فیروزہ

انیس انصاری  اتوار 8 اکتوبر 2017
دو سال بعد مجھے عبدالشکور کی فیروزہ سے شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا، جس کے ساتھ فیروزہ کا خط بھی تھا۔ فوٹو: نوشابہ

دو سال بعد مجھے عبدالشکور کی فیروزہ سے شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا، جس کے ساتھ فیروزہ کا خط بھی تھا۔ فوٹو: نوشابہ

سندھی سے ترجمہ: نوشابہ نوش

اس کی نظروں نے ہی بتادیا تھا کہ اس کا نام مس غزالہ ہوگا۔

نیاگرا آبشار کا پانی میرے سر پر گرتا تو مجھے اتنا تعجب نہ ہوتا جتنا یہ معلوم کرکے ہوا کہ وہ فیروزہ مسز فیروزہ عامر تھی۔ نہ صرف اتنا بل کہ ایک عدد بچے کی ماں بھی تھی جو چچا زاد بھائی کے پاس باہر موجود تھا۔ میں اس کے معصوم چہرے اور غزالی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ کاروبار کے وقت اپنے پیشے کے حوالے سے میرے مفروضات اکثر سچے ثابت ہوا کرتے تھے، لیکن اس بار میرے اندازے نے مجھے دھوکا دے دیا۔ اس کی شادی تین سال پہلے عامر (جس کو وہ اَمر پکارا کرتی ) سے ہوئی تھی۔ عامر ایک کام یاب کاروباری شخص تھا۔ نوجوان اور شکل و صورت کا بھی بہتر تھا۔ اس کے چہرے کی نمائش مقابلۂ حُسن میں بھی ہوئی تھی، جس میں ’’کتنا اچھا ہے‘‘ ماں کے ساتھ آئی ہوئی فیروزہ نے پیچھے مڑتے ہوئے دیکھا۔ عامر سے نظریں ملتے ہی اس کے تن بدن میں بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ عامر نے ایک ٹیبل لیمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے دوست سے کہا،’’کتنی خوب صورت ہے‘‘ ہاتھ کا اشارہ ٹیبل لیمپ کی طرف تھا، لیکن آنکھیں فیروزہ پر تھیں۔ نہ جانے کیوں فیروزہ کی رنگت تبدیل ہوگئی۔ پہلے گلابی اور پھر پیلی جیسے کہ ہلدی۔

وہ تھی اس کی پہلی ملاقات۔ دوسری ملاقات بھی پانچ منٹ بعد چوڑیوں کی دکان پر ہوئی جہاں دکان دار فیروزہ کو رنگ برنگی چوڑیاں پہنا رہا تھا۔

’’کتنا اچھا ہے‘‘ الفاظ گولی کی طرح دوسری بار فیروزہ کے ذہن میں اُترے۔

فیروزہ کی ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نمائش سے باہر لے آئی۔ رکشا چلا تو عامر کی کار نے پیچھا کیا۔ دونوں گاڑیوں نے شمس ٹاؤن کا رخ کیا۔ عامر نے فیروزہ کا گھر دیکھ لیا۔

فیروزہ کا باپ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ شمس ٹاؤن میں گھر ان کا خریدا ہوا نہیں تھا، یہ گھر سیٹھ شکور کے بھائی سے پانچ سو روپے میں کرائے پر لیا تھا۔ شکور بھائی نے شمس ٹاؤن کے جدا جدا بلاکوں میں چار مکان دوسروں کے نام پر قرعہ اندازی کے ذریعے حاصل کیے تھے۔ یہ گھر اپنے اور اپنے بیٹے کے ناموں پر حلف نامہ داخلہ کرکے حاصل کیے گئے تھے، جس میں لکھا تھا کہ سیٹھ شکور بھائی یا اس کے بیٹوں کی کراچی یا سندھ کے اندرونی حصوں میں کوئی بھی رہائشی جگہ یا پلاٹ نہیں۔ اس نے چاروں گھر کرائے پر دے دیے۔

فیروزہ اس زمانے میں انٹر سائنس کی طالبہ تھی۔ وہ رفتہ رفتہ نعیمہ کی معرفت جو کہ اس کی کلاس فیلو اور عامر کی عزیز تھی، عامر کے بھیجے گئے تحائف قبول کرنے لگی اور کچھ وقت کے بعد اسی کے ذریعے دونوں کے بیچ میں خط و کتابت شروع ہوگئی۔ چھے مہینے کے اندر ان دونوں کی شادی بھی ہوگئی۔ شادی کے بعد ایک سال کے اندر اندر فیروزہ کے ماں باپ انتقال کرگئے۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد فیروزہ کا بیٹا پیدا ہوا، ناصر۔ شادی کے تین سال گزرے دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ وجہ ان دونوں کے بیچ میں بے اعتمادی تھی۔ عامر نے اپنی عادت کے مطابق ہر حسین لڑکی کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑا اور فیروزہ تنہائی سے تنگ آکر گھنٹوں گھر چھوڑ کر اپنی خالہ کے پاس رکنے لگی، جو کہ اس کے شوہر کے بنگلے سے کچھ فاصلے پر رہتی تھی۔ پہلے دونوں ایک دوسرے سے زبانی شکوے شکایات کرنے لگے پھر نوبت مارپیٹ اور گھونسوں لاتوں تک جاپہنچی۔

فیروزہ نے طلاق مانگی۔ عامر کا خیال تھا کہ وہ اسے تب طلاق دے گا جب اس کا بیٹا اسے دیا جائے گا۔

فیروزہ بہت سے آفسوں میں دربدر ہوئی، ہر جگہ اسے آفس کے بہ جائے گھر آکر حقیقت بیان کرنے کو کہا گیا، ان آفیسرز میں بہت سے تنہا رہا کرتے تھے۔ یہ شرط فیروزہ نے قبول نہیں کی۔

پوری بات سن کر میں نے کیس، فیس اور دوسرے اخراجات کا تخمینہ بتایا۔ اس کی آنکھوں میں پانی آگیا۔ میں غزالی آنکھوں سے آنسو بہتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میرے اندر کا شاعر میری وکالت کے کاروبار پر غالب آگیا۔ میں نے فیروزہ کو دلاسا دیا اور کلرک کی معرفت ایک نوٹس ڈرافٹ تیار کروالیا، جس میں عامر کو چار ہزار مہینہ وار کے حساب سے ایک سال کا نان نفقے کا خرچہ اور آیندہ ہر ماہ اسی شرح سے فیروزہ کو پہنچانے کا کہا گیا تھا۔ نوٹس تیار کروا کر اپنی طرف سے لفافے کے اوپر ٹکٹیں لگا کر فیروزہ کے ہاتھ میں دیا کہ وہ رجسٹر کے ذریعے بھیج دے۔

جاتے وقت فیروزہ پرس میں سے بیس روپے نکال کر مجھے دینے لگی، میں نے پیسے واپس اسی کے پرس میں ڈال دیے۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر میں تمہیں فیروزہ کے بدلے غزالہ پکاروں تو تمہیں اعتراض تو نہیں ہوگا؟ اس نے سر جھکا کر انکار کا اشارہ کیا۔ جاتے وقت وہ مجھے تعجب سے دیکھنے لگی، شاید اس لیے کہ میں نے اسے گھر آنے کے لیے ایڈریس نہیں دیا۔ ساری رات فیروزہ کے لیے سوچتا رہا کیا۔ ایسے لوگ بھی زمانے میں موجود تھے جو فیروزہ جیسی اچھی لڑکی کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے چکروں میں پڑتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد فیروزہ میرے پاس آئی ساتھ میں بیٹا اور چچا زاد بھائی تھا۔ دہلیز سے آتے ہی فیروزہ نے ٹھوکر کھائی۔ میں نے دیکھا اس کا چہرہ اور رنگ ہار چکا تھا۔ اس نے قدم آگے بڑھایا تو ہلنے لگی، گرنے سے پہلے ہی میں نے اسے سنبھال لیا اور کرسی پر بٹھایا۔ میں نے پانی کا گلاس واٹر کولر سے بھر کر اسے دیا۔ گلاس لیتے وقت میں نے دیکھا اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ ’’کچھ کھاؤ گی؟‘‘ نہ جانے میں نے کیوں پوچھا۔

’’پچھلے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

میں نے کلرک کو دوڑایا۔ وہ سامنے والے ریسٹورنٹ سے دو بریانی، چھے نان اور سالن لے آیا۔ میں نے فیروزہ کو آرام دہ کرسی پر بٹھایا، جس وقت جانے لگی میں نے برقع کے نیچے ابھار سے اندازہ لگایا کہ بچا ہوا نان وہ اپنے دوپٹے کے پلو میں رکھ کر جا رہی تھی۔ جاتے وقت میں نے فیروزہ کو دس روپے دیے جو لرزتے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے لیے۔

اس کے ایک ہفتے بعد وہ میرے پاس آئی۔ اس کے ہاتھ میں طلاق نامہ تھا جو کہ شوہر نے اسے بھیجا تھا۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ آیندہ کے لیے پوچھا تو اس نے چچا زاد بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’شکور میرا رشتے دار نہیں، میری خالہ کے پڑوس میں رہتا ہے، درزی ہے، ایک مشین ہے جس سے غریبوں اور مزدوروں کے کپڑے سی کر گزارا کرتا ہے۔ میری خالہ کا خیال ہے کہ میں اس سے شادی کرلوں، لیکن میں پہلے ہی الجھی ہوئی ہوں، سوچ رہی ہوں اس بارے میں پہلے سوچ لوں۔‘‘

جاتے وقت فیروزہ نے چادر کے اندر سے ایک مٹھائی کا ڈبا نکال کر ٹیبل پر رکھا۔ میں نے بہت انکار کیا، لیکن اس کے کہنے پر کہ ’’کیا ایک غریب کا حقیر سا تحفہ بھی قبول نہیں کریں گے؟ میں آپ کا احسان قیامت تک اتار نہیں سکوں گی‘‘، میں نے مٹھائی کا ڈبا کھول کر ایک بالو شاہی نکال کر ڈبا واپس کردیا۔ اس کے جاتے سَمے میرے منہ سے نکلا ’’خدا حافظ غزالہ!‘‘ وہ آواز اس کے کانوں تک پہنچی، اس نے ہاتھ ہلاکر جواب دیا۔

دو سال بعد مجھے عبدالشکور کی فیروزہ سے شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا، جس کے ساتھ فیروزہ کا خط بھی تھا۔ اس نے شادی میں شریک ہونے کی تاکید کی تھی۔ وہ بھی لکھا تھا کہ عبدالشکور اب ایک ٹیلرنگ کمپنی کا مالک ہے اور دستخط کرنے کے وقت اس نے اپنا نام فیروزہ غزالہ لکھا تھا۔

میں شادی میں شریک نہ ہوسکا، ایک دن کالا برقع پہن کر ایک عورت میرے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں تکتا رہا کہ پہچان سکوں، سارا نقشہ خراب ہوچکا تھا، لیکن آنکھیں وہی تھیں، میں چیخ پڑا،’’غزالہ!‘‘

’’بدنصیب فیروزہ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ حال کیسے؟‘‘ کہا کہ اپنے ہی بچے کے پیٹ پالنے کے لیے تین گھروں کا کام کرتی ہوں، یہ کہتے ہوئے اس نے میرے آگے ہاتھ بڑھائے جو کہ برتن مانجھنے کے بعد کھردرے ہوچکے تھے۔ ’’لیکن یہ سب ہوا کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’بہت طویل داستان ہے سائیں! کسی وقت سناؤں گی۔ ابھی ایک عرض لے کر آئی ہوں۔ مجھے جھونپڑی سے نکال رہے ہیں، جو کہ ایک ایک پیسا جمع کرکے بنائی تھی، میرے لیے کچھ کریں۔‘‘

’’لیکن شکور۔۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’نام مت لیں اس بے غیرت کا۔ دلال کہیں کا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔