بچوں کی بے رُخی سے ہر روز مرتے ہوئے والدین

عارف رمضان جتوئی  ہفتہ 7 اکتوبر 2017
اگر آج آپ کو اپنے والدین 50 سال کی عمر میں برے لگنے لگے ہیں تو کل آپ بھی اپنے بچوں کو 25 سال میں برے لگنے لگیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر آج آپ کو اپنے والدین 50 سال کی عمر میں برے لگنے لگے ہیں تو کل آپ بھی اپنے بچوں کو 25 سال میں برے لگنے لگیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پنجاب کے علاقے حویلی لکھا میں ایک عجیب اور ہولناک واقعہ پیش آیا: ایک باپ نے خود کو استرے کے وار سے لہولہان کردیا جس کے بعد انہیں تشویشناک حالت میں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔ پولیس تک یہ بات پہنچی تو تفتیش پر قابلِ احترام باپ نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے بیمار ہے اور بیٹے اس کا علاج نہیں کروا رہے!

جب اس خبر پر نگاہ گئی تو گویا دل تھم سا گیا، جی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اولاد بھی اپنے باپ کے ساتھ یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ بچے ایسا کیونکر کرسکتے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ وہی محترم ہستی ہے جس نے دن دیکھا نہ رات، اپنے بچوں کےلیے اپنا آرام و سکون تج دیا۔ اگر رات گئے کوئی بچہ بیمار ہوا تو رات کی تاریکی میں بھی اسے شفاخانے لیے پھرتا رہا… مجھے تو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔

اتنے میں خبر کا اگلا جزو پڑھا۔ پولیس نے جواں سال بچوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بزرگ کا ذہنی توازن درست نہیں اور وہ کچھ بھی کر لیتے ہیں۔ بات تو معقول تھی… میرے ذہن کے پردے پر جیسے کوئی فلم چلنے لگی اور بیتے واقعات اس خبر کو پڑھتے پڑھتے یاد آنے لگے۔

ایک بزرگ سٹھیائے ہوئے لگ رہے تھے۔ ان کی عمر ساٹھ سال بھی نہیں لگ رہی تھی، پھر بھی سٹھیائے ہوئے تھے۔ خاصی دیر انہیں خاموش بیٹھا دیکھ کر میں نے پوچھ ہی لیا، ’’باباجی کیا بات ہے؟ بہت گہری سوچ میں گم ہیں۔‘‘

بزرگ نے میری طرف دیکھا اور کچھ اردواور اپنی مقامی زبان کی آمیزش سے کہا، ’’بچہ کھوگیا ہے۔‘‘

’’اوہ! کب، کیسے، کہاں، کیا عمر تھی بچے کی؟‘‘ میرے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔

انہوں نے مجھے دیکھا اور بولے، ’’30 سال عمر تھی۔‘‘

’’تیس سال کا بچہ! کیا مطلب اگر تیس سال کا تھا تو پھر بچہ تو نہیں ہوا ناں؟‘‘ میں نے حیرانگی سے کہا۔

وہ کہنے لگے ’’بیٹا اولاد والدین کےلیے بڑھاپے تک بچوں کی طرح ہی ہوتی ہے،‘‘ اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ میں اب بھی حیران تھا کہ اتنی محبت کرنے والے مشفق والد کے بیٹے یہ سب کیسے کرسکتے ہیں۔ تب ہی مجھے ایک میسج موصول ہوا۔ لکھا تھا:

’’آج دفتر میں کام بہت تھا۔ میں تھکا ہوا گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا۔ ابو فوراً کمرے میں آئے اور انتہائی شفقت سے حال احوال پوچھا اور میں نے تھکاوٹ کے باعث بے دلی سے جواب دیا۔ وہ زیر لب دعا دیتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد بیگم کمرے میں آئیں تو میں نے کہا کہ بچے کہاں ہیں؟ بہت تھکا ہوا ہوں اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھوں گا تو تھکاوٹ اتر جائے گی۔

’’بیگم فوراً صحن میں کھیلتے میرے ننھے منے بچوں کو لے آئیں جو آتے ہی مجھ سے لپٹ گئے۔ میں بھی ان کو دیکھ کر ساری تھکاوٹ بھول گیا اور ان پر شفقت پدری نچھاور کرنے لگا۔ لیکن چند لمحوں بعد ہی والد محترم کا جھریوں بھرا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا کہ وہ بھی شفقت پدری سے مجبور ہوکر اپنے بیٹے کو دیکھنے آئے تھے، اپنی اولاد کو دیکھنے اور اپنی شفقت پدری نچھاور کرنےکے لیے بے قرار تھے۔ مگر میری بے رخی کے باعث وہ بیٹھ نہ سکے۔ اتنا سوچتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ سینے میں دم گھٹتا محسوس ہونے لگا۔ بچوں کو چھوڑا اور دوڑتا ہوا والد محترم کے کمرے میں جا پہنچا جو اپنی چارپائی پر لیٹے نجانے کن سوچوں میں گم چھت کو دیکھے جارہے تھے۔ میں ان کی چارپائی پر ان کے قدموں میں جا بیٹھا اور ان کی ٹانگیں دبانے لگا۔ ابو فوراً اٹھے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ نجانے کیوں ہم باپ بیٹا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایسی راحت مجھے کبھی نہ ملی جو باپ کے سینے سے چمٹ کر ملی۔‘‘

میں اب بھی یہ بات ماننے کےلیے تیار نہیں تھا کہ اتنے محبت بھرے باپ کے بچوں نے کیسے تین ماہ سے انہیں بیمار دیکھ کر انہیں دوا تک نہیں دی۔ کچھ روز بعد معلوم ہوا کہ والد اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور اولاد نے انہیں دفنا دیا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ بیٹے کی بیوی اپنی ماں سے کہہ رہی تھی ’’خدا خدا کرکے بڈھا اپنی موت آپ ہی مرگیا،‘‘ یہ الفاظ میں سن نہیں پایا تھا۔ میری سوچ جواب دے گئی تھی۔ بچوں کی بے رخی کی یہ انتہا دیکھ کر نجانے والدین کتنی بار روز مرتے ہوں گے۔

ایک معروف واقعہ یاد آگیا کہ ایک صاحب موبائل ریپیئرنگ والے کے پاس آئے اور کہا کہ بیٹا ذرا اسے دیکھنا، لگتا ہے خراب ہوگیا ہے۔ کاریگر نے دیکھ کر بتایا کہ بابا جی! یہ بالکل ٹھیک ہے۔ بابا نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا ’’پھر میرے بچوں کا فون کیوں نہیں آتا؟‘‘

میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ خدارا اپنے والدین کی عزت کیجیے۔ اگر نہیں ہوسکتی تو کم از کم اتنا کرلیجیے کہ انہیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ آپ ان کے وجود کو اپنے لیے شفقت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔ آپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ آپ کی ہلکی سی بے رخی سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ میں نے اکثر بڑے بزرگوں کو بہت خاموش دیکھا ہے۔ کئی بار سوچا کہ پوچھوںِ، اور جب کبھی ہمت کرکے پوچھ لیا تو سوائے چھلکتے آنسوؤں کے کچھ وصول نہیں ہوا۔

دادی کیوں روتی ہیں؟ بولیں بیٹا بہت دل چاہتا تھا ہے کہ بچے ہمارے ساتھ بیٹھیں اور باتیں کریں۔ مگر اس افراتفری کے دور میں کسی کے پاس ہمارے لیے وقت ہی نہیں۔ ہم بات کرتی ہیں تو اکثر اوقات کہا جاتا ہے ’’سر کھاتی ہیں!‘‘ ان کا وقت خراب کرتی ہوں تو بہتر ہے خاموش ہی رہوں۔

ہائیں! وقت نہیں ہے۔ کن کے پاس وقت نہیں ہے؟ وہ جو اجنبیوں کو اپنا کہہ کر پوری رات فون پر بات کرتے ہیں؟ یا وہ جنہیں سوشل میڈیا کی بے تکی اور فضول ویب سائٹس پر چیٹنگ کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں… ان کے پاس وقت نہیں؟

’’بیٹا تمہیں نہیں معلوم، آج کے بچے بہت پڑھے لکھے ہوگئے ہیں۔ کمپیوٹر چلالیتے ہیں میرے پوتے،‘‘ دادی اماں نے خوش ہوتے ہوئے کہا اور میں پردہ فاش ہونے کے ڈر سے خاموش رہا۔ میں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر کہا کہ واقعی بچے بہت مصروف ہیں کیوں کہ وہ ساری رات انٹرنیٹ پر پڑھائی کرتے ہیں۔

نجانے کیوں ایسا لگتا کہ والدین جب جب تکلیف میں آہ بھرتے ہیں، تب تب ہمیں کوئی غیب سے کہتا ہے کہ تم ناکام ہوگئے ہو۔ نجانے کیوں احساس ہوتا ہے کہ جب جب وہ ہمیں آواز دے کر پھر ہماری راہ تکتے رہ جاتے ہیں، تب تب کوئی ہمیں لعنت ملامت کرتا ہے۔ نئے عہد کی  بیوی کے ماڈرن بچے اور پھر ان کے ساتھ رہنے والے شوہر اور باپ نما بیٹے کو نہیں معلوم کہ جدت بڑھتی جارہی ہے۔ ہر گزرتا دن ہماری بے حسی میں اضافہ کررہا ہے۔ بچوں کو اتنا ماڈرن  نہ کیجیے کہ جب آپ کی باری آئے تو مصروفیت، جدیدیت اور مادہ پرستی آسمان کو چھورہی ہو۔

آج آپ کو اپنے والدین 50 سال کی عمر میں برے لگنے لگے ہیں تو کل آپ اپنے بچوں کو 25 سال میں برے لگنے لگیں گے۔ ذرا سوچ کر جواب دیجیے کہ آخری بار اپنے والدین کے ساتھ کچھ پل صرف اولاد بن کر کب بِتائے تھے؟ کچھ لمحوں کو انہیں یہ احساس دلایا تھا کہ آپ ان کی اولاد ہیں، آپ ان کے بچے ہیں یا پھر بچوں کے بچے ہیں۔ اگر زیادہ وقت ہوگیا ہے تو اٹھیے اور ابھی ان سے مل لیجیے۔ ان سے معافی مانگیے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیجیے۔

یاد رکھیے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل کا دوسرا نام ہے۔ آج جو کریں گے، کل آپ کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔ ذرا سوچیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عارف رمضان جتوئی

عارف رمضان جتوئی

بلاگر ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں اور گزشتہ سات برسوں سے کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی سے تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔