شاہد خاقان پر نواز شریف بجا اعتماد کرتے ہیں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 6 اکتوبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کے باہمی اور گہرے تعلقات کی ایک حیرت انگیز کہانی مسلم لیگ کی ایک پرانی اور کہنہ مشق سیاستدان محترمہ کلثوم سیف اللہ سناتی ہیں۔ کلثوم سیف اللہ صاحبہ کبھی پیپلز پارٹی ، محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھی معتمد ساتھی تھیں۔

حالات میں تبدیلی آئی اور جناب نواز شریف طاقتور سیاستدان بن گئے تو وہ میاں صاحب کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔ کلثوم سیف اللہ صاحبہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا حصہ بھی بنی رہیں۔ بزنس اور صنعتکاری کی دنیا میں بھی انھوں نے بڑی کامیابیاں سمیٹیں۔’’میری تنہا پرواز‘‘(My Solo Flight)کے نام سے انھوں نے ایک شاندار کتاب بھی لکھی ۔یہ تصنیف اُن کی بیش بہا، قیمتی اور انکشاف خیز یادوں پر مبنی ہے۔

شاہد خاقان عباسی اور نواز شریف کے انتہائی قریبی تعلقات کے بارے میں محترمہ کلثوم سیف اللہ اپنی مذکورہ کتاب میں ایک جگہ یوں لکھتی ہیں: ’’میری سیاسی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ یہ بھی ہے کہ جب(وزیر اعظم) بے نظیر بھٹو کے خلاف( نومبر 1989ء کوقومی اسمبلی میں) عدم اعتماد لایا جارہا تھا اور نواز شریف نے اپنے تمام ساتھی ارکانِ اسمبلی کو مری منتقل کر دیا تھاتو ان(ارکان) کی نگرانی میرے ذمے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ سب حراست میں لے لیے گئے ہوں اور مَیں اُن کی جیلر ہُوں۔ہمیں مری کے ایک ہوٹل میں رکھا گیا تھا۔ہر شام نواز شریف آ کر مجھے کہتے:’ بیگم صاحبہ، آپ کا بس یہ کام ہے کہ کوئی بندہ یہاں سے نکل کر نہ جائے۔‘

ایک بار مَیں نے اُن سے کہا:’ میاں صاحب، مَیں نے آج تک مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کیا ہے لیکن مَیں نے مردوں کی رکھوالیاں اور نگرانیاں نہیں کی ہیں، یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔‘ کہنے لگے:’ اچھا، مَیں کچھ ممبروں کو آپ کے سپرد کر دیتا ہُوں۔‘ مَیں نے کہا:’ وہ آپ کی مرضی ہے مگر مَیں نے آپ کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے۔‘ اس پر میاں (نواز شریف) صاحب بولے:’ دراصل آپ کا بڑا دبدبہ اور رعب ہے اور تمام لوگ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، آپ بس ان کو گپ شپ میں مصروف رکھا کریں اور ان پر نگاہ رکھیں۔‘مَیں نے میاں صاحب کو اُن کی اِس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔‘‘ محترمہ کلثوم سیف اللہ اپنی کتاب میں مزید رقمطراز ہیں:’’ہمارے ساتھ وہاں ایک رکنِ اسمبلی تھے۔

ایک دن وہ مجھے کہنے لگے: ’بی بی، یہاں تو بہت سردی ہے اور میرے گھٹنوں میں درد ہے۔مَیں جا کر اپنے لیے گرم کپڑوں کا بندوبست کرتا ہُوں اور کمرہ گرم کرنے کے لیے کچھ کوئلے بھی لے کر آتا ہُوں۔‘ ظاہر ہے کہ وہ ہم سے علیحدہ ہو کر یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے؛ چنانچہ مَیں نے اُن سے کہا:’ جناب آپ فکر نہ کریں، آپ کے لیے گرم کپڑوں اور کمرہ گرم کرنے کے لیے کوئلوں کا بندوبست ہو جائے گا۔میرا نوکر آپ کے گھٹنوں کی مالش اور ٹکور بھی کردے گا۔‘ میری بات سُن کر وہ خاموش ہو گئے۔ مَیں نے اُن کی خاموشی بھانپتے ہُوئے کہا:’ آپ اگر میاں (نواز شریف ) صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے۔‘ چہک کر بولے:’ یہ تو آپ نے بڑے کمال کی بات کی ہے۔ ‘ مَیں نے میاں صاحب کو اطلاع بھیجی کہ حویلیاں کا فلاں فلاں رکن آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا:’ مجھے معلوم ہے وہ کیوں ملنا چاہتا ہے۔

مَیں ان سب کی گنتی کرکے واپس آ کر سوتی تھی۔ نگرانی کے اس کام میں خاقان عباسی کے بیٹے شاہد(خاقان) عباسی میرے ساتھ ہوتے تھے؛ چنانچہ ہم رات کو ٹارچ لے کر چکر لگاتے اور یقین کرتے کہ تمام ارکان موجود ہیں۔ یہ ایک ایسی ذمے داری تھی جوزبردستی مجھے سونپ دی گئی تھی اور مجھے اس کا کوئی تجربہ یا شوق نہیں تھا لیکن بہر حال مجھے یہ کام کرنا پڑا۔ مقررہ دن تمام ارکان کو ایک بس میں سوار کر کے اسلام آباد لایا گیا۔ جب سب سوار ہو گئے تو میاں(نواز شریف) صاحب نے مجھے خاص طور پر کہا:’ مہربانی کرکے ایک بار پھر گنتی کر لیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی بندہ پیچھے رہ جائے۔‘‘(بحوالہ ’’میری تنہا پرواز‘‘، صفحہ نمبر 161)

چند ایک ووٹوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی یہ تحریک ناکام ہو گئی تھی لیکن اِس تاریخی واقعہ کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کے حصول کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ اقتدار کے بلند ترین منصب پر پہنچنے کے لیے اپنے ’’ساتھی‘‘ سیاستدانوں کے کیسے کیسے مطالبات بھی پورے کرنے پڑتے ہیں۔

محترمہ کلثوم سیف اللہ کا بیان کردہ یہ آن دی ریکارڈ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ آج کے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی اور جناب نواز شریف کے تعلقات دیرینہ بھی ہیں اور بہت گہرے بھی۔وہ مدت دراز سے میاں صاحب کے وفادار ساتھیوں میں نمایاں چلے آ رہے ہیں۔ نون لیگ کے رہبرِ اعظم جناب نواز شریف اُن پر ہر پہلو سے اعتبار کرتے ہیں ۔ ابھی پرسوں ہی انھوں نے جاوید چوہدری صاحب کو جو ٹی وی(ایکسپریس نیوز) انٹرویو دیا ہے، اِس کا بھی خلاصہ یہی ہے کہ وہ صمیمِ قلب سے سمجھتے ہیں کہ پوری مسلم لیگ نون میں میاں نواز شریف کا متبادل کوئی نہیں ہے۔4اکتوبر2017ء کی شام نشر ہونے والے اس انٹرویو میں بہت سے ایسے مراحل دیکھے جا سکتے ہیں جو نواز شریف کے لیے شاہد خاقان عباسی کی وفاداریوں کی مضبوط دلیل ہیں۔

شاہد خاقان عباسی صاحب نے اپنے لیڈر، نواز شریف، کے لیے قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلی ہیں۔ اور وہ بھی پورے دوسال تک۔ مشرف صاحب نے میاں صاحب کو بندوق کے بَل پر اقتدار سے رخصت کیا تو شاہد خاقان عباسی بھی محبتِ نواز شریف میں گرفتار کر لیے گئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت نے بڑا زور لگایا تھا کہ شاہد خاقان اپنے لیڈر کے خلاف کوئی مفید گواہی دیں۔

شاہد خاقان نے مگر گواہی دینے کے بجائے مشرف کی جیل میں جانا قبول کر لیا۔ تو کیا نواز شریف اپنے اس کارکن کی وفاؤں کو فراموش کردیتے ؟28جولائی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنائے گئے تو ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے صحافی(رسل گولڈمین) نے عباسی صاحب کے بارے میں جو تفصیلی آرٹیکل لکھا، اُس میں اُن کی دوسری خوبیوں کا ذکر کرتے ہُوئے خصوصی طور پر یہ بھی لکھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنے لیڈر نواز شریف کے Staunch Loyalist ہیں۔

تقریباً یہی باتیں برطانوی اخبار ’’ڈیلی مرر‘‘ اور سنگا پور کے معروف اخبارThe Straits Timesنے بھی لکھیں۔ بھارت کے مشہور اخبار ’’بزنس اسٹینڈرڈ‘‘نے لکھا ہے کہ اٹھاون سالہ شاہد خاقان عباسی پر نواز شریف اس لیے بھی زیادہ اعتبار کرتے ہیں کہ وہ بااعتماد شخص ہونے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مہذب بھی۔ شاہد خاقان صاحب کو وزیر اعظم بنے دو ماہ ہو چکے ہیں لیکن اُن کی وفاداری اور وفا شعاری کا عالم یہ ہے کہ وہ اب بھی نواز شریف ہی کو اپنا وزیر اعظم قرار دیتے اور کہتے ہیں۔

تین اکتوبر کو اسلام آباد میں(نااہلی کے فیصلے کے بعد) جب نواز شریف کو ایک بار پھر ، بھاری اعتمادی مینڈیٹ کے ساتھ،مسلم لیگ نون کا صدر منتخب کیا گیا تو جناب شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم ہوتے ہُوئے سیکڑوں لوگوں کے سامنے پھر سے اپنے لیڈر نواز شریف سے وفا داری کا دَم بھرا ہے ۔ اپوزیشن کی کئی سیاسی شخصیات وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی وفاداریوں کا ذکر استہزائیہ اسلوب میں کرتی ہیں تو انھیں کرنے دیجئے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں کوئی ایک بھی سیاستدان ایسا پایا جاتا ہے جو آصف زرداری، بلاول بھٹو اور عمران خان کی وفاداری کا دَم بھرنے سے انکار کرنے کی جرأت کرے اور پھر پارٹی میں بھی رہ سکے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔