرل کیوں نہیں ڈال لیتے۔

مسئلہ شائد یہ ہے کہ نا میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں اور ناآپ سمجھ سکتے ہیں کہ مجھ میں صبر کیوں نہیں، میں قطار بنانے پر یقین کیوں نہیں رکھتا ، میں شادی یا غم کا کھانا کھلتے ہی اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالنے کے بجائے پوری قاب ہی اٹھا کر کیوں بھاگ نکلتا ہوں۔میں دفتری ذلت کا بدلہ گھر آکر بیوی بچوں سے کیوں لیتا ہوں۔میرا نظریہِ زندگی یہ کیوں بن چکا ہے کہ زندہ دراصل وہ مردہ ہے جو دو ٹانگوں پر چل رہا ہے۔۔۔۔

مہذب بننا اور پھر مہذب انسانوں کی طرح زندگی بھی بسر کرنا ہم جیسے غریب غربا کہاں افورڈ کرسکتے ہیں ؟ تہذیب یافتگی تو کھاتے پیتوں کے چونچلے ہیں۔کیا آپ کو ذرا بھی اندازہ ہے کہ مہذب بننا فی زمانہ کتنا مہنگا اور صبر طلب شوق ہے۔

گویا آپ مجھ جیسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں روز نہاؤں ( چاہے پانی ملے نا ملے )۔
صاف ستھرے کپڑے پہنوں ( بھلے مجھے بس کے پائیدان سے مسلسل لٹک کر سفر کرنا پڑے )۔

اپنے بچوں کو نا صرف اسکول بھیجوں بلکہ معیاری اسکول بھیجوں ( بھلے میں سات ہزار روپے ماہانہ فیس افورڈ کرسکوں یا نا کرسکوں)۔
ان کی اچھی تربیت کروں ( بھلے دفتر سے گھر آتے آتے مجھ میں جوتے اتارنے تک کی سکت نا بچے )۔

بچوں کی بہتر جسمانی نشوونما کے لیے ہفتے میں کم ازکم ایک وقت گوشت کھلاؤں ( گویا ہر ہفتے یا تو کوئی شادی ، ولیمہ ڈھونڈوں یا موت کا کھانا تلاش کروں یا پھر دعا کروں کہ بقر عید سال کے بجائے ہر ہفتے آئے۔کیونکہ چھ سو روپے کلو میں تو مجھ جیسا آدمی اپنی کھال ہی پکوا سکتا ہے )۔۔۔۔۔۔

شائد میں پاگل ہوچکا ہوں، اسی لیے ہذیان بک رہا ہوں۔آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔جب آپ کی تنخواہ بھی میری طرح سات ہزار سے دس ہزار کے درمیان ہو۔ میری طرح چار بچے ہوں۔میری طرح دو بسیں بدل کر گھر سے دفتر آنا اور جانا پڑا۔میرے بچوں کی طرح گھر سے تین کلومیٹر دور واقع اسکول پیدل جانا پڑے اور جب وہ اسکول پہنچیں تو ان کے ہم جماعت کسی بارہ سو روپے مہینے کی اسکول ویگن سے ہنستے مسکراتے اسکول کے گیٹ پر اتر رہے ہوں۔۔۔تب میں آپ سے پوچھوں گا کہ بھائی آپ اتنے آدم بیزار کیوں ہیں۔اتنے بدتمیز کیوں ہیں۔آپ کے ساتھ آخر مسئلہ ہے کیا ؟؟؟

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ کراچی جیسے شہر میں رہنا اتنا خطرناک نہیں جتنا آپ کو دور بیٹھے لگتا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اس شہر کی آبادی صرف چودہ برس میں ایک کروڑ سے دو کروڑ نا ہو جاتی۔( سات ہزار برس کی معلوم انسانی تاریخ میں روئے زمین پر کراچی کے علاوہ ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی شہر کی آبادی صرف چودہ برس میں دگنی ہوگئی ہو )۔

مگر یہاں ہر ذی روح نے جینے کا ڈھنگ کم و بیش سیکھ ہی لیا ہے۔بس اتنا ہی تو کرنا ہے کہ جہاں کوئی زخمی سڑک پر پڑا ہو وہاں سے تیزی سے گذر جاؤ۔
جہاں کوئی کسی کو گولی مار رہا ہے اس کی جانب مڑ کر مت دیکھو۔
جہاں کوئی اغوا ہوتے وقت مدد کو پکار رہا ہو وہاں فرض کرلو کہ یہ مجھے نہیں بلکہ کسی اور کو آواز دے رہا ہے۔

سڑک بند ہو تو کھڑے ہو کر پوچھنے نا لگ جاؤ کہ کیا ہوا، سڑک کیوں بند ہے۔بلکہ گاڑی ریورس کرو اور دائیں یا بائیں کی پہلی پتلی گلی پکڑ کر اس میں گم ہوجاؤ۔
کوئی کمر سے پستول لگا دے تو یہ مت سوچو کہ یہ نقلی ہے کہ اصلی ، لوٹنے والا پروفیشنل ہے کہ نان پروفیشنل ، یہ گولی چلائے گا کہ صرف دھمکائے گا۔کوئی فائدہ نہیں اس طرح سوچنے کا۔بٹوا اور موبائل فون نکال دو اور لوٹنے والے کے چہرے کو دیکھے بغیر تیر کے مافق سیدھ میں چلتے چلے جاؤ۔۔حتیٰ کہ بیس فٹ دور کوئی پولیس والا بھی کھڑا ہو تو اس سے انجان بن جاؤ۔

بھتہ لینے والے سے کبھی حجت مت کرو ورنہ اگلی مرتبہ حجت کے قابل بھی نہیں رہو گے۔ ( حجت کے لیے زندہ رہنا بہت ضروری ہے )
تو یہ ہیں وہ چند سنہری اصول اور مجرب نسخے جن کی مدد سے ہم دو کروڑ لوگ اس شہرِ بے کراں میں نہایت عیش و آرام و سکون سے رھ رہے ہیں۔آپ کو ٹینشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔۔۔۔۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔