مغرب و مشرق میں نکاح کا مسئلہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 9 اکتوبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

موجودہ دور میں نکاح کرنے سے متعلق بہت سے نظریات ہیں۔ ایک نظریہ ان لوگوں کا ہے کہ جو نکاح کو ضروری ہی نہیں سمجھتے ہیں اور جو لوگ نکاح کے حامی ہیں ان کے نظریات میں یہ تفریق ہے کہ کس عمر میں نکاح کیا جائے؟ مثلاً پاکستان میں قانون بن چکا ہے کہ اٹھارہ سال سے قبل نکاح کرنا اور کرانا ناقابل ضمانت جرم ہے۔ (حالانکہ مذہبی نقطہ نظر رکھنے والوں کے نزدیک یہ قرآن و سنت کی کھلی خلاف ورزی ہے)۔

مغربی ممالک پر نظر ڈالیں تو نیوجرسی میں اٹھارہ سال عمر مقرر کرنے کا قانون بنانے کی کوشش کو حکومت نے یہ کہہ کر ختم کردیا کہ یہ قانون مذہبی روایات سے بھی متصادم ہے اور اس سے خدشات ختم نہیں ہوسکتے ہیں۔ فلوریڈا میں ہر سال تقریباً تین سو پینسٹھ شادیاں سولہ سال سے کم عمر میں ہوتی ہیں، ’اڈیاہو‘ میں گزشتہ گیارہ برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب شادیاں سترہ برس سے کم عمر میں ہوئیں۔

الاسکا، لوزیانہ اور ساؤتھ کیرولینا میں بارہ سال کی عمر تک میں بھی شادیاں کرنا عام بات ہے۔ امریکا میں والدین کی مرضی سے کم عمری میں شادیوں کی قانونی اجازت ہے۔ امریکا کے اعدادو شمار کے مطابق 2014 میں 57800 شادیاں پندرہ سے سترہ سال کی عمر میں ہوئیں۔ فلوریڈا میں روزانہ سولہ برس کی عمر میں ایک شادی ہوتی ہے۔ امریکا کی ستائیس ریاستوں میں کم عمری میں شادی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا ہے۔

مذہبی اعتبار سے جب ایک انسان بالغ ہوتا ہے تو فوراً اس بات کا حقدار ہوجاتا ہے کہ وہ نکاح کرکے اپنی نئی زندگی اختیار کرے، چنانچہ مذہبی گھرانوں میں اولاد کے بالغ ہوتے ہی نکاح کی ذمے داری سے فارغ ہونے کے لیے رشتوں اور مناسب وقت کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ اگر مذہب سے ہٹ کر اس بات کا جائزہ لیں کہ ایک انسان کی فطری ضروریات کب شروع ہوتی ہیں تو سائنسی اور فطری اعتبار سے بھی سیکنڈری اسکول میں پڑھنے والے بچے بالغ پن کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، موسمی اور جغرافیائی لحاظ سے بعض ممالک میں بچے ساتویں تو کہیں آٹھویں اور کہیں نویں جماعت ہی میں بالغ ہوجاتے ہیں۔

اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان کب شادی کرے؟ اس کا جواب مشرق و مغرب میں مختلف لوگ مختلف رکھتے ہیں، مثلاً کچھ بارہ برس، کچھ پندرہ سولہ برس اور کچھ پچیس وتیس یا اس سے زائد عمر میں نکاح کے قائل ہیں۔

بات یہ ہے کہ نکاح جتنی دیر سے کیا جائے، نکاح ہونے تک ایک بالغ کو خود پر کنٹرول کرنا اتنا ہی زیادہ مشکل ہوتا ہے، آج کل کے بچے دن رات کیبل، انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، جس پر لمحہ بہ لمحہ فحش مواد خودبخود آتا ہے۔ گوگل اور برطانیہ کے ایک ریسرچ ادارے کی مشترکہ تحقیقات کے مطابق ایک بچہ چھ سال کی عمر ہی سے اس لت کا شکار ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں جذبات پر قابو رکھنا آسان نہیں، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں اسکول میں پڑھنے والے بچے اور بچیاں غلط معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

جہاں مخلوط تعلیمی نظام (کو ایجوکیشن) اور ملازمت کا ماحول ہوتا ہے، وہاں یہ سب کچھ آسانی سے ہوتا ہے اسی لیے کراچی شہر میں بعض نامور اسکولوں نے ’کو ایجوکیشن‘ ختم کردی کہ سب بچے بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کس کو کیا کہا جائے؟

مغرب میں تو عام طور پر مذہب کے بجائے عقل کو اتھارٹی سمجھا جاتا ہے لہٰذا اس معاشرے میں نکاح سے پہلے تعلقات قائم کرلینا کوئی معیوب بات نہیں البتہ مشرق خصوصاً مذہبی نظریات رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے یعنی ہمارے ہاں ایک واجبی سا مسلمان جو خود کو بڑا لبرل، روشن خیال تصور کرتا ہے، عورتوں کو گھر سے باہر لانے اور بغیر پردے کے مغربی لباس میں گھوم پھرنے کو بھی اچھا سمجھتا ہے، لڑکے لڑکی کی باہمی دوستی کو بھی برا نہیں سمجھتا، لیکن وہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیٹی دوران تعلیم اس حوالے سے کوئی مسئلہ کھڑا کردے۔

(ایک بڑے معروف لبرل دانشور، کالم نگار جو کسی ’چوراہے‘ پر پروگرام بھی کرتے ہیں، انھوں نے اپنے ایک کالم میں یہ تسلیم کیا کہ جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھتے اور کوئی انھیں یہ کہہ کر اٹھا دیتا تھا کہ یہاں کا ماحول گندا نہ کرو تو انھیں بہت برا لگتا کہ یہ اسلام کے ٹھیکیدار کہاں سے آگئے، مگر اب جب ان کی بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ ایسے اسلام کے ٹھیکیدار یونیورسٹی میں ضرور ہونے چاہئیں)۔

بات یہ ہے کہ ہم نے سارا زور نکاح نہ کرنے پر لگا دیا، یہ فیصلہ دے دیا کہ جلد نکاح سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، انسان ’میچور‘ نہیں ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ دو برس قبل کراچی میں ایک اسکول کے طالب علم نے جو کسی طالبہ سے محبت کرتا تھا، خودکشی کرلی۔ ظاہر ہے اس عمر میں تو ہم نکاح کے قائل ہی نہیں، قانون بھی اجازت نہیں دیتا تو پھر ایسے طلبا اور طالبات کیا کریں؟

مغرب نے تو اس کا حل نکال لیا ہے کہ وہ خوشی اور باہمی رضامندی سے کیے گئے کام کو غلط نہیں سمجھتے، بلکہ وہ تو بغیر نکاح کے تعلقات کو اچھا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اپنائیں، حالانکہ اس میں عورتوں کا استحصال، جب کہ مردوں کی عیاشی پوشیدہ ہے۔ نکاح ایک ایگریمنٹ ہے جس کے تحت مرد پر مذہبی اور قانونی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ ہالینڈ کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ دوسری شادی وحشیانہ عمل ہے، انھوں نے یہ نہیں کہا کہ ایک سے زائد خواتین سے تعلق رکھنا وحشیانہ عمل ہے، حالانکہ دونوں صورتوں میں ایک مرد دوسری خواتین سے تعلق قائم کرتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ شادی میں اعلانیہ اور تحریری طور پر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کون اس کی بیوی ہے اور اس کے اب کیا قانونی اور مذہبی حقوق ہیں۔

بہرحال نکاح کا معاملہ کئی طرح سے ہمارے لیے ایک گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے، ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پہلے اولاد ماسٹرز کی ڈگری تو حاصل کرلے، پھر رشتہ تلاش کریں گے، اس کے بعد لڑکیاں یہ سوچ کر ملازمت کرلیتی ہیں کہ پھر ڈگری کا کیا فائدہ۔ یوں ایک بڑا وقت گزرنے کے بعد رشتہ تلاش کیا جاتا ہے۔

لڑکوں میں ایک رحجان یہ بھی ہے کہ پہلے اچھی ملازمت مل جائے پھر شادی کا سوچیں گے۔ اس طرح لڑکے لڑکیوں کی عمر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی تیزی سے گزرتی جاتی ہے اور نتیجے میں اچھے اور مناسب رشتے ملنے کے چانس کم سے کم ہوجاتے ہیں، ایسے میں اگر پینتالیس یا پچاس سال تک عمر پہنچ جاتی ہے، اب اگر شادی ہو بھی جائے تو دیگر مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں مثلاً اولاد ہونے کے چانس نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر ہو بھی جائے تو اولاد جب تک جوان ہوکر سہارا بنے گی تب تک آپ بوڑھے یعنی ستر، اسی سال کے ہوچکے ہوں گے۔

جو لوگ درست وقت پر شادی کرلیتے ہیں ان کی چالیس پینتالیس سال کی عمر میں ہی اولاد سہارا بن جاتی ہے، اور جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں انھیں عمر کے آخری حصے میں کوئی دوا دینے والا خونی رشتہ بھی بمشکل ملتا ہے کہ ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن ہوتا ہے، کسی کے پاس دوسرے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ کچھ تعداد شادی کے لیے بڑی رقم نہ ہونے کے باعث نکاح نہیں کرتی، حالانکہ سادگی کے ساتھ شادی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

ماضی کی ایک فلمی اداکارہ کا کہنا تھاکہ جوانی میں اس قدر رنگین ماحول تھا کہ شادی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا، مگر اب احساس ہوتا ہے کہ انسان کا سب سے اہم کام جوانی میں ہی شادی کرنے کا ہوتا ہے، ورنہ صرف پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔ آیئے اس اہم مسئلے پر غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔