ارے ہم سے کیا ڈرنا

عتیق احمد عزمی  اتوار 8 اکتوبر 2017
بظاہر خطرناک نظر آنے والے جانور، جو درحقیقت بالکل بے ضرر ہیں ۔ فوٹو: فائل

بظاہر خطرناک نظر آنے والے جانور، جو درحقیقت بالکل بے ضرر ہیں ۔ فوٹو: فائل

ہمارے اردگرد ایسے بہت سے جانور اور حشرات ہیں جن کے بارے میں ہمیں بچپن ہی سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان سے دور رہا جائے بل کہ موقع ملے تو انہیں مار دیا جائے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ان مبینہ خطرناک جان داروں میں سے بیش تر بے ضرر اور معصوم ہیں۔ محض ان کا انداز اور خدوخال انہیں خطرناک ظاہر کرتا ہے، جب کہ فطرتاً یہ امن پسند جان دار ہوتے ہیں۔ آئیے! کچھ ایسے ہی بے ضرر اور معصوم جانوروں اور حشرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں جو دیکھنے میں خطرناک لگتے ہیں۔

گھڑیال
Gharial
مگرمچھ کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور بھی انسانوں کے لیے بے ضرر شمار کیا جاتا ہے۔ گھڑیال دیکھنے میں مکمل طور پر مگرمچھ ہوتا ہے، تاہم اس کی لمبی تھوتھنی اسے خوں خوار مگرمچھوں سے علیحدہ کرتی ہے۔ اگرچہ اس تھوتھنی میں موجود جبڑے میں ایک سو دس نوکیلے دانت ہوتے ہیں لیکن چوں کہ یہ تھوتھنی پتلی اور نالی نما ہوتی ہے لہٰذا گھڑیال کسی بڑے جانور یا انسان کو نہیں کھا سکتا۔ چناں چہ اس کی خوراک عموماً چھوٹی مچھلیاں، مینڈک اور آبی کیڑے وغیرہ ہوتے ہیں۔ دراصل ایک بالغ گھڑیال کی تھوتھنی کے سرے پر اوپری جانب ایک چھوٹا سا گول ابھار ہوتا ہے، جو دیکھنے میں بظاہر مٹی کا مٹکا یا گھڑا نظر آتا ہے۔

اسی مماثلت کے باعث برصغیر میں اسے گھڑیال کہا جانے لگا اور یہی نام انگریزی زبان میں بھی استعمال ہورہا ہے۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل گھڑیال برصغیر کے تمام دریائی نظاموں میں ہزاروں کی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے موجودہ وقت میں گھڑیالوں کی تعداد سیکڑوں میں رہ گئی ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ گھڑیال کی کھال اور اس کے اعضاء کا روایتی دوائیوں میں استعمال ہے جس کے حصول کے لیے گھڑیال کا بے تحاشا شکار کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم نے گھڑیال کو انتہائی خطرناک حد تک معدومیت کا شکار ہونے والے جانوروں کے زمرے میں رکھا ہے۔

دودھ والا سانپ
Milk Snake
انسانی فطرت میں سانپوں سے خوف کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور چوں کہ سرخ اور سیاہ دھاری والا ’’ملک سانپ‘‘ دیکھنے میں انتہائی زہریلے ’’کورل سانپ‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے، لہٰذا اسے دیکھتے ہی مارنے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے، جب کہ دونوں کی فطرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ملک یا دودھ والا سانپ بالکل بے ضرر ہوتا ہے اور کسی بھی صورت میں انسان پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ سانپ کی اس قسم کا نام دودھ والا سانپ رکھنے کی وجہ وہ خیالی توجیہ ہے جس کے مطابق یہ سانپ گائے کے تھنوں سے دودھ پینے پر قادر ہے۔

تاہم اس بات میں بالکل صداقت نہیں ہے۔ دراصل یہ سانپ ٹھنڈک اور اندھیرے کی تلاش میں مویشیوں کے باڑوں اور خوراک کے لیے اناج کے گوداموں کے اطراف میں زیادہ پایا جاتا ہے اور ان جگہوں پر پائے جانے کے باعث مقامی افراد نے ا س کا نام ’’ملک سانپ‘‘ رکھ دیا ہے۔ کینیڈا سے لے کر امریکا، وینزویلا اور ایکواڈور میں پائے جانے والے ملک سانپ کو ان ممالک کے باشندے دوست سانپ سمجھتے ہیں، کیوں کہ ملک سانپ فصلوں کو نقصان پہچانے والے رینگنے والے جانوروں بالخصوص چوہوں کا سخت دشمن ہے۔

گدھ
Vultures
مُردار کھا کر زندہ رہنے والا گدھ بھی ناپسندیدہ پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خمیدہ نوک دار چونچ، وسیع پر، چُھری کی مانند تیرزدھار پنجے اور تیز بینائی رکھنے والا یہ پرندہ منحوسیت اور یاسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلند پہاڑوں، گھاٹیوں اور ویرانوں میں سکونت رکھنے والا یہ پرندہ پرندوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جو انتہائی پُرامن اور اپنے کام سے کام رکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔

پرندوں کی عادات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کے قریب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، مگر آپ نہ صرف اس کے قریب جاسکتے ہیں بل کہ موقع ملے تو بہ آسانی اس کو چپت بھی لگا سکتے ہیں، گِدھ کی جانب سے قطعی جارحانہ ردعمل نہیں آئے گا۔ حالاں کہ یہ ایک بہترین شکاری پرندہ سمجھا جاتا ہے، لیکن چوں کہ گدھ مُردار خور پرندہ ہے، لہٰذا یہ عموماً کم زور اور لاغر جانوروں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے اور دَم توڑتے جانوروں کے بیرونی اعضاء کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء جیسے جگر، آنتیں، دل وغیرہ بھی کھا جاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انسانوں کو گِدھوں سے کراہیت آتی ہے۔ صفائی کرنے والے پرندے کی عرفیت سے بھی معروف اس پرندے کی قوت شامہ غضب کی ہوتی ہے اور یہ بلندی پر دورانِ پرواز مُردار کی بو سونگھ کر اسے چٹ کرنے کے لیے زمین پر غول کی شکل میں اترتے ہیں۔ تاہم جنگلات اور ویرانوں کی کم یابی کے باعث گِدھ کی نسل بھی بہت تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔

باسکنگ شارک
Basking sharks
شارک کا نام سنتے ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ وہیل مچھلی کے بعد دوسری سب سے بڑی سمندری مخلوق باسکنگ شارک ہے جو بیس سے چھبیس فٹ کی لمبائی میں پائی جاتی ہے۔ باسکنگ شارک اپنی چوڑے منہ اور جبڑے کے باعث انتہائی خطرناک دکھائی دیتی ہے لیکن وہ لوگ جنہیں باسکنگ شارک سے واسطہ پڑا ہے وہ اسے ایک پُرامن مچھلی قرار دیتے ہیں، جو کسی پر بھی حملہ آور نہیں ہوتی بل کہ ان کے ساتھ موج مستی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی دیگر بھائی بند گوشت خور شارک مچھلیوں کے برعکس باسکنگ شارک کی خوراک سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے حشرات اور نباتات ہوتے ہیں جنہیں ’’پلینک ٹون‘‘ کہا جاتا ہے۔

باکسنگ شارک کی جلد بھوری مائل سرمئی رنگت پر مشتمل ہوتی ہے، جس پر اسی رنگت کے دھبے ہوتے ہیں جب کہ مضبوط دُم اور توازن قائم رکھنے والے ہلالی انداز کے پَر یا بازو بھی باسکنگ شارک کو اس نوع کی دوسری مچھلیوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ اکثر و بیشتر سطح پر نظر آنی والی باسکنگ شارک تقریباً دنیا کے تمام گرم پانیوں پر مشتمل سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ تاہم اسے تین ہزار فٹ نیچے گہرے سمندر میں بھی دیکھا گیا ہے۔

بھاری جسامت کے باوجود بعض مواقع پر سطح سمندر سے مکمل باہر نکل کر ڈبکی لگانے والی باسکنگ شارک کو ماہرین نے ایک سست مچھلی قرار دیا ہے، جو کشتی یا چھوٹے بحری جہازوں کو دیکھ کر بھی اپنا رخ نہیں بدلتی۔ بدقسمتی سے اپنی اسی سستی یا کاہلی کے باعث یہ بہ آسانی شکار ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف اس کے گوشت، پر اور جسم میں موجود وسیع جگر اور اس میں موجود مخصوص تیل کی بھی بہت طلب ہے، جس کے باعث باسکنگ شارک کا ماضی میں بے تحاشا شکار کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج باسکنگ شارک بھی تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

جسیم افریقی ہزار پا
Giant African millipede
ایک فٹ سے زاید طوالت والے اس ہزار پا کو دیکھتے ہی کراہیت کا احساس ہوتا ہے اور ہر کوئی اس سے ڈرتا ہے۔ تقریباً چار انچ موٹائی والے اس ہزار پا کی دوسو تریپن ٹانگیں ہوتی ہیں اور جس وقت یہ چلتا ہے تو ان ٹانگوں کی حرکت دیکھنے والے کو مہبوت کرکے رکھ دیتی ہے۔

واضح رہے کہ اگر کوئی ہزارپا کو تنگ کرتا ہے تو یہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے جسم کو سخت کرلیتا ہے اور اپنی ٹانگیں جسم کے گرد لپیٹ کر گولائی میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن حملہ آور کے خلاف کسی جارحانہ ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ مشرقی افریقہ کے ممالک کینیا اور موزمبیق سے تعلق رکھنے والے اس جسیم افریقی ہزارپا کو ان ممالک میں بطور پالتو حشرات کے بھی پالا جاتا ہے۔

خونی چمگادڑیں
Vampire bats
ہر ڈراؤنی کہانی یا ڈرامے کے اہم ترین ڈراؤنے منظر میں اچانک نمودار ہونے والی چمگادڑیں لازمی ہوتی ہیں۔ یہ خون آشام چمگادڑیں اندھیرے غاروں، گھاٹیوں یا درختوں کے کھوکھلے تنوں میں الٹی لٹکی رات کا انتظار کررہی ہوتی ہیں کہ جیسے ہی رات ہو تو خون پینے جا نکلیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ خون پینے والی چمگادڑیں ضرور ہوتی ہیں، لیکن یہ صرف اپنی غذا کے حصول کے لیے مویشیوں اور پرندوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور انسانوں کے خون سے شاذونادر ہی شغل کرتی ہیں، بل کہ انسانوں کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں، کیوں کہ بہرحال یہ چمگادڑیں انسان دوست نہیں ہوتیں۔

واضح رہے خونی یا ویمپائر چمگادڑیں چمگادڑوں کی ایک ایسی قسم ہے جس کا زیادہ وقت انسانوں سے دور بیابانوں میں گزرتا ہے خوف و دہشت کی علامت بنا کر پیش کی جانے والی ویمپائر چمگادڑوں کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں پائی جانے والی مختلف النوع چمگادڑوں میں ویمپائر چمگادڑیں وہ واحد قسم ہے جو اپنی نسل کی بقا کا بھرپور احساس رکھتی ہے اور اگر کوئی چمگادڑ مرجائے یا کسی اور مسئلے کا شکار ہوجائے تو دوسری چمگادڑ اس کے بچے کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔

جالوت مکڑی
Goliath birdeater
جالوت مکڑی اپنے حجم اور جسامت کے باعث دنیا کی سب سے بڑی مکڑی کا اعزاز رکھتی ہے جس کی تقریباً گیارہ انچ تک پھیلاؤ رکھنے والی ٹانگیں ہوتی ہیں اور جسم کی لمبائی پانچ انچ پر محیط ہوتی ہے۔ پورے جسم پر ریشہ دار بال ہوتے ہیں۔ جنوبی امریکا کے بارانی جنگلات میں یہ بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ عام طور پر اتنی بڑی مکڑی دیکھتے ہی اس سے خوف آنا فطری امر ہے۔ تاہم یہ انسانوں کے لیے بالکل بے ضرر ہے اور اگر کسی انسان کو کاٹ بھی لے تو برائے نام تکلیف ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ اسے انگریزی میں ’’برڈ ایٹر‘‘ یا پرندہ خور کہا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ پرندے نہیں کھاتی۔ تاہم اٹھارھویں صدی کی ہاتھ سے بنائی گئی ایک تصویر میں جالوت مکڑی کو ایک چھوٹا سا پرندہ ہمنگ برڈ کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جب سے اس مکڑی کا نام ’’پرندہ خور مکڑی‘‘ پڑ گیا ہے جب کہ مکڑیوں میں سب سے بڑے قدوقامت کا ہونے کے باعث اسے جالوت سے نسبت دی گئی ہے (جالوت حضرت داؤد علیہ سلام کے دور کا ایک لحیم شحیم بادشاہ تھا) دل چسپ بات یہ کہ بظاہر خوف و دہشت کی علامت سمجھی جانے والی جالوت مکڑی کو جنوبی امریکا میں بھون کر شوق سے کھایا جاتا ہے اور اسے دنیا بھر میں کیڑے مکوڑے پالنے کے شوقین حضرات بطور پالتو کیڑے کے بھی اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔

منتا رے مچھلی
Manta ray
منفرد شکل وصورت والی مچھلی منتارے کا تعلق شارک مچھلی کے خاندان سے ہے۔ اپنی وسیع جسامت کے باعث عام طور پر لوگ اس کے قریب جانے سے کتراتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک بالغ منتارے مچھلی کے پروں کا پھیلاؤ تیس سے پچیس فٹ تک ہوتا ہے، جو چادر کی طرح پھیلا ہوتا ہے اور چوں کہ ہسپانوی اور پرتگالی زبان میں ’’منتا‘‘ کے معنی چادر کے ہیں، لہٰذا اسی نسبت سے یہاں کے ماہی گیروں نے اس مچھلی کا نام منتارے مچھلی رکھ دیا ہے۔ منتارے مچھلی کے منہ کے آگے دو سینگ نما نوکیں نکلی ہوتی ہیں، جیسے جن بھوت کی تصوراتی تصاویر میں ہوتی ہیں۔ ان سینگوں کی وجہ سے اس مچھلی کو ’’ڈیول فش‘‘ یا شیطان مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔

تاہم اپنی وسیع اور پُرہول جسامت کے باوجود منتارے مچھلی انسان دوست مچھلی میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کی خوراک بھی باسکنگ شارک کی مانند سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے حشرات اور نباتات ہوتے ہیں، جنہیں ’’پلینک ٹون‘‘ کہا جاتا ہے۔ تکونی ہیئت والی منتارے مچھلی کی ایک اور قسم ’’اسٹنگ رے‘‘ ہے جو سامنے آنے والی ہر شے کو ڈنک مارتی ہے۔

تاہم منتارے مچھلی میں ڈنک نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی پر حملہ آور ہوتی ہے، لیکن اسٹنگ رے سے مماثلت کے باعث شوقیہ غوطہ خور منتارے مچھلی کے نہ صرف قریب جانے سے ڈرتے ہیں بل کہ موقع ملتے ہی اسے نقصان پہچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جس کے باعث منتارے مچھلی بھی اب کھلے سمندروں میں خال خال نظر آتی ہے۔ تاہم جزائر بہاماس، فجی، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ہوائی، مغربی آسٹریلیا اور مالدیپ وغیرہ میں سیاحتی نقطہ نظر سے منتارے مچھلیوں کی افزائش اور دیکھ بھال پر کافی توجہ دی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں زیرآب غوطہ خوری کے شوقین افراد منتارے مچھلیوں سے خوب موج مستی کرتے نظر آتے ہیں۔

آئی آئی
Aye-aye
بحرہند میں واقع مڈغاسکر کے جزائر میں پایا جانے والا یہ لنگور دیکھنے میں خطرناک نظر آتا ہے۔ لنگوروں کی مختصر جسامت والی نسل لیمور سے تعلق رکھنے والا یہ جانور بلا کا پھرتیلا اور شاطر ہوتا ہے، مگر خوں خوار نہیں ہے۔

چوں کہ آئی آئی کی زرد رنگت کی آنکھیں بڑی بڑی اور پھٹی ہوئی ہوتی ہیں، لہٰذا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سخت غصے میں ہے یا حملہ آور ہوا چاہتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح آئی آئی کی ہاتھ کی درمیانی انگلی تمام انگلیوں سے بڑی ہوتی ہے اور سخت نوک دار ناخن پر مشتمل ہوتی ہے، مگر آئی آئی اس انگلی سے کسی کو نقصان پہچانے کے بجائے درختوں کے تنوں میں سوراخ کرکے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔

نوکیلے دانت رکھنے والے آئی آئی کی جسامت عموماً تین فٹ سے زاید ہوتی ہے اور حیرت انگیز طور پر آئی آئی کی دُم اس کی جسم سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ آئی آئی کے حوالے سے ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف رات کو کیڑے مکوڑے شکار کرتا ہے اور دن بھر درختوں کی شاخوں پر سوتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے مقامی لوگ آئی آئی کے بارے میں یہ منفی رائے رکھتے ہیں کہ جس شخص کو یہ جانور نظر آتا ہے اور وہ اسے نہ مارے تو اس شخص کی جلد ہی موت واقع ہوجاتی ہے۔ حتی کہ وہ اس کا نام بھی نہیں لیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کے مقامی باشندوں نے اس جانور کا نام مالاغاسی زبان میں آئی آئی رکھا ہے۔ جس کے معنی ’’مجھے نہیں معلوم‘‘ کہ ہیں۔ اس غلط اور منفی سوچ کے باعث آئی آئی کی نسل تیزی سے ناپید ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم نے آئی آئی کو خطرناک حد تک معدومیت کا شکار ہونے والے جانوروں کے زمرے میں شامل کر رکھا ہے۔

جسیم مکڑی
Giant arachnids
اس بڑی جسامت والی مکڑی کو کیمل مکڑی اور اسکارپین مکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ جائنٹ آراچنڈس کے انگریزی نام سے منسوب اس مکڑی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ انسانوں سے لے کر اونٹ تک کو کھا جاتی ہے۔

یہ محض ایک مفروضہ ہے بل کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے ریگستانوں میں اس مکڑی کی وجہ سے بہت سے زہریلے حشرات بھاگ جاتے ہیں، کیوں کہ صحرائی حشرات اس مکڑی کا پسندیدہ کھانا ہیں یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں تعینات امریکی فوجی جائنٹ آراچنڈس کی موجودگی کو اپنے لیے نعمت سمجھتے ہیں۔ چھے انچ کی جسامت والی یہ مکڑی دس میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ ماہرین حشرات کے نزدیک یہ مکڑی کے بجائے حشرات کے علیحدہ خاندان ’’سولی فیوجے‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم ظاہری شکل و صورت میں مکڑی سے مماثلت کے باعث اسے مکڑی ہی سمجھا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔