ایسا کب تک چلے گا؟

عابد محمود عزام  ہفتہ 7 اکتوبر 2017

ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں دن بدن انسان ’ تعلیم یافتہ ‘ اور ’ مہذب ‘ ہوتا جا رہا ہے۔ فضاء، سمندر، جنگلوں میں حشرات الارض، چرند، پرند، درندے، موذی جانور پائے جاتے ہوں، انسان کو سب کی زندگی کی فکر ہے۔ مختلف تنظیمیں ان کی حفاظت کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔

کئی ترقی یافتہ ممالک ان تمام تنظیموں کے اخراجات اپنے خزانے سے ادا کرتے ہیں لیکن ایک بہت ہی افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان دنیا پر اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے کمزور انسانوں کی جان بچانے کے لیے فکر مند نہیں ہے۔ میانمارکی ریاست راکھائن میں عمومی طور پر برسوں سے بدترین مظالم کیے جارہے ہیں لیکن خصوصی طور پر اگست سے وہاں کی فوج، حکومت اور عوام کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر درندگی کے تمام طریقے آزمائے جارہے ہیں۔ ساری دنیا ان پر ہوتے مظالم دیکھ رہی ہے لیکن جانوروں کی جان بچانے کا درد رکھنے والی دنیا روہنگیا انسانوں کے معاملے میں گونگی بہری اندھی ہوچکی ہے ۔

میانمارکی ریاست راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج، حکومت اور دہشتگرد بدھ بھگشوؤں کی جانب سے درندگی کا سلسلہ تھما نہیں اگرچہ دنیا خاموش ہوچکی ہے۔ یہ انسانی بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ برمی حکومت چاہتی ہے کہ ریاست راکھائن سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ اسی لیے وہ گاہے بگاہے وہاں فوجی آپریشن کے نام پر ان کی نسل کشی کرتی ہے تاکہ مسلمان ان علاقوں سے ہجرت کر کے دیگر ملکوں کی طرف بھاگ جائیں۔

25اگست سے اب تک بنگلادیش کے علاقے کاکس بازار پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد 6 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔بنگلہ دیش میں بھی روہنگیا مہاجرین کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش پہنچنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے، ہزاروں حاملہ خواتین بھی امداد کی منتظر ہیں۔

مہاجر کیمپوں میں روہنگیا بچے جاں بحق ہورہے ہیں، ان کے پاس نہ کھانے پینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے جگہ ہے۔ بھوک پیاس، ناقص غذا، آلودہ پانی اور ادوایت کی کمی کے باعث ڈائریا، نمونیا اور دیگر بیماریوں کے شکار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ، دیگر تنظیموں اور حلقوں نے برمی فوج اور حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا لیکن اس کے باوجود میانمار کے خلاف ابھی تک کوئی ہلکی سی عملی کارروائی بھی نہیں کر سکی۔ اقوام متحدہ کی ذمے داری شاید ظلم رکوانا نہیں بلکہ روہنگیا مسلمانوں کو صرف دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دینا ہی ہے۔ عالمی برادی مسلمانوں کے معاملے میں ہمیشہ منافقت سے کام لیتی آئی ہے۔روہنگیا کے معاملے میں بھی منافقت سے کام لے رہی ہے بلکہ اقوام متحدہ پس پردہ خود اس نسل کشی کی حمایت کر رہی ہے۔

گزشتہ دنوں بی بی سی کی تفصیلی رپورٹ میں بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور امدادی کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کی قیادت نے روہنگیا کے حقوق کے معاملات کو حکومت کے سامنے اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی اور میانمار میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا کے حساس علاقوں کا دورہ کرنے سے روکا تھا اگرچہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے عملے نے بی بی سی کی ان تحقیقات کی تردید کی لیکن میانمار کے اندر اور باہر موجود امدادی کارکنوں کا کہنا تھا کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کی ملکی ٹیم کے کینیڈین سربراہ رینیٹا لوک ڈیسیڈیلین نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی ۔

اس معاملے پر لوگوں کو آواز اٹھانے سے روکا۔ عملے کے ان ارکان کو الگ تھلگ کر دیا جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ وہاں نسل کشی کی جا رہی ہے اور ایسے ارکان پر کئی قسم کی پابندیاں عاید کردی گئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے کارکنوں نے اقوام متحدہ کی برمی حکومت کی سفاکیت کی خاموش حمایت کے بارے میں اور بھی کئی انکشافات کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر برمی حکومت کو عالمی ادارے کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ راکھائن میں بدھ انتہاپسندوں اور برمی فوج اور حکومتی اداروں کے ہاتھوں نسل کشی کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمان اقوام متحدہ کے بارے میں برمی حکومت سے خفیہ ساز باز کی رپورٹوں کے بعد مایوس ہوگئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور روہنگیا مسلمان واپس میانمار جانے کے لیے اقوام متحدہ کے فیصلے کے منتظر تھے کیونکہ ان کا بنیادی مسئلہ میانمار کی شہریت ہے۔ شہریت کے بغیر وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی گزارینگے۔ اقوام متحدہ ہی روہنگیا مسلمانوں کی شہریت کا دیرینہ مسئلہ حل کروا سکتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے عہدیداروں کی جانب سے برمی حکومت کی پس پردہ حمایت کے انکشاف سے روہنگیا مسلمانوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ جب یہ ثابت ہوچکا کہ عالمی برادی مسلمانوں کے دیگر معاملات کی طرح روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بھی منافقت سے کام لے رہی ہے تو اس معاملے کو حل کروانا مسلم ممالک کی ذمے داری ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باقاعدہ درخواست دی جاتی اور برمی حکومت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن بند کرے، اس کے بعد دیگر ممالک میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بلائے اور ان کی آبادکاری کے لیے اقدامات کرے، روہنگیا مسلمانوں کی برمی شہریت کو بحال کرے اور انکو سرکاری ملازمتوں اور کاروباری مواقعے فراہم کرے لیکن کسی مسلمان ملک اور تنظیم نے ایسا کرنے پر توجہ نہیں دی۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کا درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ توکہا جا رہا ہے لیکن اسے حل کرانے کے لیے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم فوری طور پر رکوانا مسلم ممالک کی حکومتوں پر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بہیمانہ مظالم سے تمام مسلم ممالک کے عوام میں انتقام کے جذبات جنم لے رہے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم دیکھ کر سینے میں انسانوں کا دل رکھنے والے ہر انسان کی آنکھیں اشک بار اور دل رنجیدہ ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک کے عوام ظلم رکوانے کے لیے احتجاج کر کے اپنی حکومت کو کوئی سبیل نکالنے پر راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اگر ایسے حالات میں مسلم ممالک کی حکومتیں چند بیانات دینے پر ہی اکتفا کریں تو مسلم ممالک میں بہت سے لوگ اپنی حکومت سے مایوس ہوکر عسکری تنظیموں کے ذریعے کسی طرح مطلوبہ جگہ پر پہنچ بھی سکتے ہیں اور جو نہ جاسکیں وہ اپنی حکومت کو ہی قصور وار سمجھتے ہوئے اس کے خلاف محاذ کھول سکتے ہیں ۔

روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے معاملے میں عوام کو معلوم ہے کہ بہت کچھ کرنا ہر مسلم ملک کے اختیار میں نہیں ہے لیکن کم از کم ایسا کچھ نہ کچھ تو کرے جس سے عوام کو لگے کہ ہماری حکومت اپنافرض ادا کر رہی ہے۔ کم از کم سفارتی تعلقات تو ختم کیے جاسکتے ہیں۔ متعلقہ ملک سے تجارتی معاہدے منسوخ کیے جاسکتے ہیں۔ یہ نہیں کرسکتے تو وزیر خارجہ کو بھیج کر ظالم ملک کی حکومت سے بات کرسکتے ہیں، دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بھی کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں اور بھی بہت سے آپشن ہوسکتے ہیں۔ ایسا آخرکب تک چلے گا؟ کیا روہنگیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔