پیسہ اب اسٹیٹس سمبل نہیں رہا

سید عاصم محمود  اتوار 8 اکتوبر 2017
سدھا کو ٹماٹر مارے گئے اور ایک بار پھر انھیں اپنی عزت بچا کر فرار ہونا پڑا۔ فوٹو: فائل

سدھا کو ٹماٹر مارے گئے اور ایک بار پھر انھیں اپنی عزت بچا کر فرار ہونا پڑا۔ فوٹو: فائل

پچھلے سال میں ایک کام سے لندن گئی۔ فارغ ہوئی‘ تو وطن واپس جانے کے لئے ہیتھرو ہوائی اڈے پہنچ گئی ۔ میں عام طور پر ساڑھی پہنتی ہوں مگر سفر کروں تو شلوار قمیص پہن لیتی ہوں۔ اس میں مجھے آرام و سکون محسوس ہوتا ہے۔ چناںچہ مخصوص ہندوستانی لباس پہنے میں ایک صوفے پر جا بیٹھی۔

ہوائی اڈے میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ میں بیٹھ کر اردگرد کے مناظر کا جائزہ لینے لگی۔ پرواز بنگلور جا رہی تھی۔ اس لیے میرے آس پاس بیٹھے مسافروں کی ا کثریت ریاست کرناٹک سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ آپس میں کنٹر زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ بہت سے مسافر ادھیڑ عمر تھے۔ شاید وہ اپنے بچوں سے ملنے یا پوتے پوتیوں کی چاہ میں برطانیہ آئے تھے۔ کچھ بچے ہال میں بھاگم دوڑ کر رہے تھے۔

تھوڑے عرصے بعد پرواز جانے کا اعلان ہوا۔ سبھی لوگ ہوائی جہاز کی سمت جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور قطار میں لگ گئے۔ میں بھی قطار میں شامل ہو گئی۔ میرے آگے مغربی لباس میں ملبوس ایک بھارتی خاتون تھی۔ وہ قیمتی لباس میں ملبوس تھی۔ ہاتھ میں بیش قیمت بیگ تھا اور پیروں میں ہیل والی جوتی۔

اس سے آگے کھڑی خاتون بھی اسی کی ساتھی تھی کہ دونوں مسلسل باتوں میں مصروف تھیں۔ دوسری خاتون نے بھی قیمتی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ گلے میں موتیوں کی مالا تھی‘ اس سے ملتے جلتے بندے اور ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں جن پر ہیرے جڑے تھے۔

مجھے پیاس لگ رہی تھی۔ میںنے دور کھڑی وینڈنگ مشین کی سمت دیکھا اور سوچنے لگی کہ کیا پانی لانے کے لیے میں قطار سے نکل جاؤں؟ ابھی میںنے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ دیکھا مجھ سے آگے کھڑی خواتین مجھے گھور رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں مجھے کچھ جذبہ ہمدردی نظر آ یا اور کچھ افسوس!

آگے والی خاتون نے ہاتھ بڑھا کر مجھے کہا ’’کیا میں آپ کا بورڈنگ پاس دیکھ سکتی ہوں؟‘‘

پہلے میںنے سوچا کہ اسے بورڈنگ پاس دے دوں۔ پھر سوچا کہ یہ خاتون تو ایئر لائن کی ملازم نہیں لگتی‘ اسے کیوں پاس دوں؟ لہٰذا میں نے پوچھا ’’آپ نے کیا کرنا ہے؟‘‘

وہ پُراعتماد لہجے میں گویا ہوئی ’’دراصل اس قطار میں بزنس کلاس والے مسافر کھڑے ہیں۔ اکنامی کلاس والوں کی قطار وہ ہے۔‘‘ اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔ ’’آپ وہاں جا کر کھڑی ہو جائیں۔‘‘

میں خاتون کو بتانا چاہتی تھی کہ میرے پاس بزنس کلاس کا ہی ٹکٹ ہے۔ پھر میں کچھ سوچ کر خاموش ہو گئی۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ اس نے کیوں یہ سوچا کہ میں بزنس کلاس میں سفر نہیں کر سکتی؟ لہٰذا میں نے سوا ل کیا: ’’میں وہاں جا کر کیوں کھڑی ہو جاؤں؟‘‘

خاتون نے آہ بھری اور بولی ’’آنٹی‘ میں تفصیل سے آپ کو بتاتی ہوں۔ اکنامی اور بزنس کلاس کے ٹکٹ کی قیمت میں بہت فرق ہے۔ بزنس کلاس کا ٹکٹ ڈھائی گناہ زیادہ مہنگا ہے اور…‘‘

اس کی ساتھی نے لقمہ دیا ’’نہیں‘تین گنا زیادہ مہنگا ہے۔‘‘

’’ہاں‘ ‘ بہت زیادہ مہنگا ہے۔ اسی لیے بزنس کلاس ٹکٹ رکھنے والوں کو بعض مراعات و سہولیات زیادہ ملتی ہیں۔

’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے انجان بننے کا فیصلہ کر لیا اور یہ ظاہر کیا جیسے کچھ نہیں جانتی۔ ’’آپ کس قسم کی مراعات و سہولیات کی بات کر رہی ہیں؟‘‘

خاتون اب کچھ بیزار سی نظر آئی۔ وہ طوعاً کراہاً بولی ۔ ’’بھئی بزنس کلاس والوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دو بیگ لے آئیں۔ مگر آپ صرف ایک بیگ لا سکتی ہیں۔ ہماری قطار میں زیادہ رش بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی جھنجٹ ہوتے ہیں۔ ہمیں کھانا بھی اچھا ملتا ہے اور سیٹیں بھی آرام دہ ہوتی ہیں۔ ہم سیٹیں کھول سکتے ہیں تاکہ نیم دراز ہو جائیں۔ ہمارے سامنے ٹی وی لگے ہوتے ہیں۔ پھر تھوڑے سے مسافروں کے لیے چار واش روم رکھے جاتے ہیں۔ غرض ہمیں کئی سہولیات میسر ہیں۔‘‘

اس کی ساتھی بولی ’’ہمارا سامان بھی دوسروں سے پہلے چیک ہوتا ہے۔ یوں ہم پہلے فارغ ہو جاتے ہیں۔‘‘

پہلی خاتون بولی’’ اب تو آپ جان چکیں کہ دونوں کلاسوں میں کیا فرق ہے۔ لہٰذا اکانومی والی قطار میں چلی جائیں۔‘‘

’’مگر میں وہاں نہیں جانا چاہتی۔‘‘ میں نے جیسے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

وہ خاتون اپنی ساتھی کی طرف مڑی اور بولی’’جانور کلاس سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں سے بحث کرنا بیکار ہے۔ اس جاہل کلاس کے لوگوں سے ائر لائن کا عملہ ہی نپٹتا ہے۔ ہماری باتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔‘‘

مجھے خاتون کی گفتگو سن کر غصہ نہیں آیا بلکہ حیرانی ہوئی۔اس بات نے مجھے ایک واقعہ یاد دلا دیا جو چند ماہ قبل ہی میرے ساتھ پیش آیا تھا۔

اس دن میں اپنے آبائی شہر‘ بنگلور میں ہونے والی ایک تقریب میں شریک تھی۔ تقریب میں ہرطبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شہر کی معروف شخصیات شریک تھیں۔ میں اپنی کنٹر زبان میں مہمانوں سے باتیں کر رہی تھی کہ ایک آدمی میرے قریب آیا اور انگریز ی میں بولا ’’کیا میں اپنا تعارف کرا سکتا ہوں۔ میں…‘‘

وہ خاموش ہو گیا۔ یقینا اس نے مجھے کنڑ بولتے سنا‘ تو یہی سمجھا کہ شاید میں انگریزی نہیں سمجھتی۔ میں نے مسکرا کر کہا ’’آپ مجھ سے انگریزی بول سکتے ہیں۔‘‘

میرا شک درست نکلا۔ وہ تھوڑا گھبرا کر بولا ’’او ہو‘ معاف کیجیے گا‘ میں سمجھا شاید آپ انگریزی سے کم شناسائی رکھتی ہیں۔ کیونکہ آپ کنٹر بول رہی تھیں۔‘‘

میں نے کہا ’’جناب! اپنی مادری زبان بولنے میں کاہے کی شرم اور کیسی شرمندگی؟ بلکہ یہ میرا حق ہے اور میں اسے بولنے پر فخر کرتی ہوں۔ میںا نگریزی صرف ان لوگوں سے بولتی ہوں جو کنٹر نہیں سمجھ سکتے۔‘‘

٭٭

قطار ہولے ہولے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں صبر سے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ اچانک آگے کھڑی خواتین آپس میں باتیں کرنے لگیں ’’ابھی دیکھنا‘ اسے دوسری قطار میں بھیج دیں گے۔اف‘ وہ کتنی لمبی ہو چکی۔ ہم نے تو اس کے بھلے کی بات کی تھی‘ مگر بڑھیا کچھ سنتی ہی نہیں۔‘‘

جب میری باری آئی‘ تو میں نے عملے کو اپنا بورڈنگ پاس دیا۔ تبھی دیکھا کہ دونوں خواتین کچھ دور رک کر مجھے ہی دیکھ رہی ہیں۔ شاید وہ میرے ساتھ ہونے والا تماشا دیکھنا چاہتی تھیں۔

اٹینڈنٹ نے میرا بورڈنگ پاس لیا اور خوش طبعی سے بولی’’خوش آمدید مادام ! پچھلے ہی ہفتے ہماری ملاقات ہوئی تھی نہ؟‘‘ میںنے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ وہ بھی مسکرائی ا ور پھر اگلے مسافر کی طرف متوجہ ہو گئی۔

آگے بڑھتے ہوئے میں نے دیکھا کہ دونوں خواتین الجھن اور تذبذب کا شکار ہیں۔ میں انہیں نظر انداز کرنا چاہتی تھی پھر اپنا خیال بدل لیا ۔ میں ان کے پاس گئی اور پوچھا:

’’پلیز ‘ مجھے بتایئے گا کہ آپ نے یہ کیوں سوچا کہ میں بزنس کلاس کا ٹکٹ نہیں لے سکتی؟ اگرمیرے پاس یہ ٹکٹ نہ بھی ہوتا‘ تو آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ مجھے بتائیں ‘ مجھ کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے۔ کیا میں نے آپ سے مدد کی درخواست کی تھی؟

خواتین خاموشی سے کھڑی مجھے دیکھتی رہیں۔ میں ان کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔ لہٰذا اپنی بات جاری رکھی:‘‘ آپ نے ’’جانور کلاس‘‘ کا ذکر کیا۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کوئی انسان بے انتہا دولت رکھنے کے باعث ’’اپر کلاس‘‘ میں شامل نہیں ہو جاتا ۔ کیونکہ انسان غلط طریقوں سے بھی پیسا کما سکتا ہے۔ انسان پیسے سے آسائشیں اور قیمتی اشیاء ضرور خرید سکتا ہے۔ لیکن یہ پیسا کسی کلاس یا طبقے کی نمائندگی نہیں کر سکتا اور نہ ہی آپ اس سے اسے خرید سکتی ہیں۔

’’لیکن میں مدر ٹریسا کو عظیم کلاس کی عورت سمجھتی ہوں۔ یہی مقام ہندوستان سے تعلق رکھنے والی عظیم ریاضی داں‘ منجول بھرگوا کا ہے۔ یہ نظریہ فرسودہ اور دقیانوسی ہو چکا کہ دولت مند ہونے کے بعد انسان خود بخود کلاس (بہ معنی عزت و شہرت ) حاصل کر لے گا۔‘‘

یہ کہہ کر میں اپنی راہ چل پڑی اور ان کا جواب سننا گوارا نہ کیا۔

آٹھ گھنٹے بعد میں بنگلور پہنچ گئی۔ اس دن میری خاصی میٹنگیں طے تھیں۔ لہٰذا میں ہوائی اڈے سے سیدھی دفتر جا پہنچی۔ میٹنگیں بھگتا کر میں خاصی تھک گئی۔ سفر کی تکان نے مجھے ذہنی و جسمانی طور پر تھکا ڈالا تھا۔ اس لیے اپنی پروگرام ڈائریکٹر سے کہا کہ وہ آخری میٹنگ خود ہی کر لے۔

وہ کہنے لگی ’’مادام ‘ معذرت چاہتی ہوں‘ میٹنگ میں آپ کی شرکت ضرور ی ہے۔ دراصل ایک بڑی ا ین جی او کی سربراہ سے یہ میٹنگ ہے اور وہ خود آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ ہماری فاؤنڈیشن ان کے منصوبوں کو امداد نہیں دینا چاہتی‘ مگر انہیں یقین ہے کہ آپ سے مل کر وہ اپنی بات منوا لیں گی۔‘‘

میں پہلے بھی اس قسم کی صورتحال سے گزر چکی تھی لہٰذا ناچار آخری میٹنگ میں جانے کی ہامی بھر لی۔جب ہم میٹنگ روم کی طرف بڑھ رہے تھے‘ تو اچانک ایک اہم کال آ گئی۔ میں نے پروگرام ڈائریکٹر سے کہا کہ تم چلو، میں ابھی آتی ہوں۔ پندرہ منٹ بعد میں ہال میں پہنچی‘ تو حیرت زدہ رہ گئی۔ ہوائی اڈے والی دونوں خواتین تین چار بورڈ ڈائریکٹروں کو اپنے منصوبے کی تفصیل بتا رہی تھیں۔

مجھے یہ دیکھ کر بھی حیرانی ہوئی کہ دونوں سادہ لباس میں ملبوس تھیں۔ وہ اس دقیانوسی تصّور کی جیتی جاگتی مثال بنی ہوئی تھیں کہ سماجی رہنما یا کارکن کو کھدر کے کپڑوں میں ملبوس ہونا چاہیے۔ جیسے ہر کسی کو توقع ہوتی ہے کہ آدمی شادیوں میں بہترین لباس زیب تن کرے گا۔ ایک خاتون کھدر کی ساڑھی میں تھی ‘ تو دوسری نے سادہ شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔

جب دونوں خواتین نے مجھے دیکھا تو چونک گئیں۔ کچھ دیر ہال میں خاموشی طاری رہی پھر ساڑھی والی بولنے لگی: ’’کافی کے ہمارے باغات تین گاؤں کے قریب ہیں۔ گاؤں کے سبھی بچے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں۔ کئی بچے ذہین اور باصلاحیت ہیں مگر سرکاری سکول میں انہیں سہولیات میّسر نہیں۔ وہاں تو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ بنچ ہیں نہ غسل خانے اور نہ لائبریری۔ پھر سکول میں بچے تو ہوتے ہیں مگر…

’’استاد نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے جملہ مکمل کیا۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا کر بولی ’’انفوسیس فاؤنڈیشن سے اپیل ہے کہ وہ ہمیں مالی امداد دے تاکہ ہم سکول میں تمام سہولیات مہیا کر سکیں اور بچوں کی تعلیم کا ہرج نہ ہو۔‘‘

میری پروگرام ڈائریکٹر نے کچھ کہنا چاہا تو میں نے اشارے سے اسے خاموش کرا دیا اور اس سے پوچھا ’’اس سکول میں کتنے بچے ہیں؟‘‘

’’تقریباً ڈھائی سو۔‘‘

’’کتنے بچوں کے والدین کافی کے باغات میں کام کرتے ہیں؟ ‘‘

’’سبھی کارکنوں کے بچے ۔ جب میرے والد رکن اسمبلی تھے تو انہوں نے ہی یہ سکول کھلوایا تھا۔‘‘ خاتون فخر سے بولی۔

میں نے کہا ’’ہماری فاؤنڈیشن صرف ایسے بے سہارا انسانوں کی مدد کرتی ہے جن کے سرپرست اور والی وارث نہ ہوں۔ ذرا ان بے گھر افراد کا سوچو جو فٹ پاتھ پر رہتے ہیں۔ یا ان لوگوں کا جو روزانہ محنت کر کے چند پیسے کماتے ہیں۔ جب بھی وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوں تو کوئی ان کی مدد نہیں کرتا۔ ہم ایسے ہی انسانوں اور ان کے بچوں کو امداد دیتے ہیں۔

’’کافی کے باغات میں کام کرتے کارکنوں کے ذریعے آپ کا کاروبار ترقی کرتا ہے۔ بدلے میں آپ کارکنوں کی بھلائی کے منصوبوں پر رقم خرچ کر سکتے ہیں۔بلکہ یہ ایک لحاظ سے آپ کی ذمے داری ہے۔ اس طرح آپ کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مگر ہماری فاؤنڈیشن صرف ایسے منصوبوں کو مالی امداد دیتی ہے جن میں صرف اور صرف بے یارو مددگار انسانوں کو فائدہ پہنچے۔ شاید یہ نظریہ وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو ’’جانور کلاس‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

میری باتیں سن کر دونوں خواتین نے ایک دوسرے کود یکھا۔ وہ تذبذب کا شکار نظر آتی تھیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔

میں نے اپنی پروگرام ڈائریکٹر اور بورڈ ڈائریکٹروں کی طرف دیکھا اور کہا ’’حاضرین‘ میں آپ کو ایک قصّہ سنانا چاہتی ہوں…‘‘

یہ سن کر سبھی کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات ابھر آئے۔ ظاہر ہے‘ ا یک سنجیدہ میٹنگ میں کسی قصے کا کیا کام ؟ پھر بھی وہ ہم تن گوش ہو گئے۔میں نے قصہ سنانا شروع کیا:

’’جارج برنارڈ شا اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے دانشور اور لکھاری تھے۔ ایک دن ایک برطانوی کلب نے ان کے اعزاز میں رات کے کھانے کا اہتمام کیا۔ کلب کے قوانین متقاضی تھے کہ ڈنر میں شریک ہر مرد سوٹ اور ٹائی پہن کر آئے۔ ظاہر ہے تب اس عمل کو اپر کلاس کی علامت اور تشریح سمجھا جاتا تھا۔

مگر برنارڈشا رسوم و رواج کی کب پروا کرتے تھے۔ وہ سادہ سالباس پہنے کلب پہنچ گئے۔ دربان نے انہیں دیکھا اور بڑے نرم لہجے میں بولا’’ معاف کیجے جناب‘ آپ کلب میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’جناب! آپ کلب کے قوانین کے مطابق سوٹ اور ٹائی پہن کر نہیں آئے۔‘‘

’’ارے بھئی‘ آج میرے اعزاز میں کلب میں ڈنر ہے۔ میں نے وہاں تقریر بھی کرنی ہے۔ لہٰذا میرے الفاظ اہم ہیں‘ کپڑا لتا نہیں۔‘‘ برنارڈ شا اطمینان سے بولے۔ ا ن کی دلیل وزنی تھی۔

’’جناب! آپ بے شک کلب کے ناظم ہی بن جائیں۔ میں آپ کو ان کپڑوں میں اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘

برنارڈشا نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے دلائل سے دربان کو رضامند کر لیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ ناچار وہ واپس اپنے گھر چلے گئے۔ انہوںنے سوٹ پہنا‘ نائی لگائی اور کلب پہنچے‘ تو انہیں فوراً اندر جانے کی اجازت مل گئی۔

تب تک کلب کا ہال مہمانوں سے بھرچکا تھا۔ سبھی لوگ اپنے من پسند دانشور کو دیکھنے اور ان کی پُرمغز باتیں سننے کے لیے بے تاب تھے۔ آخر برنارڈشا تقریر کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر کچھ بولنے سے قبل انہوںنے اپنا کوٹ اتارا ‘پھر ٹائی اتاری‘ انہیں کرسی پر رکھا اور اعلان کیا: ’’آج میں کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘

ہال میں پہلے سناٹا چھا گیا‘ پھر سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سبھی شاہ کا غیر معمولی رویّہ دیکھ کر حیران تھے۔ منتظمین تقریب نے دریافت کیا کہ آخر وہ حاضرین کو اپنے خیالات عالیہ سے مستفید نہیں کرنا چاہتے؟

برنارڈشا ہ نے کچھ عرصہ قبل خود پر بیتا سارا واقعہ سنایا اور کہا: ’’جب میں کوٹ اور ٹائی پہن کر آیا تو مجھے کلب میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ میں جیسا مرضی لباس زیب تن کروں‘ اس سے میرا دماغ متاثر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ تمام ارکان و حاضرین کلب کے نزدیک میرا لباس اہم ہے‘ دماغ نہیں۔ اس لیے کرسی پر میرے بجائے کوٹ اور ٹائی براجمان ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر برنارڈ شاہ کلب سے باہر نکل گئے۔

یہ واقعہ سنا کر میں کھڑی ہوئی اور کہا ’’میٹنگ ختم ہوئی۔‘‘ میں نے رسمی طور پر خواتین کو نمستے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔

پروگرام ڈائریکٹر میرے پیچھے چل رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر بعد کہنے لگی ’’مادام‘ آپ نے این جی او کو رقم نہ دینے کا درست فیصلہ کیا۔ مگر آپ نے برنارڈشا کا واقعہ کیوں سنایا؟ پھر یہ جانور کلاس کا کیا معاملہ ہے۔ مجھ کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔‘‘

اس کی کنفیوژن دیکھ کر میں مسکرائی اور کہا ’’تم پریشان نہ ہو۔ میٹنگ میں جو کچھ ہوا‘ اسے جانور کلاس کی ذہنیت رکھنے والے لوگ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘

ایک رول ماڈل
سڑسٹھ سالہ ہر فن مولا خاتون،سدھا مورتی نے 1950ء میں بھارتی ریاست کرناٹک کے قصبے، شیگاؤں میں جنم لیا۔ والد ڈاکٹر تھے جنہوں نے بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ سدھا نے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بی ای کیا اور طلائی تمغہ پایا۔ وہ پھر ٹاٹا انجینئرنگ کمپنی سے منسلک ہوگئیں۔ دوران ملازمت کمپیوٹر سائنس میں ایم ای کیا اور پھر طلائی تمغہ پایا۔

ٹاٹا کمپنی کے ایک ملازم، نارائن مورتی سے انہیں عشق ہوگیا اور دونوں بیاہ کے رشتے میں بندھ گئے۔ 1981ء میں نارائن نے ایک دوست کے ساتھ مل کر انفوسیس کی بنیاد رکھی جسے آگے چل کر بھارت ہی نہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس کنسلٹنگ کی بین الاقوامی ملٹی نیشنل کارپوریشن بننا تھا۔

1985ء میں سدھا مورتی نے ٹاٹا کمپنی کو خیرباد کہہ دیا تاکہ شوہر کا ہاتھ بٹاسکیں۔ بتاتی ہیں ’’ملازمت چھوڑتے وقت رتن جی ٹاٹا نے مجھے نصیحت کی، بیٹا پیسے کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ وہ ایک سے دوسرے ہاتھ میں آتا جاتا رہتا ہے۔ اگر تم کامیاب ہوجاؤ تو اپنے پیسے کو معاشرے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنا کیونکہ اسی نے تمہیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا۔‘‘

1996ء میںسدھا مورتی کی کوششوں سے انفوسیس نے ایک سماجی تنظیم، انفوسیس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ سدھا تب سے تنظیم کی سربراہ چلی آرہی ہیں۔ اس تنظیم نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں کئی یتیم خانے قائم کیے۔ کرناٹک کے سکولوں کو ہزارہا کمپیوٹر دیئے اور وہاں لائبریریاں قائم کیں۔ غریبوں کو مالی امداد بھی دی جاتی ہے۔

سدھا مورتی فلمیں دیکھنے کی شوقین ہیں۔ کہتی ہیں، اگر میں انجینئرنگ کی طرف نہ آتی، تو فلمی صحافی ہوتی۔ مستند ادیبہ بھی ہیں۔ کنٹر اور انگریزی زبان میں افسانے، ناول اور آپ بیتی کی کئی کتابیں شائع ہوچکیں۔

ایک دانش ور ہونے اور بلند خیالات رکھنے کی وجہ سے سدھا مورتی بھارتی معاشرے میں خاص طور پر خواتین کے لیے رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرچکیں۔ اس کی بنیادی وجہ سدھا کی سادگی و انکسار ہے۔ وہ ارب پتی ہیں مگر ان کے رویّے اور رکھ رکھاؤ سے قطعاً یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ انتہائی امیر خاتون ہیں۔ سدھا کے نزدیک ایک انسان کی بڑائی کا معیار یہ ہے کہ اسے کتنی عزت و احترام ملتا ہے۔ وہ دولت کو معیار قرار نہیں دیتیں۔

سدھا مورتی کی سعی ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لے آئیں۔ وہ ایک استاد بھی رہی ہیں۔ اسی لیے تعلیمی اداروں اور محفلوں میں جاکر لیکچر دیتی ہیں تاکہ لوگ فرسودہ رسوم و رواج اور نظریات سے چھٹکارا پاسکیں۔ ایک من موہنی مسکراہٹ سدھا کے ہونٹوں پر ہمہ وقت مچلتی رہتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر رنگ سے لطف اندوز ہونے کا گر سیکھ چکیں، اسی لیے کہتی ہیں ’’ہر دن میر ے لیے چھٹی جیسا ہے۔‘‘

سدھا کو شاپنگ کرنا پسند نہیں، کبھی بازار جانا ہو، تو وہ کتابیں خریدنا پسند کرتی ہیں۔ مطالعے کی ازحد شوقین ہیں۔ کہتی ہیں، میں روزانہ ایک سو سے دو سو صفحے پڑھ لیتی ہوں۔ رات کو نو بجے سو جاتی ہیں تاکہ صبح چار بجے اٹھ کر لکھ سکیں۔ لکھنا ان کے نزدیک کتھارسس جیسا ہے۔

سدھا ہر کسی کو کہتی ہیں ’’سادہ زندگی گزارو اور اپنے ضمیر کی آواز سنو۔ انسان کی اصل خوبصورتی سادگی اور خود اعتمادی میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا اپنی زندگی بسر کیجیے، دوسروں کی نہیں۔ مجھے نارائن اسی لیے پسند آئے کہ وہ سادہ مزاج تھے۔ ہمیشہ سچ بولتے، انہوں نے کبھی میری ظاہری خوبصورتی کی تعریف نہیںکی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ میں ایک اچھی انسان ہوں۔‘‘

اس بھارتی رول ماڈل کا مزید کہنا ہے ’’میں سمجھتی ہوں کہ ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے (انڈرسٹینڈنگ) مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ سکول میں عموماً لڑکیاں لڑکوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں، لیکن عملی زندگی میں لڑکی کو خاندان سے مدد ملے، تو وہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دے گی۔ مگر میں خواتین کو مشورہ دیتی ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو چودہ سال کا ہونے تک پورا وقت دیں۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ میں سخت ماں نہیں تھی اور نہ ہی میں نے بچوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کلاس میں اول آئیں۔ مگر میں نے اپنا سارا وقت انہی پر صرف کیا۔

حال ہی میں سدھا کی نئی انگریزی کتاب”Three Thousand Stitches: Ordinary People, Extraordinary Lives”  طبع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے دس سچے واقعات کہانی کے روپ میں بیان کیے ہیں۔ آپ کے زیر مطالعہ ’’پیسہ اسٹیٹس سمبل نہیں رہا‘‘ کا واقعہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے سدھا کہتی ہیں:

’’ہمارے معاشرے میں لوگ ظاہری حلیے،دولت و ثروت اور انگریزی بولنے کی صلاحیت کی بنیاد پر بہت جلد فیصلے کرلیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس خرابی نے اقدار کے زوال سے جنم لیا یا یہ نو آبادیاتی دور کی نشانی ہے۔ مگر اس خرابی نے ہمارے معاشرے کو منافق ضرور بنا دیا ۔ مثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ سماجی کارکن مخصوص لباس زیب تن کرے، صنعت کار کا طرز زندگی مخصوص ہو۔ یہ سوچ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

جب مجھے چپل ماری گئی
سدھا مورتی نے اپنی حالیہ کتاب Three Thousand Stitches: Ordinary People, Extraordinary Lives میں ایک اور سبق آموز واقعہ قلمبند کیا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:

جب ہم نے 1996ء میں انفوسیس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، تو بدقسمتی سے مجھے سماجی کام کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ میں سافٹ ویئر، مینجمنٹ، الیکٹریکل انجینئرنگ کے بارے میں تو بہت کچھ جانتی تھی مگر سماج کی سیوا کرنے کے انداز سے ناواقف تھی۔ بہرحال ہماری سماجی تنظیم کا شعار یہ تھا کہ وہ ذات پات، رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تقسیم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تمام بے آسرا انسانوںکی مدد کرے گی۔

ہمارے سامنے مختلف مسائل تھے… غربت، جہالت، بیماری، اسکولوں اور ہسپتالوں کی کمی، ادویہ کی عدم فراہمی وغیرہ، لیکن میں سب سے پہلے دیوداسی کی لعنت سے نمٹنا چاہتی تھی۔ یہ لعنت پورے سے بھارت میں پھیلی ہوئی ہے۔ سنسکرت میں دیوداسی کے لفظی معنی ہیں: دیو (بھگوان) کی غلام۔

قدیم زمانے میں دیوداسیاں ناچنے گانے والی پیشہ وار خواتین تھیں جو مندوروں میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے فن کا مظاہرہ کرتیں۔ معاشرے میں ان کا بلند مقام تھا۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکیاں دیوداسیاں کہلانے لگیں جو کسی نہ کسی وجہ سے تاعمر مندروں میں کام کاج پر مامور رہتیں۔ پنڈت پھر ان سے جسم فروشی بھی کرانے لگے۔یوں وہ معاشرے کا مظلوم طبقہ بن گئیں۔ اب میں ان دیوداسیوں کو معاشرے میں باعزت مقام دلوانا چاہتی تھی۔

میں ایک دن ضلع بیلگم (کرناٹک) میں واقع رینو کا مندر جاپہنچی۔ وہاں میں نے ایک تھڑے پر سبز ساڑھیوں میں ملبوس کئی دیوداسیوں کو بیٹھے دیکھا۔ ماتھے پر بندیا لگی تھی اور وہ پان کھاتے باتیں کرنے میں محو تھی۔ میں ان کے پاس جاتے ہوئے کچھ ہچکچائی۔ تب مجھے اندازہ نہ تھا کہ میں نے اپنی زندگی کے ایک نہایت مشکل کام کا بیڑا اٹھالیا ہے۔

آخر ہمت کرکے میں ان کے پاس پہنچی اور ایک دیواسی سے کہا ’’نمسکار! میں آپ کی مدد کرنے آئی ہوں۔ آپ مجھے اپنے مسائل بتائیے، میں انھیں حل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘

دیوداسی نے پہلے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ میں ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی۔ سر پر انگریزی کیپ دھری تھی۔ دیوداسیاں یقیناً کسی اہم موضوع پر باتیں کررہی تھیں۔ انہیں میری دخل اندازی پسند نہیں آئی۔ دیوداسی ترش لہجے میں بولی ’’اے تو کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ کیا تو وزیر ہے جو ہمارے مسائل حل کرتی پھر تی ہے۔ چل نکل یہاں سے۔‘‘

میں اپنی جگہ کھڑی رہی اور اصرار کیا ’’میں آپ لوگوں کی مدد کرنے آئی ہوں۔میری بات غور سے سنو۔ایڈز نامی بیماری پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔تم لوگ اس کا شکار بن سکتی ہو۔اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اور …‘‘

دوسری عورت بات کاٹ کر بولی’’اری کیا اول فول بک رہی ہے۔جا دفع ہو۔‘‘

میں نے دیوداسیوں کو نظر بھر کر دیکھا، وہ طیش میں دکھائی دیتی تھیں۔مجھے کچھ خوف محسوس ہوا مگر اپنی جگہ جمی رہی۔سوچا کہ کھول کر بیان کرنے سے وہ میری بات سمجھ جائیں گی۔

ابھی میں نے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک دیوداسی اٹھی،اپنی چپل اتاری اور مجھے دے ماری۔اگر میں فوراً دائیں طرف نہ ہوتی تو چپل میرے منہ پر لگ جاتی۔وہ دھاڑ کر بولی’’تجھے کنڑ سمجھ نہیں آتی۔دفع ہو جا ورنہ چپل سے مار مار کر تیرا تھوبڑا لال کر دوں گی۔‘‘

میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی ذلت و خواری محسوس نہیں کی تھی۔میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

٭٭

اس توہین آمیز واقعے کے بعد سدھا مورتی چند دن بعد پھر رینو کا مندر پہنچ گئیں۔وہاں انھوں نے دیوداسیوں کے ایک اور گروہ سے بات چیت کرنا چاہی مگر وہ بھی غصے میں آ گئیں۔اس بار سدھا کو ٹماٹر مارے گئے اور ایک بار پھر انھیں اپنی عزت بچا کر فرار ہونا پڑا۔وہ ان واقعات کے بعد ہمت ہار بیٹھیں مگر ان کے جہاں دیدہ اور تجرے کار والد نے بیٹی کا حوصلہ بڑھایا۔چناں چہ سدھا مورتی تیسری بار رینو کا مندر پہنچیں تو اس دفعہ انھیں کامیابی مل گئی۔یوں دیوداسیوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے کا آغاز ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔