سماجی میڈیا یا منشیات فروشوں کا گڑھ بن گیا

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 8 اکتوبر 2017
ڈانس پارٹیوں کی آڑ میں طلبا و طالبات کو ’’آئس‘‘ جیسے مہلک نشے کا عادی بنانے کا مکروہ دھندا۔ فوٹو: فائل

ڈانس پارٹیوں کی آڑ میں طلبا و طالبات کو ’’آئس‘‘ جیسے مہلک نشے کا عادی بنانے کا مکروہ دھندا۔ فوٹو: فائل

یہ ستمبر کی ایک خوش گوار صبح تھی، کراچی کی پوش علاقے درخشاں میں قائم پولیس اسٹیشن میں ایک خاتون نے کسی بڑے پولیس افسر سے ملنے کی درخواست کی۔ کچھ دیر بعد وہ خاتون ایس ایچ او درخشاں اورنگزیب خٹک کے سامنے بیٹھی تھیں۔ باوقار اور پڑھی لکھی خاتون نے دو تین بار کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر رہیں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ اگر وہ اس کمرے سے باہر نکل جاتی تو بہت بدنامی ہوتی۔ ایس ایچ او نے انہیں یقین دلایا کہ یہ بات صرف ان دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ہچکچاتے ہوئے کچھ کہا، خاتون کے منہ سے نکلنے والے لفظوں نے اورنگزیب خٹک کو حیرت سے گنگ کردیا۔

خاتون کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ انہیں اضطراب میں مبتلا کر رہا تھا۔ انہوں نے خاتون کو تسلی دیتے ہوئے رخصت کیا اور اپنے ایک قابل اعتماد ساتھی کو بلا کر تمام تر صورت حال سے آگاہ کیا۔ علاقہ پولیس کے پاس اس حوالے سے خبریں تو تھیں، لیکن اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا، انہوں نے خاتون کی بتائی ہوئی کچھ مبہم سی معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا ( فیس بک) پر مختلف تقریبات کے حوالے سے کی جانے والی پوسٹس کی نگرانی شروع کردی، کچھ دن بعد ہی ان کا رابطہ ایک ڈانس پارٹی کے منتظم سے ہوگیا۔

مخبر نے کمال ہوشیاری سے ملزمان کے فون نمبر حاصل کرکے ان سے دوستی کی، سادہ لباس پولیس اہل کاروں نے دو تین ڈانس پارٹیوں میں شرکت کی، منشیات خریدی۔ ایک پارٹی کے اختتام پر پولیس کے انفارمر نے ’’آئس‘‘ کی بڑی مقدار خریدنے کا کہا جو اس سپلائر کے پاس نہیں تھی۔ سپلائر کے کے لیے یہ خریدار ’قابل اعتماد‘ اور تگڑا گاہک تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر چل پڑا اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس پارٹی نے چار ملزمان رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے ایک کلو چرس اور 50گرام آئس (کرسٹل میتھ ) برآمد کرلی، جب کہ چار ملزمان ی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ملزمان کے طریقۂ واردات کے بارے میں ایس ایچ او اورنگزیب خٹک کا کہنا ہے کہ ’ملز مان لڑکوںکو لڑکی اور لڑکیوں کو لڑکوں کی آئی ڈی سے فیس بک پر پہلے فرینڈ ریکویسٹ بھیجتے تھے، اس کے بعد آپ کی پوسٹس پر لائیک کرکے، کمنٹس کرکے آپ سے دوستی بڑھاتے اور جب شکار بری طرح پھنس جاتا تو اسے کبھی ڈانس پارٹی میں تو کبھی پول پارٹی میں شرکت کی دعوت دیتے۔ اس طرح کی تقریبات میں ایک دو دفعہ مفت میں پلاتے، میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ آئس (کرسٹل میتھ) ایسا نشہ ہے کہ اس کی ایک خوراک ہی انسان کو عادی بنادیتی ہے۔ گرفتار ملزمان احسن، طلحہ، یاسین، تبسم فیس بک پر بننے والے دوستوں کو پہلے مفت میں منشیات ’’آئس‘‘ پلاتے تھے اور جب وہ عادی ہوجاتے تو پھر یہی منشیات انہیں منہگے داموں فروخت کرتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کی بیٹی بھی اسی طرح آئس کی لت میں مبتلا ہوچکی تھی۔ یہ گروہ7 ماہ سے سوشل میڈیا پر منشیات کی فروخت کررہا تھا۔ ملزمان اب تک شہر کو پوش علاقوں میں 200 سے زائد ڈانس پارٹیاں کرواچکے ہیں۔ ان پارٹیوں میں آنے والے پرانے گاہکوں کو اعلیٰ کوالٹی کی آئس، چرس، کوکین فروخت کی جاتی تھی جب کہ نئے لڑکے یا لڑکی کو مفت میں پلائی جاتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں کو اپنے طور پر مانیٹر کر رہے ہیں اور اس میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہیں۔

٭محدود وسائل، سائبر کرائم بے بس!
سوشل میڈیا پر ہونے والے غیرقانونی سرگرمیوں کے حوالے سے ایف آئی سائبر کرائم کے ایک عہدے دار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک ہم نے بہت سے کیسز پر کارروائیاں کی ہیں، بہت سے مجرموں کو عدالتوں سے سزائیں بھی ملیں ہیں، لیکن ہمارے پاس آنے والی زیادہ تر شکایات خواتین کو ہراساں کرنے اور فراڈ کی ہیں۔ جہاں تک بات ہے منشیات فروخت کرنے کی تو یہ بات ہمارے علم میں ہے اور اکثر ہم ایسے اکاؤنٹس کو بند بھی کردیتے ہیں۔ ایک بات اور بتادوں کہ وسائل محدود ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس ایسی تیکنیک نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم ہر اکاؤنٹس پر ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کرسکیں۔ اور نہ ہی ہمارا فیس بک، ٹوئٹر یا گوگل سے معلومات کے تبادلے کا کوئی تحریری معاہدہ ہے۔

ہم شکایت ملنے پر کیس بناکر فیس بک یا گوگل کو بھیج دیتے ہیں اور اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس اکاؤنٹ سے متعلق معلومات ہمیں دیں یا نہ دیں، متعلقہ اکاؤنٹ بلاک کریں یا نہ کریں۔ اگر وہ ہماری درخواست پر کوئی کارروائی کرلیں تو یہ ان کی مہربانی ہے ورنہ وہ اس کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ ادارے ہمارے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کو موثر قانون سازی اور آلات کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر منشیات کی فروخت، بلیک میلنگ کرنے والے زیادہ تر مجرم موبائل ڈیٹا (موبائل انٹرنیٹ) استعمال کرتے ہیں اور جب ہم آئی پی ایڈریس کے ذریعے ان تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ آئی پی تو دو سو موبائل نمبرز کے استعمال میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل کمپنیاں شیئر آئی پی استعمال کرتی ہیں۔ عملی طور پر دو سو موبائل کو چیک کرنا ناممکن تو نہیں لیکن اتنا آسان کام بھی نہیں ہے۔ موبائل کمپنیاں ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کرتی ہیں، لیکن اس مسئلے کے سامنے وہ بھی بے بس ہیں، کیوں کہ ہر صارف کو الگ آئی پی ایڈریس فراہم کرنا تیکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔

٭کرسٹل میتھ کیا ہے؟
کرسٹل میتھ ( کرسٹل میتھم فیٹامائن) بہت ہی طاقت ور اور اثر پذیر نشہ ہے، جس کی ایک خوراک ہی انسان کو اس کا عادی بنا دیتی ہے۔ شفاف چینی کے دانوں کے شکل میں ملنے والے اس نشے کو ’آئس ‘ یا ’گلاس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بیش قیمت ہونے کی وجہ سے ہائی کلاس پارٹیوں میں آئس کا استعمال اسٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آئس کو عموماً ایک چھوٹے شیشے کے پائپ کی مدد سے اسموک کیا جاتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ اسے نگل کر، سونگھ کر یا سرنج کے ذریعے نس میں داخل کرکے سُرور حاصل کرتے ہیں۔ کرسٹل میتھ نیا نشہ نہیں ہے، تاہم حالیہ چند برسوں میں اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

1887میں جرمنی میں ایمپیتھا مائن کے نام سے اسے بنایا گیا اور 1919تک جرمنی اور جاپان میں یہ نشہ لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لت میں مبتلا کر چکا تھا۔ استعمال کے فوراً بعد انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تازہ دم کرنے کی صلاحیت کی بنا پر اُس وقت لوگ اسے نشے کے بجائے ایک راحت بخش دوا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ابتدا میں اسے حل پذیر پاؤڈر کی شکل میں بنایا گیا تھا، جسے پانی میں حل کرکے انجکشن کی شکل میں استعمال کیا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں فریقین نے فوجیوں کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر اس کا استعمال کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی خود کش ہوابازوں (کامی کاز) کو مشن پر بھیجنے سے قبل کرسٹل میتھ کی بھاری مقدار دی جاتی تھی۔ جاپان میں آئس کا استعمال صرف فوج تک محدود تھا۔ جنگ کے بعد یہ کرسٹل میتھ کا ذخیرہ جاپانی عوام کے ہاتھ لگ گیا۔

1950میں دنیا کے بیشتر ممالک میں کرسٹل میتھم فیٹامائن کو یاسیت (ڈپریشن) کے خلاف ایک موثر غذا (ڈائیٹ) کے طور پر تجویز کیا جانے لگا۔ ذہنی کارکردگی میں وقتی طور پر بہت زیادہ اضافہ کرنے اور آسانی سے دست یاب ہونے کی وجہ کالج یونیورسٹی کے طلبا، کھلاڑی اور ٹرک ڈرائیورز میں اس کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا جانے لگا۔

کئی دہائی بعد اس کے مہلک نتائج سامنے آنے پر امریکی حکومت نے اسے غیرقانونی قرار دے کر اس کی پیداوار اور فروخت پر پابندی لگادی۔ تاہم میکسیکو اور امریکا کے بڑے منشیات فروش گروپوں نے اسے بنانے کے لیے بڑی بڑی لیباریٹریاں قائم کیں اور اس کے بعد یہ نشہ امریکا اور یورپ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ کرسٹل آئس اب پاکستان، تھائی لینڈ، میانمار اور چین میں بڑی مقدار میں تیار بھی کی جا رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسی ہزار لوگ دنیا کے خطرناک ترین نشے کرسٹل میتھ کی لت میں مبتلا ہیں جن میں اکثریت نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات اور نوجوانوں کی ہے۔

عبیداللہ عابد/ اسلام آباد
اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشوں کا دھندا، کئی برس پرانا قصہ ہے، لیکن یہ معاملہ ساڑھے تین برس قبل اُس وقت اچھلا جب اینٹی نارکاٹکس فورس نے جڑواں شہروں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو نشے کا عادی بنانے والے نیٹ ورک کے 15 کارندوں کو گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کیں۔ ایک عرصے سے فورس کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو نشے کا عادی بنانے اور ان سے منشیات کی اسمگلنگ کرانے کی شکایات موصول ہو رہی تھیں، جس پر کارروائی کرتے ہوئے ایک نجی کوریئر کمپنی کے ذریعے طالب علموں کو منشیات اسمگل کرنے والے نیٹ ورک کے 15 کارندوں کو گرفتار کرکے ملزمان کے قبضے سے 39 کلو گرام ہیروئن بھی برآمد کرلی۔

ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں میٹرک سے لے کر انٹر اور گریجویشن تک کے طلبہ و طالبات کو منشیات فراہم کرتے تھے، پہلے طالب علموں کو نشے کا عادی بنایا جاتا تھا اور پھر انھیں بلیک میل کرکے نشہ آور اشیاء بیچنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہ معاملہ اچھلا ضرور لیکن بدقسمتی سے یہ خبر بھونچال پیدا نہ کرسکی اور معاملات پر مٹی ڈال دی گئی۔ اس کے بعد اسی حوالے سے چھوٹی موٹی خبریں منظرعام پر آتی رہیں لیکن حکومتی اداروں میں کہیں تشویش نظر نہ ہوئی۔

پھر دو برس گزرے اور اکتوبر2016 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی آن انٹیریئر اینڈ نارکوٹیکس کنٹرول نے ایک رپورٹ پر بحث مباحثہ کیا، جس کے مطابق اسلام آباد میں پرائیویٹ اسکولوں کے44 فی صد سے لے کر 53 فی صد طلباء تک مختلف قسم کی منشیات کے عادی ہوچکے ہیں، جی ہاں! اسکولوں کے طلبہ جو دولت مند خاندانوں کے بچے ہیں۔ اس رپورٹ کا مزید خطرناک پہلو یہ تھا کہ طلبہ کو منشیات کلاس فیلوز اور اساتذہ کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رپورٹ ایک این جی او ’ساؤتھ ایشین اسٹریٹیجک اسٹیبلیٹی انسٹی ٹیوٹ‘ نے جاری کی تھی جس کی سربراہ ڈاکٹرماریہ سلطان اس اجلاس میں خصوصی طورپر شریک تھیں۔

رپورٹ کے مطابق طلبہ منشیات کا استعمال اسکول اوقات کے دوران کرتے ہیں، بعض طلبہ تو ہیروئن بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کی عمریں 12سے16 سال ہیں، بعض طلبہ کی عمر اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ بعض اسکولوں کی کنٹینز پر بھی منشیات فروخت کی جاتی ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں شاہی سید، چوھدری تنویرخان، شبلی فراز، مختاراحمد دھامرا، محمد صالح شاہ اور طلحہ محمود سمیت وزارت داخلہ اور نارکوٹکس کنٹرول، اینٹی نارکوٹکس فورس اور اسلام آباد پولیس کے حکام نے شرکت کی۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جن تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی نشان دہی کی گئی، ان کے مالکان اور منشیات سپلائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ کمیٹی کے اجلاس میں بھی تجویز دی گئی کہ تمام سرکاری اور نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کے ڈرگ ٹیسٹ کو بھی یقینی بنایا جائے، سال میں دو بار متعلقہ تعلیمی ادارہ طلباء کے ڈرگ ٹیسٹ کرائے۔ اے این ایف کی موبائل ٹیمیں ان ٹیسٹوں کو چیک کریں۔

کمیٹی کے چئیرمین رحمان ملک نے سینیٹر مختار احمد دھامرا اور چوہدری تنویر کو ٹاسک دیا کہ وہ نارکوٹکس کے وفاقی اور صوبائی ڈویژن کے ساتھ مل کر انسداد منشیات کی تجاویز مرتب کریں، تمام ٹیلی ویژن چینلز اپنی نشریات کا 0.5 فی صد منشیات کے سدباب کے لیے وقف کریں۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ بھارت اور افغانستان منشیات کے پھیلاؤ میں ملوث ہیں۔ اے این ایف نے کمیٹی کو بتایا کہ اسکولوں میں منشیات کے استعمال پر کوئی سرکاری اعداد وشمار موجود نہیں ہیں کیوںکہ آج تک اس پر کوئی سروے نہیں ہوا۔

اس کے بعد رپورٹس آئیں کہ اسلام آباد کی معروف یونیورسٹیاں اور کالجز بھی منشیات کے اڈے بن چکے ہیں۔ جنوری2017 ء میں اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی، اقرا یونیورسٹی، نسٹ، کامسیٹس اور رْوٹس اسکول میں منشیات پہنچانے والے گروہ کے سرغنہ وحید علی کو پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑلیا، ساتھ ہی ساتھ مختلف کارروائیوں کے دوران دیگر متعدد افراد کو بھی گرفتار کیا گیا، ان میں منشیات بیچنے والے اور استعمال کرنے والے بھی شامل تھے۔ ان سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق مذکورہ بالا بڑے تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کو دو سے تین ہزار روپے میں امپورٹڈ منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ملزم وحید علی نے انکشاف کیاکہ اسلام آباد کی یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے طلباء اس سے امپورٹڈ منشیات ویڈ، ایل ایس ڈی اسٹرپس، لاٹرز خریدتے تھے۔ ملزم کو جس وقت گرفتار کیا گیا اس سے ڈیڑھ لاکھ روپے سے زاید مالیت کی پُڑیاں (منشیات) بھی برآمد ہوئیں۔

اینٹی نارکوٹکس فورس کے مطابق خریدار طلباء کو ویڈ کا ایک ٹوکن 3300 روپے جب کہ ایک بلاٹر 2000 روپے میں دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف منشیات استعمال کرنے والے بعض طلبہ نے اعتراف کیا کہ وہ طویل عرصہ سے منشیات استعمال کر رہے ہیں، انہیں یونیورسٹی ہی میں شراب اور چرس بہ آسانی مہیا کردی جاتی ہے۔ ان کے بیانات کے مطابق وہ منشیات سے دور جانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسے دوستوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جو ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ منشیات استعمال کرنے والوں میں بعض اساتذہ بھی شامل ہیں۔

تعلیمی اداروں میں یہ منشیات کس طرح پہنچتی ہیں؟ طلبہ وطالبات اور گرفتار ملزموں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق منشیات کی فراہمی میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے گارڈز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک کارروائی میں ایک یونیورسٹی کے گارڈ کو منشیات فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اس سے منشیات برآمد بھی ہوئیں اور اُسے ملازمت سے بھی برطرف بھی کردیا گیا لیکن محض ایک ہفتے کے بعد وہ گارڈ دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دھندے کے پیچھے کس قدر زیادہ اثر و رسوخ کے حامل لوگ کھڑے ہیں۔

تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے ٹیکسی چلانے والے بھی یہ کام کرتے ہیں جب کہ تعلیمی اداروں کے قریب موجود ہوٹل میں کام کرنے والے اور اردگرد موجود جنرل اسٹور بھی اس گندے دھندے میں ملوث ہیں۔ پولیس حکام ہمیشہ اس بات سے انکاری رہے ہیں کہ کسی بھی اسکول کے اندر منشیات سپلائی ہوتی ہے یا اسکولز کے باہر موجود احاطے میں بھی کھلے عام منشیات کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے قریب موجود کچی آبادیوں میں موجود لوگ طلباء کو اسکول کے باہر منشیات کی سپلائی کرتے ہیں۔ پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹیٹیوشن ریگیولیٹری اتھارٹی (پیرا) کا بھی کچھ ایسا ہی موقف رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان تو صاف انکاری ہوجاتے ہیں کہ ان کے ہاں کوئی چھاپا پڑا نہ ہی کوئی پکڑا گیا۔

اے این ایف نے جن ملزمان کو گرفتار کیا، پولیس نے ان کے خلاف ایسے کم زور چالان تیار کیے کہ وہ عدالتوں میں پیش ہوتے ہی ضمانتوں پر رہا ہوگئے یا پھر انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں ’’محفوظ‘‘ کردیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس عدالتی اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتی جب کہ طلباء، خواتین اور بچوں پر بنائے گئے مقدمات میں عدالتیں جسمانی ریمانڈ کی بجائے جوڈیشنل ریمانڈ کو ترجیح دیتی ہے، جس کی وجہ سے تفتیش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اے این ایف کی کارروائیوں کے بعد منشیات فروشوں نے منشیات بیچنے کا اپنے دھندے کا طریقہ تبدیل کرلیا۔ اب وہ منشیات کے عادی طلبہ کو گاڑی پر تعلیمی ادارے کے باہر سے اٹھاتے ہیں اور راستے ہی میں منشیات یا انجکشن فراہم کردیتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد کے دیگر سیکٹرز کے ساتھ سیکٹر ایچ ایٹ میں بھی منشیات کی فروخت کا کام زوروں پر ہے۔

اب وفاقی دارالحکومت میں چرس اور شراب کے علاوہ آئس اور کلب ڈرگز کا استعمال بھی عام ہوچکاہے۔ آئس، ایکسٹیسی پلز اور آکسیجن شارٹ سمیت پارٹی ڈرگز کہلانے والے یہ نشے منہگے ہونے کے سبب اسلام آباد کے پوش علاقوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ پہلے پہل مختلف پارٹیوں میں یہ نشہ استعمال ہوتے تھے لیکن اب خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات بھی اس کے اسیر ہوچکے ہیں۔ آئس3500 سے 4000 روپے میں مل جاتی ہے، ایک گرام آئس 20 سے 25 لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ کلب ڈرگز بیرون ملک سے آتی ہیں۔ اقراء یونیورسٹی سے گرفتار ہونے والے ایک طالب علم کے مطابق اس نے ہالینڈ کے نجی دورے کے دوران 350گولیاں خریدیں تاکہ انھیں اقراء یونیورسٹی میں فروخت کرسکے۔

اپریل2017ء میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں مختلف کارروائیوں کے دوران میں متعدد افراد گرفتار بھی ہوئے (ان میں ایف ایس سی کے طلبا بھی شامل تھے)، ان کے اعترافات سے بھی معلوم ہوا کہ ان سے برآمد ہونے والی آئس ہیروئن کی گولیاں ہالینڈ اور ڈنمارک سے آئی تھی، ایک گولی کی قیمت تقریباً 3500 روپے ہے۔ مختلف کیمیکلز سے تیار ہونے والے آئس نامی نشے کا رحجان خصوصی طور پر طالبات اور جسم فروش خواتین میں زیادہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ نشہ اب بعض پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز کے ہاسٹلوں میں بھی پہنچ چکا ہے جہاں اس کے استعمال کرنے والوں میں طالبات بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کو منشیات فروشی سے پاک رکھنے کے لیے اب تک کوششیں کیا رہی ہیں؟ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت اور استعمال روکنے کے لیے جاری وفاقی پولیس کی زیرنگرانی آپریشن کلین اپ کے تحت درجنوں ملزمان کی گرفتار ہوئے، مثلاً صرف 12فروری 2017ء کو مختلف کارروائیوں میں51 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں مختلف یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والے10طلباء بھی تھے۔ ان کے قبضے سے 40973 شراب کی بوتلیں، 300 لیٹر کھلی شراب،1415گرام حشیش امپورٹڈ، 415گرام ہیروئن، 350گولیاں قبضہ میں لی گئیں۔

بڑی تعداد میں گرفتاریوں کے باوجود پولیس کسی بڑے مگرمچھ پر ہاتھ نہ ڈال سکی۔ ایک عمومی عوامی تاثر یہ ہے کہ اس گندے دھندے کے پیچھے ایسے بڑے نام ہیں جن کی طرف نظر اٹھانے کی پولیس میں ہمت نہیں۔ وہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور پولیس کو استعمال کرتے ہیں، اپنے دھندے میں شامل کرتے ہیں۔ یہ کھیل ایک مدت سے کھیلا جا رہا ہے مگر اس کی طرف کسی کا دھیان اس لیے نہیں جاتا کہ ان تعلیمی اداروں اور پولیس کے ساتھ ایسے افراد کھڑے ہیں جو حکومتی حلقوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو گذشتہ ماہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کیبنٹ سیکریٹریٹ نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا اور ہائر ایجوکیشن، چیف کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹرجنرل اسلام آباد کو منشیات کے انسداد کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف وزیرداخلہ احسن اقبال نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ اسلام آباد میں منشیات کے خلاف بھرپور مہم چلائی جائے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی بند کروائی جائے۔

’ساسی‘ کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ اٹھارہ ’’ماہ کے سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بالعموم اور نجی تعلیمی اداروں کے بچے بالخصوص کسی نا کسی صورت میں منشیات کے عادی ہیں اور اگر بات کی جائے شرح کی تو یہ شرح 43 سے 53 فی صد ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ایسی بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں کہ جن کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس سارے معاملے میں کہیں نہ کہیں ضرور قصور وار ہے۔

سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمان ملک سے پوچھا کہ آپ کی سربراہی میں کمیٹی نے کچھ فیصلے کیے تھے کہ جن تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی نشان دہی کی گئی، ان کے مالکان اور منشیات سپلائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، تمام سرکاری اور نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کے ڈرگ ٹیسٹ کو بھی یقینی بنایا جائے گا، اے این ایف کی موبائل ٹیمیں ان ٹیسٹوں کو چیک کریں گے۔ حکومت نے اس حوالے سے کیا کچھ کیا؟ ان کا کہناتھا:’’این جی اور کے علاوہ حکومتی اداروں کی بھی رپورٹس تھیں کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کا دھندا ہورہا ہے۔ ہم نے قائداعظم یونیورسٹی کو ایک ماڈل کے طور پر لیا، وہاں جو بھی جاتا تھا، اسے آسانی سے منشیات مل جاتی تھیں۔

چناںچہ ہم نے آپریشنز کرائے، بندے پکڑے، بعض اساتذہ بھی پکڑے گئے۔ پھر ہم نے ایسے ہٹ (HUT) ختم کرائے جہاں منشیات فروخت ہوتی تھیں، یونیورسٹی والوں نے دیوار کی تعمیر کا مطالبہ کیا، تاکہ ایسے عناصر کو یونیورسٹی میں داخلہ سے روکا جاسکے، ہم نے یہ تعمیر بھی کرائی۔ اس کے بعد اسلام آباد کے دیگر تعلیمی اداروں میں کارروائیاں ہوئیں۔ نتیجے میں کافی حد تک منشیات فروشی کا سلسلہ کنٹرول ہوا۔ سابق وزیرداخلہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اسلام آباد کے تعلیمی ادارے اس گندے دھندے سے پاک ہوچکے ہیں؟ ان کا کہنا تھا: ’’یہ میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘

ابو عبدالرحمن (لاہور)
دنیا بھر کی طرح وطن عزیز میں بھی ہر سال کبھی ماں، باپ، خواتین تو کبھی استاد کے نام پر ایک دن منایا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان رشتوں کی عزت و احترام صرف ایک ہی دن تک محدود ہے۔ تمام تر اخلاقی گراوٹ، تنزلی، معاشی کم زوریوں اور نفسانفسی کے باوجود ہمارے معاشرے میں آج بھی والدین اور اساتذہ کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے، جو کسی ایک دن کے لیے نہیں بلکہ زندگی کی آخری سانس تک قائم و دائم رہتا ہے۔

لیکن افسوس! منشیات اور اس کے تباہ کن نتائج سے آگاہی کے لیے حکم رانوں اور متعلقہ اداروں نے خود کو صرف ایک مخصوص دن (26 جون) منانے تک محدود کر لیا ہے۔ متعلقہ اداروں کی مسلسل غفلت اور بے پرواہی کا نتیجہ اب یہ ہے کہ وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں بھی منشیات جیسی لعنت بہ آسانی دستیاب ہونے لگی ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت کے گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد چند پیسوں کے لالچ میں ملک کے مستقبل (نوجوان نسل) کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور یہ صورت حال دن بدن خوف ناک ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ملک بھر کی طرح پنجاب کے تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں بھی منشیات کی فراہمی اپنے عروج کو پہنچ گئی، جس کا اظہار صرف ملکی این جی اوز یا ادارے ہی نہیں کر رہے بلکہ اقوام متحدہ (United Nation Office of Drug Control ) کی رپورٹس بھی کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگ کنٹرول کی طرف سے جاری رپورٹ کا تو یہ تک کہنا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال پنجاب میں ہو رہا ہے، لیکن حکم راں اور متعلقہ ادارے صرف والدین کو قصوروار ٹھہرانے میں مصروف ہیں۔

اگرچہ یہ والدین اور اساتذہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کی حرکات و سکنات سے ہر وقت مکمل آگاہی رکھیں کہ ان کا زیادہ وقت کہاں گزرتا ہے، ان کے دوست کون ہیں، پڑھائی میں وہ کتنی دل چسپی لیتے ہیں، ان کی صحت کے معاملات کیسے ہیں، ان کا پہناوا اور گھر سے باہر کا معیار زندگی گھریلو معاشی سطح سے عدم مطابقت تو نہیں رکھتا؟ لیکن کیا حکم راں یا متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں؟ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ڈرگز کے استعمال کے حوالے سے پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن کے ایک سنیئر عہدے دار کا کہنا ہے،’’اس سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی لعنت موجود ہے، جو بلاشبہہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔‘‘

پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور استعمال کے حوالے سے مختلف سروے رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ یہاں 50 فی صد کے لگ بھگ طلباء کسی نہ کسی شکل میں منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے 10 اسکولز اور 2 جامعات کا سروے کیا گیا تو اس سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق 57 فی صد طلباء ڈرگز کا استعمال کر رہے ہیں۔ بات صرف ان این جی اوز کے سرویز تک محدود نہیں، انٹیلی جنس رپورٹس میں بھی اس خطرناک صورت حال سے متعلقہ اداروں کو مطلع کیا جاتا رہا ہے۔ ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے بلکہ اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کی نشان دہی بھی کی گئی ہے، تو ان افراد کے خلاف کارروائی قانون اور اس کے رکھوالے کریں گے یا والدین؟

خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی اداروں (استثنیٰ کے ساتھ) میں طلبہ و طالبات اپنے اداروں کے گراؤنڈز میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر یا ہاسٹلز میں ڈرگز لیتے ہیں۔ ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلباء کو عملہ صفائی یا سیکیوریٹی گارڈز منشیات سپلائی کرتے ہیں۔ تاہم کچھ طلبہ و طالبات باہر سے بھی منشیات خرید کر لاتے ہیں، جو نہ صرف وہ خود استعمال کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو فروخت بھی کرتے ہیں۔ منشیات فروشوں کے کارندے جامعات میں اپنا تعلق استعمال کرکے بچوں کو اس لت میں مبتلا کر رہے ہیں، جس کے لیے انہیں پہلے مفت بعدازاں جب وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو پیسوں کے عوض ڈرگز دی جاتی ہیں۔ عمومی معلومات کے مطابق تعلیمی اداروں میں چرس، ہیروئن، شراب، ہشیش، شیشہ، نشہ آورانجکشن اور گولیوں کی فراہمی کے بڑے ذرائع چوکی دار، نائب قاصد، ڈرائیور، ہاسٹل وارڈن اور طلباء کے گروپس ہیں۔

نشے کی لت میں مبتلا طلباء کے بارے میں جاننے کے لیے جب ہم نے ایک سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا،’’جامعات میں بچے شروع میں ہی خود کو گروپس میں بانٹ لیتے ہیں، پھر یہ گروپس ایک دوسرے کے اتنے قریب آ جاتے ہیں، جہاں گناہ، گناہ ہی نہیں لگتا، لیکن جب انہیں اس چیز کی سمجھ آتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اس حوالے سے یہاں میں ایک واقعہ بتانا چاہوں گا کہ میرے پاس کنسلٹینسی کے لیے ایک بچی آئی جو نفسیاتی مسائل کا شکار تھی، تاہم جب اس نے مجھے تفصیل سے اپنی کہانی سنائی تو میں دنگ رہ گیا۔ یہ بچی لاہور کی ایک بڑی جامعہ میں زیرتعلیم تھی، جب اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو آغاز ہی میں وہ ایک گروپ کا حصہ بن گئی، جس میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں شامل تھیں۔ یہ گروپ یونیورسٹی سے باہر نکل کر ہوٹلنگ کرتا، سیر سپاٹے کرتا، پھر اس گروپ کے ایک لڑکے نے ڈرگز لینی شروع کیں تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارا گروپ اس لت میں مبتلا ہو گیا۔ بعدازاں ڈرگز لینے کا یہ سلسلہ کبھی یونیورسٹی کے اندر تو کبھی باہر جاری رہتا۔ اس برائی میں مبتلا ہونے کے بعد اس گروپ میں شامل تینوں جوڑوں نے خود کو زبانی کلامی شادی کے بندھن میں باندھ لیا اور پھر پورے دو سال وہ یونیورسٹی میں ایسے ہی رہے جیسے میاں بیوی رہتے ہیں۔ تاہم دو سال بعد جب یہ بچی اپنے گھر لوٹی تو والدین نے اس کی شادی کرنا چاہی تو اس نے کہا کہ میری تو شادی ہو چکی ہے، حالاں کہ وہ شادی نہیں بلکہ صرف ایک گناہ تھا، جس کی وجہ نشہ بنا۔‘‘

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسکول، کالج اور بعض معاملات میں یونیورسٹی تک پہنچ جانے والے کئی طلباء خود سے ذہنی بلوغت کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جہاں انہیں وقتی لطف (منشیات کا استعمال) کے دیرپا مضر اثرات کا علم ہو۔ لہٰذا اس سلسلے میں والدین، اساتذہ اور متعلقہ اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرتے ہوئے طلباء کی مدد کرنا ہو گی۔ والدین اور اساتذہ کو جہاں طلباء کی کردار سازی کا فریضہ سرانجام دینا ہے وہاں حکومت اور اس کے اداروں کو نوجوان نسل کی رگوں میں زہر دوڑانے والے ہاتھوں کو کاٹنا ہو گا، منشیات فروشی کے خلاف کریک ڈاؤن جب تک صرف اخبارات کی شہ سرخیوں یا نیوز چینل کے ٹکر(Ticker) کے لیے ہوتا رہے گا، مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

لہذا اداروں کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا، خصوصاً ایسے ادارے جن کی اکلوتی ذمہ داری ہی منشیات کا خاتمہ اور اس کے مضر اثرات سے پاکستانیوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے، جیسے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس ہے، لیکن افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ شاید اس ادارے کا کام ایک سال بعد صرف چند سیمینارز کروانا یا دیگر اداروں کی مدد سے پکڑی گئی نپی تلی منشیات کو آگ لگانا ہے۔ اینٹی نارکوٹس فورس کو آج سے تقریباً 9 ماہ قبل تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور استعمال کے خاتمے کے لیے خصوصی کریک ڈاؤن کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا، لیکن افسوس اس ٹاسک کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے، اینٹی نارکوٹکس فورس اپنی ویب سائٹ پر اپنی جتنی بھی کامیابیوں کا ذکر کرے، لیکن بظاہر تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اور استعمال میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے ’’ایکسرپس‘‘ نے اپنی روایات کے عین مطابق اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس فیچر کا اہتمام کیا، لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس لاہور ریجن کے کسی افسر نے متعدد بار ٹیلی فون کالز اور ایس ایم ایس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ رابطہ پر دو افسروں کا کہنا تھا کہ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے۔

اس لیے ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ سوموار کو دیکھیں گے کہ کیا ہو سکتا ہے؟ جس پر انہیں متعدد بار درخواست کی گئی کہ یہ فیچر سوموار کو تو چھپ جانا ہے، لیکن اپنے کام سے دیانت داری کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی افسر دس منٹ کے لیے چھٹی والے روز دفتر آنے کو تیار نہیں، بھلے اس سے معاشرے کا کتنا بھی نقصان ہو۔ دوسری طرف طلباء کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کالج یا یونیورسٹی میں آزادی کی چمک دمک کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ والدین، اساتذہ اور سب سے بڑھ کر بطور سماجی رکن ان سے وابستہ توقعات کا گلا گھونٹ دیں، انہیں یہ احساس رہنا چاہیے کہ ان کے کندھوں پر والدین کی عزت، اساتذہ کی کڑی محنت، معاشرتی فلاح و بہبود اور مستقبل کے خوشحال پاکستان کی ذمہ داری عائد ہے، جس کو پورا کرنے کے لیے انہیں نشے جیسی لعنت کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔