سائبر کرائم اور نوجوان نسل

رئیس فاطمہ  اتوار 8 اکتوبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

فیس بک پر لڑکے اور لڑکی کی دوستی ہوئی اور یہ دوستی ذاتی ملاقاتوں تک جا پہنچی۔ لڑکی میڈیکل کی طالبہ ہے۔ ذاتی ملاقاتوں کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہی نکلا۔ لڑکا بلیک میلر تھا، اس نے لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر اتارنے کے بعد اسے واٹس ایپ اور ای میل پر بھیجنے کے بعد بلیک میل کرتے ہوئے دو لاکھ ڈیمانڈ کی۔ نہ دینے کی صورت میں نتائج بھگتنے کو بھی کہا ہوگا۔ اس بلیک میلنگ کی شکایت لڑکی کے اہل خانہ نے سی پی ایل سی کو دی جس کے بعد ملزم کوگلستان جوہر سے گرفتارکیا گیا۔ ملزم کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر سامان بھی قبضے میں لے لیا گیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ لڑکی کی ’’قابل اعتراض‘‘ تصاویر اتارکر بلیک میلنگ کی راہ ہموار کی گئی، اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات تسلسل سے منظر عام پر آئے ہیں۔ اخبارات میں صرف وہ واقعات آتے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ورنہ ایسے بیسیوں واقعات آئے دن (آئے روزکی اصطلاح غلط ہے) رونما ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ ان واقعات میں کسے مورد الزام ٹھہرائیں گے؟

والدین کو، میڈیا کو یا شتر بے مہار آزادی کو؟ تو میں یہ کہوں گی کہ ذمے دار تو سب ہی ہیں، لیکن سب سے زیادہ ذمے داری خود والدین کی ہے۔ لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی کا کہہ کرکہاں جاتی ہیں اور کن چکروں میں پھنستی ہیں۔ ظاہر ہے ’’قابل اعتراض‘‘ تصاویر سڑک پر تو نہیں اتاری گئی ہوں گی، کس ماحول میں اتاری گئی ہوں گی، اس کا اندازہ سب کو خوب اچھی طرح سے ہے۔ آج کل لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ بہت گمبھیر ہوچکا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ لڑکوں کی کمی ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ امیر لڑکوں سے شادی کی خواہش میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ معیار اب خاندان، تعلیم اور شرافت نہیں ہے بلکہ صرف پیسہ ہے ۔ لڑکی اور لڑکی کے والدین کی ڈیمانڈ ہے کھاتا پیتا گھرانہ، جن کا اپنی ذاتی گھر ہو، نوکری اچھی ہو، خواہ اوپر کی آمدنی ہو۔ شادی کے بعد لڑکی ایک ہفتے ہی میں الگ رہنے کی فرمائش پوری کروالے گی، کہ شادی کے بعد لڑکے کے دماغ میں ساس صاحبہ کا تیار کردہ سافٹ ویئر لڑکی کے ذریعے فٹ کردیا جائے گا۔ جو تیزی سے اپنا کام پہلے دن ہی سے شروع کردے گا۔

ایک اور بات میں نے نوٹ کی ہے کہ والدین خصوصاً مائیں اپنی بیٹیوں کو اس لیے بھی آزادی دیتی ہیں کہ وہ من پسند رشتہ تلاش کر کے ماں باپ کی فکریں دورکردیں۔ اسی گورکھ دھندے میں پھنس کر بہت سی لڑکیاں گناہ کی دلدل میں پھنس جاتی ہیں، جب ہوش آتا ہے تو سب کچھ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ بے جا آزادی اور فیشن کے نام پر بے حیائی اور بے حجابی بہت بڑھ گئی ہے۔ ایسے شرمناک واقعات کی ذمے داری کافی حد تک میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جس طرح مخرب اخلاق فلمیں لوگ پیسہ کمانے کے لیے بناتے ہیں، اسی طرح اب پاکستانی ڈرامے بن رہے ہیں۔

اپنی تہذیب، ثقافت، ادب آداب سب کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے، شلوار غائب ہوگئی، ٹراؤزر آدھی پنڈلیوں تک سکڑ گئے، دوپٹہ بہت پہلے غائب ہوچکا تھا، اب نیا چلن جینز ٹی شرٹ، ٹائٹ پینٹ اور شرٹ کو مقبول بنایا جا رہا ہے۔ خواہ لڑکیاں ہوں یا بڑی عمر کی خواتین دوپٹہ ان کے لیے بھی شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔ کیونکہ یہ رائٹرز پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز کی ڈیمانڈ ہے تاکہ کم لباسی کی بنا پر دیکھنے والوں کی تعداد بڑھے۔ بغیر دوپٹہ، بڑے گلے اور بغیر آستین کے لباس والے ڈراموں کو اشتہار بھی زیادہ ملتے ہیں ۔ ان ڈراموں کی کہانیوں کے پلاٹ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے۔ اپنی پسند کی شادی، ماں باپ کی نافرمانی، گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنا آج تقریباً ہر ڈرامے کا موضوع ہے۔

نوجوان نسل ان ڈراموں کے کرداروں سے متاثر ہوکر اپنا حلیہ بھی ویسا ہی کرلیتی ہے۔ اور ہمارے لال بجھکڑ دانشور اسے پڑوسی ملک کی ثقافتی یلغار کہہ کر سارا ملبہ بھارت پہ ڈال دیتے ہیں۔ بہت خوب! آپ کی ثقافت اتنی کمزورکہ پڑوسی ملکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی؟ یا ریٹنگ بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خواتین کا لباس ڈراموں میں، اشتہاروں میں کم سے کم کردو جسمانی اعضا کی بھرپور نمائش کرو تاکہ ناظرین اشتہاروں کے وقت چینل نہ تبدیل کریں، مجھے کہنے دیجیے کہ معاشرہ اخلاقی طور پر پسماندگی کی طرف جا رہا ہے۔

شاپنگ مال، سپر مارکیٹیں، تفریح گاہیں، پیزا پوائنٹ اور برگر شاپس سمیت مختلف شاپنگ سینٹرز اور آرٹ گیلری میں نوجوان جوڑے بے محابا پھرتے نظر آتے ہیں، بعض جگہ دھڑلے سے سگریٹ پیتے اور دھواں اڑاتے بھی دکھائی دیں گے۔ شہر کے پوش علاقوں میں یہ بے محابانہ نظارے عام ہیں۔ لڑکوں نے جوڑے اور پونی ٹیل باندھ رکھی ہے۔ ہاتھ میں کڑا، لمبے بال، بس ناک میں لونگ کی کسر رہ گئی ہے۔ وہ بھی جلد پوری ہوجائے گی، ادھر لڑکیوں نے مردانہ کپڑے پہن کر اپنی نسوانیت کی توہین کی ہے۔

جب مخلوط پارٹیوں میں نوجوانوں کو اجازت ہوگی کہ وہ جس طرح جی چاہے دل بہلائیں تو پھر دیگر جرائم کی طرح سائبر کرائم میں بھی اضافہ ہوگا، دو تین سال پہلے بھی بلیک میلنگ کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔ خاتون ایک کمپنی میں کام کرتی تھیں، اسی دوران ان کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی تھی۔ پھر یہ ملاقاتیں بڑھیں اور فلیٹ تک پہنچ گئیں نوجوان نے ان کی بھی ’’قابل اعتراض‘‘ تصاویر بناکر انھیں دکھائیں اور سوشل میڈیا پہ ڈالنے کی دھمکی دے کر اپنے ناپاک عزائم میں ساتھ دینے کا کہا تھا۔ خاتون کچھ عرصہ تو بلیک میل ہوئیں، پھر ہمت کرکے والدین کو بتایا، والدین نے پولیس کو اطلاع دی۔ اس طرح وہ بلیک میلر پکڑا گیا تھا۔

لیکن ان سب واقعات کے باوجود نہ والدین کو سمجھ آرہی ہے نہ اولاد کو، ماڈرن کہلانے کے جنون میں اپنی ثقافت، اپنی تہذیب اور اپنی روایات سے روگردانی ایک بہت بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ وہ زمانے گئے جب باپ بھائی کی موجودگی میں لڑکیاں دوپٹے سنبھال کر اوڑھتی تھیں۔ میں نے خود کئی گھرانوں میں یہ مناظر دیکھے کہ باپ بھی موجود ہیں اور چچا بھی اور لڑکیاں چست ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں گھوم رہی ہیں۔ نہ باپ نے تنبیہ کی نہ ماں نے ٹوکا، چچا تو مہمان تھے وہ بھلا کیا کہتے؟

معاشرے میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ مخلوط تعلیمی اداروں اور کوچنگ سینٹروں کا قیام ہے، جو عمریں لکھنے پڑھنے کی ہوتی ہیں اس میں لیلیٰ مجنوں کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک اسکول میں لڑکی اور لڑکے نے خودکشی کرلی تھی، کیونکہ لڑکے کے ماں باپ رشتہ کرنے پر رضامند نہیں تھے۔ لڑکے نے پہلے لڑکی کو شوٹ کیا پھر خود کو ہلاک کیا۔ بھلا سوچیے اسکول جانے والے بچوں کی عمریں ہی کیا ہوتی ہیں۔

میٹرک میں بھی پندرہ یا سولہ سال۔ لیکن شتر بے محار میڈیا کی بدولت اور موبائل فون کی برکت سے نوجوان نسل پڑھنے کے بجائے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ نشہ بھی ان کی زندگیوں میں داخل ہوگیا ہے ۔ میں نے نویں کلاس کے طالب علم کو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ جو خود بھی یونیفارم میں تھی کھلے عام سگریٹ کے کش لیتے دیکھا ہے۔ میرے ٹوکنے پر اس نے صرف یہ کیا کہ سگریٹ کو جوتے سے مسل کر پھینک دیا اور وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ جاکر بیٹھ گیا۔ لڑکی کے یونیفارم پر اس کے اسکول کا نام اور کلاس لکھی تھی، لیکن اسے نہ کسی کا ڈر تھا نہ خوف۔ اخلاقی کرپشن اب کوئی بری بات نہیں رہی۔ یہ ایک المیہ ہے جس سے والدین غافل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔