پاتال کی طرف سفر

ذیشان محمد بیگ  اتوار 8 اکتوبر 2017
انسان اب تک زمین کے اندر سات اعشاریہ سات میل کی گہرائی کا گڑھا کرنے میں کامیاب ہوسکا۔  فوٹو: فائل

انسان اب تک زمین کے اندر سات اعشاریہ سات میل کی گہرائی کا گڑھا کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ فوٹو: فائل

ہماری یہ زمین جسے کرہ ارض کہا جاتا ہے، حیرت انگیز، خوبصورت اور دلچسپ مقامات سے بھری ہوئی ہے۔

زمین میں ایسے ایسے عجائبات پوشیدہ ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کے کچھ بھید تو ایسے ہیں کہ جو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی فہم و ادراک سے ماورا ہیں۔ جیسے برمودا ٹرائی اینگل اور اہرام مصر وغیرہ کے اسرار، جن کی صحیح توجیہہ آج تک بھی پیش نہیں کی جاسکی۔ ان کے بارے میں مختلف نظریات تو سامنے آتے رہتے ہیں مگر سائنسدان ان کی واضح تشریح بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

سطح زمین کے اوپر موجود ان بھید بھرے مقامات کا تذکرہ اپنی جگہ، لیکن زمین کے اندر بھی بے شمار ایسی چیزیں اور جگہیں موجود ہیں جن کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ خاص طور پر وہ جگہیں جن کے بنانے میں انسانی ہاتھ بھی کارفرما ہیں۔ آج ہم زمین کی سطح سے اس کے اندرونی مرکز کی جانب چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیاکیا چیزیں، مقامات اور مناظر ہمارے منتظر ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں (مفہوم) ’’ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے مفر ممکن نہیں اور حدیث پاکؐ کے مفہوم کے مطابق ’’عقلمند وہ ہے جو مرنے سے پہلے ہی موت کی تیاری کرکے رکھے۔‘‘ دنیا میں پائے جانے والے تین بڑے مذاہب میں، جنہیں ابراہیمی مذاہب یا الہامی مذاہب کہا جاتا ہے جن میں اسلام، مسیحیت اور یہودیت شامل ہیں، ان مذاہب میں اپنے مردوں کو زمین میں دفن کرنے کا حکم ہے۔ ایک انسانی قبر کی گہرائی عموماً چھ فٹ ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے واقعہ میں فرعون کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: (مفہوم) ’’اسے عبرت کا نشان بناکر دنیا میں باقی رکھا جائے گا۔‘‘ آج بھی فرعون کی لاش عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے اور دیکھنے والوں کے لیے باعث عبرت ہے۔ فرعون، مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ ایک مشہور فرعون، توت غخ آمون جو مصر کا گیارہواں فرعون تھا، کی ممی 1922ء میں زمیں سے تیرہ فٹ نیچے سے دریافت ہوئی۔

آئیے اور نیچے چلتے ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر آج کل کے دور کا ایک مفید آلہ ہے۔ جنگوں کے دوران بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں، جن کی وجہ سے جنگ کے بعد بھی بے شمار انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں، کو ڈھونڈنے سے لے کر دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے دوچار دنیا میں مشتبہ افراد کے پاس ممنوعہ ہتھیار وغیرہ کی تلاشی کے لیے یہی میٹل ڈیٹیکٹرز استعمال ہوتے ہیں اور ان کی افادیت مسلمہ ہے۔ لیکن دھاتوں کی نشاندہی کرنے والے اس کے سگنلز کی حد سطح زمین سے بیس فٹ نیچے ختم ہوجاتی ہے۔

دنیا کی عظیم و قدیم تہذیبوں نے بڑے دریاؤں کے کناروں پر جنم لیا اور وہیں پھلی پھولیں۔ جیسے دریائے سندھ کی تہذیب، زرد دریا کی چینی تہذیب اور دریائے نیل کی مصری تہذیب وغیرہ۔ دریائے نیل کے بارے میں مصر کے فرعونوں کے دور سے لے کر مسلمانوں کے مصر فتح کرنے کے بعد تک کے بھی دلچسپ واقعات کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ اس دریا میں رہنے والے مگر مچھوں کے کھودے جانے والے انتالیس فٹ تک گہرے گڑھے، کسی بھی جانور کی طرف سے کھودے جانے والے سب سے گہرے گڑھے سمجھے جاتے ہیں۔

اب ہم پہنچتے ہیں بیسں میٹرز کی گہرئی میں موجود Paris Catacombs تک، جوزیر زمین انسانی باقیات رکھنے کی جگہ ہے۔ یہ جگہ پیرس میں واقع ہے۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً چھ ملین سے زیادہ لوگوں کی باقیات موجود ہیں۔ جب ہم چالیس میٹرز نیچے جائیں تو یہ دنیا کے سب سے گہرے سوئمنگ پول کی گہرائی ہے۔ اگر اس سوئمنگ پول کو خالی کرکے کوئی شخص اس میں چھلانگ لگائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے میں اسے محض تین سیکنڈ درکار ہوں گے۔ یہ سوئمنگ پول اٹلی میں واقع ہے۔ سو (100) میٹرز کی گہرائی وہ پیمانہ ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتیں اپنا ایٹمی فضلہ دفناتی ہیں۔

(ایک تحقیق کے مطابق ایٹمی فضلہ دفنانے کی معیاری اور مطلوبہ حد تین سو میٹرز کی گہرائی ہونی چاہیے۔) آج ہمارے وطن عزیز کے کئی شہروں میں بھی میٹرو بسیںمسافروں سے لدی پھندی فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں مگر کیا ہمارے علم میں ہے کہ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev میں ایک سو پانچ میٹرز زیر زمین ایک میٹرو اسٹیشن موجود ہے؟ انجیر ایک مفید پھل ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں انجیر کے ایک درخت کی جڑیں ایک سو بائیس میٹرز گہرائی میں دریافت کی گئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں نے دریاؤں کے کنارے اپنے ارتقائی مراحل طے کیے۔ اسی طرح تاریک براعظم افریقہ میں واقع مشہور دریا، کانگو کی حد دنیا میں سب سے گہری یعنی دو سو بیس میٹرز ہے۔ یہ دریا جنوبی افریقہ میں ہے۔ جاپان دنیا کا ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے سے ہونے والی بدترین تباہی کے بعد بھی اس نے جس حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے میدان میںدنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کو پیچھے چھوڑا وہ قابل رشک ہے۔ جب بھی بلٹ ٹرین یا روبوٹس کا ذکر آئے تو فوراً دماغ میں جاپان کا خیال آتا ہے کیونکہ ان میدانوں میں اس کی مہارت فقیدالمثال ہے۔

جاپان بہت سے جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ اس نے اپنے دو جزائر ’’ہونشو آئرلینڈ‘‘ اور ’’ہاک آئی ڈو‘‘ کو ریلوے لائن کے ذریعے ملانے کے لیے دنیا کی سب سے گہری ریلوے ٹنل (سرنگ) بنائی ہے جو زیر زمین دو سو چالیس میٹرز کی گہرائی میں واقع ہے۔ ترقی کی دوڑ میں دیگر ممالک بھی پیچھے نہیں۔ قطب شمالی کے قریب واقع سکنڈے نیوین ملک ناروے نے دو سو ستاسی میٹرز کی گہرائی میں دنیا کی سب سے گہری روڈ ٹنل (سرنگ) بناکر ساری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

جہاں انسان نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سارے کام کیے وہیںبدقسمتی سے ایسے کام بھی کیے جن کی وجہ سے انسانیت ہلاکت اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔ انسانوں نے انسانوں کو مارنے کے لیے ایسے ایسے ہتھیار بنائے ہیں کہ شیطان بھی منہ چھپانے پر مجبور ہوجائے۔ انہیں ہتھیاروں میں سے ایک کا نام ’’B-83‘‘ (War Head) ہے۔ یہ زمین میں دھنس کر پھٹنے کی صلاحیت رکھنے والا ایٹمی ہتھیار حملے کی صورت میں تین سو پانچ میٹرز یعنی تقریباً ایک ہزار ایک فٹ تک کی گہرائی تک ہر چیز کو تباہ کرسکتا ہے۔ زندگی کی نمو پانی سے ہے۔ پیاسے کو پانی پلانا کار ثواب ہے۔ ہمارے دین میں بھی پانی کے صدقے کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ اسلام میں بہت سے واقعات اس ضمن میں ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓؓ نے پانی کے کنویں لوگوں کے لئے وقف کردیئے۔ انسانی ہاتھ سے کھودا گیا سب سے گہرا کنواں، جس کا نام Wooding Water Well ہے، انگلستان میں واقع ہے۔ یہ کنواں 1862ء میں کھودا گیا۔ اس کی گہرائی تین سو بانوے میٹرز ہے۔

جنگل اور غار ایسی جگہیں ہیں کہ جن کو اگر کسی نے دیکھا نہ بھی ہو تو بھی بچپن میں پڑھی گئی ٹارزن کی کہانیوں کی وجہ سے ہر کوئی ان سے واقف ہے۔ دنیا میں ایک ایسی غار بھی موجود ہے جس کو دنیا کی سب سے گہری غار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ زمین کی سطح سے اس کی گہرائی تقریباً چھ سو تین میٹرز تک ہے۔ یہ غار عمودی شکل کی ہے۔ اس کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نائن الیون میں تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی اونچائی جتنی گہری ہے۔ اگر کوئی اس میں گر جائے تو اس کو اس کی تہہ میں پہنچنے میں گیارہ سیکنڈز لگیں گے۔ گو دولت کی ہوس اچھی نہیں ہوتی کیونکہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا لیکن پیسہ ایک ضروری چیز بھی ہے۔ خاص طور پر عوام کی اجتماعی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ملکوں کو زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ملک کے وسائل کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

چلی میں موجود سات سو میٹرز گہری سونے کی کان اس کی ایک مثال ہے۔ یہ کان 2010ء میں ایک حادثے کے باعث بھی دنیا میں مشہور ہوئی تھی جب انہتر کان کن اس میں پھنس گئے تھے۔ کھلے آسمان تلے انسانوں کی جانب سے کھودے جانے والی سب سے گہری جگہ Bigham Conyon Mine ہے۔’’Utah‘‘ میں واقع کھلے منہ کے نو سو ستر میٹر گہرے اس گڑھے میں اگر دنیا کی سب سے اونچی عمارت، دبئی کا برج خلیفہ کھڑا کہ دیا جائے تو بھی سو (100) میٹرز کی گہرائی بچ جائے گی۔

انسان عجیب و غریب کام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایسا ہی ایک کام فن لینڈ کے موسیقی کے منچلے متوالوں نے اگست 2007ء میں کیا۔ AGONIZER نامی ایک میوزک بینڈ نے زیرزمین بارہ سو اکہتر میٹرز کی گہرائی میں جاکر ایک کنسرٹ کا اہتمام کیا اور زبردست پر فارمنس کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ کی ریاست ایریذونا کی Grand Conyon  نامی وادی دنیا میں سب سے گہرائی میں واقع وادی مانی جاتی ہے۔ یہ زمین کی سطح سے ایک اعشاریہ ایک پانچ میل نیچے واقع ہے۔ اسی طرح جورجیا میں زیر زمین ایک اعشاریہ چار میل نیچے موجود غار دنیا کا سب سے گہرائی میں واقع غار ہے۔

موبائل فون آج کل ہر فرد کی ضروریات زندگی میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی سرزمین تلے، ایک اعشاریہ نو میل کی گہرائی میں واقع Mponeng Gold Mine وہ جگہ ہے جہاں موبائل فون کے سگنلز بھی نہیں پہنچتے۔ ایلی ویٹر کے ذریعے اس کان کی تہہ تک پہنچنے میں ساڑھے چارمنٹ لگتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر اس میں کوئی گر پڑے تو اسے تہہ تک جاتے جاتے پچیس سیکنڈ لگیں گے۔

کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات بے شمار ہیںاور وہ کیڑے کو پتھر میں بھی رزق پہنچاتا ہے۔ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ انسانوںکو اپنی قدرت کے نظارے بھی کروا دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر انسان نے اس وقت بھی دیکھا جب اس کی پہنچ زمین کے اندر دو اعشاریہ دو میل گہرائی تک ہوئی اور وہاں ملٹی سیلولر آرگنیزم زندہ حالت میں دریافت ہوئے جنہیں Devil Worm کہاجاتا ہے۔ زمین کی اڑھائی میل گہرائی میں جنوبی افریقہ کی سونے کی کان واقع ہے۔ جہاں تک آنے جانے میں ایک گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت چھیاسٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوجاتا ہے۔ یہ اتنی گہرائی ہے کہ اس سے مزید ڈیڑھ میل نیچے یعنی سطح زمین سے چار میل گہرائی میں سمندر کی ’’کرسٹ‘‘ کی گہرائی شروع ہوجاتی ہے اور اس سے ڈیڑھ میل اور نیچے چلے جائیں تو یہ گہرائی اتنی ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کو الٹا کرکے اس میں فٹ کرسکتے ہیں۔ چھ اعشاریہ آٹھ میل کی گہرائی میں Lowest Point in the Ocean یعنی سمندر کے سب سے گہرے حصے ’’ماریانو ٹرنچ‘‘ کی حد آجاتی ہے۔ یہ مقام Challenger Deep کہلاتا ہے۔

زمین کی فضاؤں میں اڑنے والے جہاز اوسطاً سات ساڑھے سات میل اونچائی پر اڑتے ہیں۔ سابقہ سویت یونین (روس) نے دیوہیکل ڈرل مشین کے ذریعے زمین میں تیئس سینٹی میٹرز چوڑا اور سب سے گہرا سوراخ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس پروجیکٹ کا نام Kola Superdeep Borehole رکھا گیا۔ کام جب مطلوبہ گہرائی کے تیسرے حصے یعنی سات اعشاریہ چھ میل کی گہرائی تک پہنچا تو روک دینا پڑا کیونکہ وہاں درجہ حرارت ایک سو اسی ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچا تھا اور ڈرل مشین مزید کام جاری نہ رکھ سکی۔ اس گڑھے میں اگر کوئی چھوٹی سی چیز پھینکی جائے تو اسے گہرائی تک پہنچتے ہوئے پچاس سیکنڈز لگیں گے۔

انسان اب تک زمین کے اندر سات اعشاریہ سات میل کی گہرائی کا گڑھا کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ یہ گڑھا Z44-Chavyo نامی ایک تیل اور گیس کا کنواں ہے۔ یہ گہرائی اتنی ہے کہ اس میں پندرہ برج الخلیفہ ایک دوسرے پر اوپر تلے کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔ زمین کی اوپری کرسٹ کی موٹائی تقریباً تنتالیس اعشاریہ پانچ میل ہے جبکہ اس کا اندرونی مرکز تین ہزار نو سو انسٹھ میل کی گہرائی میں واقع ہے۔ ان اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کی پہنچ اتنی ترقی اور خلاؤں کی تسخیر کے باوجود ابھی تک اپنی زمین کی مجموعی گہرائی کے فقط ساتویں حصے کے برابر ہی ہوسکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔