منظوم درود اور نعتیہ ادب (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 8 اکتوبر 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اکثر اوقات ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو دل و دماغ کو گل و گلزار اور قلب و نظر کو فرحت بخشتی ہیں۔ الفاظ کی منظرکشی واقعات کو زندگی اور تابندگی عطا کرتی ہے اور مقدس و متبرک سرزمین نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ روضہ اطہر کی جالیاں، سبز گنبد اور طواف کعبہ کا نظارہ نگاہوں کو نور کا جلوہ دکھاتا ہے۔

کئی ماہ سے میں بھی ایسے ہی الفاظ کے سحر میں گم ہوں، ایمان کی تازگی نے میرے صبح و مسا کو مہکا دیا ہے، اسی مہکتے لفظوں کو قلم و قرطاس کے سپرد کر رہی ہوں۔ میری لکھنے کی میز پر جو کتابیں سجی ہیں ان کے عنوانات ہیں ’’امید طیبہ رسی‘‘، ’’نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے‘‘، ’’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ان تینوں کتابوں کے شاعر اور مصنف ڈاکٹر عزیز احسن ہیں۔ ان کی تصنیفات میں بارہ کتابیں شامل ہیں، جب کہ تالیف کے اعتبار سے سات کتب آپ کے ادبی خزانے کی زینت ہیں، ’’ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمد و نعت ‘‘ صبیح رحمانی نے مرتب کی ہے۔

ایک اور اہم کتاب ہے ’’صلو علی النبی‘‘ جوکہ پروفیسر فائزہ احسان صدیقی کی نعتیہ شاعری اور درود پاک کے منظوم ترجمے سے مرصع ہے۔ پروفیسر فائزہ احسان نے جو انتساب لکھا ہے اس کا اظہار دعائیہ ہے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تحفہ خاص اس انداز میں پیش کیا ہے ’’آقائے عالی قدر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں بہ ہزار عجز و احترام عقیدت و محبت گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ طلبگار شفاعت۔‘‘ پروفیسر فائزہ احسان کی کتاب پر لکھنے سے قبل ڈاکٹر عزیز احسن کی کتابوں پر بات کرنے کی کوشش کروں گی۔

ڈاکٹر عزیز احسن نے نعت گوئی کے حوالے سے وقیع کام کیا ہے بلکہ اپنی پوری زندگی ہی اس مبارک کام کے لیے وقف کردی ہے اور یہ اللہ کا کرم خاص ہے کہ وہ اللہ اور اس کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مضطرب رہتے ہیں اور دل و دماغ تاز بہ تازہ خیالات ایمان افروز افکار کی تلاش میں کوچہ نبیؐ کی مقدس شاہراہوں اور اعلیٰ و ارفع مقامات کی سیر کرتا ہے۔ڈاکٹر عزیز احسن تحقیقی اور تنقیدی کاموں کے حوالے سے اپنی شناخت علیحدہ رکھتے ہیں، انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ’’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن کا اصل نام عبدالعزیز خان ہے اور وجہ شہرت قلمی نام ہے۔ انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ حصول علم میں صرف کیا اور اسی لگن اور علم و ادب سے محبت کے نتیجے میں ایم فل (اقبالیات) ایم اے (تاریخ اسلام) ایل ایل بی، بی کام فاضل (اردو)، فاضل فارسی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ نعت لکھنے کی طرف رغبت دین اسلام سے محبت و عقیدت کی بنا پر ہوئی۔ 1994ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی دوران ایک روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لبوں پر یہ دعا آئی کہ ’’بارِ الٰہ! مجھے لکھنے پڑھنے کی جو صلاحیت عطا ہوئی ہے وہ دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی توفیق مرحمت فرما دے اور میرے مالک میں جو کچھ لکھوں اسے چھپوانے کی ذمے داری میری نہ ہو۔‘‘

یقیناً وہ گھڑیاں قبولیت کی ہوں گی کہ ان کی دعا بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہوئی حج سے واپسی کے بعد ان کی ملاقات ممتاز شاعر صبیح رحمانی سے ہوگئی اور اس طرح ان کے پرچے ’’نعت رنگ‘‘ میں لکھنے کا موقع میسر آگیا اور بعد میں تمام مضامین کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔

باب اول میں ان شعرا کے حوالے سے بات کی گئی ہے جن کی قرآن کریم میں مذمت کی گئی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ادب کو برائے ادب یعنی محض تفریح طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ادب کا تفریحی استعمال دین اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی شعرا کے لیے اچھی اور بری شاعری میں فرق کرکے بتا دیا ہے۔

سورۃ شعرا میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’رہے شعرا تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں، بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا۔‘‘ (27)باب پنجم میں قابل ذکر شاعر صبیح رحمانی کے نعتیہ افکار کو عقیدت و خلوص کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے آج نعت گوئی حسن کلام کی بھی آخری منزل تک پہنچ چکی ہے، بات یہ ہے کہ وہ ذات گرامی جو حسن، جمال، کمال اور توازن کی آخری مثال ہے جس نے گفتگو و کلام کے آداب متعین فرمائے، اس کا ذکر بھی ذکر کرنیوالوں کے کلام کو اسی کے قائم کردہ معیار کے مطابق بنادیا ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار:

نظم ہستی میں توازن کے لیے… ساری دنیا اور تنہا مصطفی (تابش دہلوی)

اس کو کہتے ہیں تکمیل انسانیت… ساری اچھائی ایک انسان میں (محشر بدایونی)

ڈاکٹر عزیز احسن کا مقالہ انتقادی اور تحقیقی سرمائے سے مزین ہے انھوں نے باب اول سے باب ہشتم تک عربی اور فارسی تنقیدی آرا کا احوال، مختلف نعت گو شعرا کے تنقیدی زاویے، اشعار میں عجز و بیاں، تنقیدی مضامین کا جائزہ اور بے شمار و نقاد جنھوں نے نعتیہ کلام کی جمالیات پر روشنی ڈالی ہے، عزیز احسن نے بلا تعصب و گروہ بندی اہل علم و فن کے نام گنوا دیے ہیں اور ان کی تحریروں کے محاسن کو اجاگر کیا ہے۔ایک اور کتاب جو صبیح رحمانی نے مرتب کی ہے، عنوان ہے ’’ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمد و نعت‘‘ اسی کتاب سے نعت کے چند اشعار:

رخ مصطفیٰؐ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں

وسیلے سے ان ہی کے چرخ کی رفتار جاری ہے
وہی شمس الضحیٰ ٹھہرے وہی بدرالدجیٰ ٹھہرے

ہزاروں انبیا آئے مگر یہ بھی حقیقت ہے
شہ ابرار ہی تو مظہر رب العلیٰ ٹھہرے

’’نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں مدلل اور مرصع تحریر کے ذریعے علامہ اقبال، انور مسعود، توصیف تبسم، سرور سہارنپوری جیسے بڑے شعرا کی شاعری کے حوالے سے بحث کی ہے اور شاعری کے آئینے میں اوصاف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت طیبہ کو اجاگر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وجہ کائنات ہیں اگر اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ فرماتے تو یہ دنیا بھی وجود میں نہ آتی۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے ان الفاظ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جنھیں شعرا کرام اپنی شاعری میں برتتے ہیں، مثال کے طور پر ’’کبریا‘‘ انھوں نے اس حوالے سے میر کا شعر بھی درج کیا ہے:

میرؔ ناچیز مشت خاک اللہ
ان نے یہ کبریا کہاں پائی

قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے ’’کبریا‘‘ بڑائی کو کہتے ہیں ’’بڑے‘‘ کو نہیں، ان حقائق کی روشنی میں ’’کبریا‘‘ کو اللہ کے صفاتی نام کے طور پر برتنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ڈاکٹر صاحب نے شعرا کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ ’’شعر و ادب میں شاعرانہ تعلی کا پایا جانا ایک معمول کی بات ہے، لیکن نعت میں تعلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘‘۔ یقیناً ڈاکٹر عزیز احسن کی تنقیدی بصیرت نئے لکھنے والوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہوگی۔ نصیب والا وہی ہوتا ہے جسے دین و دنیا کی ثروت اور قلبی تسکین میسر آجائے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔