المیے اور حقائق

وارث رضا  پير 25 فروری 2013
Warza10@hotmail.com

[email protected]

جب صبح پرستوں کے سر قلم کیے جائیں تو ہاتھ قلم کیے جانے کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے،اب خالد علیگ اس قماش اور سماج کے کہاں قائل تھے جو سماج سر قلم کیے جانے پر اپنی کمر کس لے،سو انھوں نے ہاتھ قلم کیے جانے کے نوحے ہی کو سماج کی شکست و ریخت جانا۔چراغ ہوٹل ایسے تھڑے نما ہوٹل پر زندگی کو سمجھنے والا بھلا کیسے انسانی حیات کے ضایع ہونے کو تسلیم کرے گا،سو خالد علیگ نے سماج کی بد ترین شکل ہاتھ

اور علم قلم کرنے کو ہی جانااور لکھ بیٹھے کہ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

مگر انھیں کس طرح بتایا جائے کہ اب اس سماج کے رنگ اور طور تبدیل ہو چکے ہیں۔کم و بیش پانچ برس تک شیروشکر رہنے والے اب دوبارہ سے سندھ کے عوام کے حقوق کا نیا چولا پہنے علم کے نام پر احتجاج اور تند و تیز بیانات پر اتر آئے ہیں،سندھ کے شہری اور دیہی مستقبل کو گہن کرنے والے اب یونیورسٹی قائم کرنے اور نہ کرنے پر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کا وہ سلسلہ شروع کر رہے ہیں جو آخر کار دوبارہ ماضی کے اتحادیوں کو سندھ کے اقتدار مسند پر بٹھانے کا شاخسانہ ہے، دونوں کے مابین طے شدہ اسکرپٹ پر خوب تندہی سے عمل کیا جا رہا ہے۔یاد رکھا جائے کہ انتخابات کے قریب ہی ان کے درمیان ایسا رن پڑنے جا رہا ہے کہ جس سے ووٹر کی نفسیات اور شعور کو دریدہ کیا جائے گا اور بعد کو نہ قاتل ملے گا اور نہ مقتول اور نہ ہی اسکول کالج اور یونیورسٹی ۔ جس شہر میںفٹ پاتھوں پر چلنے کے عوامی حقوق کو غصب کیا جا چکا ہو تو وہاں بھلا تعلیمی حق ملنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟

اب تو سیاست کا ایسا چلن ہو گیا ہے کہ عوام کو مقدس بیوقوف سمجھ کر ان کی عقلوں پر اہل سیاست قہقہے لگاتے نہیں تھکتے۔ اہل سیاست نے عوام کے حقوق کی راگنی میں لسانی اور مذہبی تڑکے اور سواد کی ایسی عادت ڈال دی ہے کہ عام فرد انسانی خون کے بہے بغیر کسی بیان یا خبر کو لائق توجہ ہی نہیں گردانتا۔عوام کوکہیں حق پرستی کے طوق نے جکڑ رکھا ہے تو کہیں تبدیلی اور انقلاب کے پر فریب نعرے اس کا پیچھا کرتے نہیں تھکتے۔عوام ہیں کہ حقوق کی جنگ میں چاروںشانے چت اپنی چتاؤں کے جلنے کی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ لاشوں کی سیاست کا ایسا چلن چلایا گیا ہے کہ کراچی کو بارود کی بھٹی میں جھونکنے والے ہی حق پرستی کی مسند پر براجمان کر دیے گئے ہیں۔تاریخ کے المیے اور حقائق سے بھلا کیسے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ کیا اس تاریخی حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کے مروجہ احتجاج اور ریلیوں کے طریقوں کو ختم کرنے کے لیے آمر ضیاء کے مربیوں نے ملک کے شہروں میں ان بونے افراد کے گروہوں کی ترویج کی جو نہ سیاسی تھے اور نہ ہی وہ اب تک سیاست کی ابجد سے واقف ہیں۔

یہ حقیقت کس طرح فراموش کی جا سکتی ہے کہ شہروں میں جمہوری احتجاج کو روکنے اور آمرانہ تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے سندھ اور پنجاب میں لسانی زہر افشاں بیج ڈالا گیا ۔کہیں جاگ پنجابی جاگ کے نعرے پر شگاف ہوئے تو کہیں نام نہاد مہاجر حقوق کی پرستش کرنے والوں نے آمر ضیاء کے اقتدار کو دوام بخشا اور جب آمر ضیاء کے اقتدار کی بھوک مزید بڑھی تو اس نے مذہبی جماعتوں کو مذہبی بقا کے نام پر جہادیوںکی فوج ظفر موج بنانے کے لیے مدارس کو دہشت گردوںکی آماجگاہ کے طور پر استعمال کیا ۔ یہ کیسا طور ہے کہ منافقت کی سیاست کے گورکھ دھندے پورے پانچ برس اپنے اتحادیوں کے ساتھ عوام کے خون اور پیٹ کی ہولی کھیلتے رہے ۔ اور آج ایک دوسرے کے دست وگریباں چاک کرنے پر تلے ہیں۔

عوام سندھ کے دو اتحادیوں کی علیحدگی یا اختلاف کو کیونکر قبول نہیں کر رہی ۔اس سوال کی گتھی کو حل کرنے کی پرواہ کیے بغیر جمہوریت کی راگنی الاپنے اور حق پرستی کے گن گانے والے اقتدار کی بندر بانٹ میں ایسے جتے ہوئے ہیں کہ انھیں اپنے اختلاف کی وضاحت کے انداز بھی سمجھ نہیں آرہے۔کہیں یونیورسٹی کھولنے اور نہ کھولنے میں دونوں سیاسی فریق عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بے سودکوشش میں مگن ہیں تو کہیںالزام تراشی کے گھوڑے کو بے لگام کر کے عوام کے حقوق پر سرپٹ دوڑنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ یہ طے ہے کہ عوام کو جمہوری حقوق کے لولی پوپ میں گرفتار رکھا جائے اور چل سو چل کی طرح اقتدار کی منزلیں طے کی جائیں۔ عوام حیران و پریشان ہیںکہ چھ ماہ سے درخواست دینے والے حزب اختلاف کے رہنما کے نام پر ہائی کورٹ کے واضح احکامات پر بھی سندھ کے اسپیکر جنبش میں نہ آئے۔ مگر یکدم سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی زبان آج کل حق پرستی کے گن گاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتی کہ سندھ کی اصل اپوزیشن ان کے ماضی کی ساتھی ہیں۔

واہ زمانے تیرے رنگ اور مفاہمت کے طریقے۔ تاریخ بھلا یہ کیونکر بھول سکتی ہے کہ آمروں کے سائے میں پناہ لینے والے کبھی بھی عوام کو ان کے جمہوری حقوق نہ دلا سکے۔تاریخ تو یہ بھی یاد رکھے ہوئے ہے کہ سماج کو جمہوری حقوق دلانے کے نعرے جرمنی کے ہٹلر نے بھی لگائے تھے۔حق پرستی اور قوم کو اعلی نسل بنانے کی تعلیم تو ہٹلر بھی دے رہا تھا۔مگر ہٹلر کے انجام کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ وہ طرز معاشرت کیسے اپنائی جا سکتی ہے جس کی ذہنیت مسولینی اور ہٹلر کے افکار پر رکھی جائے۔ وہ وقت بھی ذہن کے دریچوں میں پیوست ہے ۔جب آمر مشرف نے جمہوریت پسند عوام کے حقوق پر رات کی تاریکی میں ڈاکہ ڈالا اور اس کی تاریک راہوں کی ہمراہی ایک جماعت کی قیادت ٹھہری ۔

ہم کیسے بھولیں کہ آمر مشرف کے استحصال کی اینٹوں کو گارا فراہم کرنے میں اس کے حامیوں نے دہشت گردی کی تغاریاں اٹھائیں۔ہم سے تو وہ منظر بھی محو نہیں ہوتے جب انصاف کے حصول کی جدوجہد میں منصف کے خلاف کوشش میں سندھ کے ایک وزیر آمر مشرف کی نمک خواری میں دلیلیں دے کر انصاف اور عدل کا راستہ روکنے میں تن من دھن لگا رہے تھے۔آمر مشرف کا زعم اقتدار میں لہراتا ہوا وہ مکا کیسے بھلایا جا سکتا ہے جسے لہراتے ہوئے مشرف کہہ رہے تھے کہ میرے مخالفین کراچی میں اپنا حشر دیکھ لیں ۔ یہ کیسا عجوبہ ہے کہ آمرانہ اقتدار کے رہرو جمہوریت کی راگنی میں جاگیرداروں کے پانچ برس اتحادی رہ کر بھی عوام کو بے وقوف جان کر، پھر سے جمہوری راگیوں کے اتحادی بن کر دہشت اور وحشت کے راج کو تقویت پہنچانے کے درپے ہیں،اور دوبارہ لسانیت کے فروغ کے رستے کو اپنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

عوام جانتے ہیں کہ عوام کے منہ سے ایک وقت کا نوالہ نوچنے والے صدر کی نامزدگی بھی انھی لوگوں نے کی اور ان کے جاگیردارانہ وقار کو بھی محترم رکھنے میںانھی کی قیادت فرش راہ رہی۔ اس شہر بے اماں کے مستقبل کا حقیقی سیاسی وارث کون ہوگا؟یہ بات طے ہے کہ وحدت کا دم بھرنے والوں کی ڈوریں بھی کسی نہ کسی طرح اسی مقام سے ہلائی جارہی ہیں،جہاں سے تیس برس قبل ہلائی گئی تھیں۔اس درمیان یہ طے ہے کہ عوام گولیوں کی گھن گرج میں اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے رہیں اور حق پرستی کے بے فیض حوض سے اپنے مقدر پر کالک مل کر بے علم رہیں، وگرنہ یہ یاد رہے کہ سیاسی شعور کے بغیر حالات کی تبدیلی ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔