پاکستان میں سماجی تبدیلی

مقتدا منصور  پير 9 اکتوبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جدید دنیا میں سماجی تبدیلی کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔ کارل مارکس کے مطابق ’’پیداواری ذرایع میں رونما ہونے والی تبدیلی انسانی معاشروں کی سیاسی، سماجی اور فکری سمت کا تعین کرتی ہے‘‘۔ جب کہ کچھ ماہرین عمرانیات کے نزدیک آبادیاتی عنصر سماجی تبدیلی کا موجب ہوتا ہے، جس میں انسانوں کی نقل مکانی یعنی In-migration اور out-migration کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

بیسویں صدی کی آخری چند دہائیوں کے دوران سیٹلائیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ نے معلومات کی عوام کے ہر طبقہ تک رسائی کو ممکن بناکر سماجی تبدیلی کے لیے بیرونی عامل کا کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ متذکرہ بالا تمام نظریات دراصل کارل مارکس کے سماجی تبدیلی کے نظریہ کی توثیق اور توسیع ہیں۔

اس موضوع پر بحث کی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر انور شاہین کی نئی کتاب ’’پاکستان میں سماجی تبدیلی، نوعیت، عوامل اور رجحانات‘‘ منظرعام پر آئی ہے۔ یہ کتاب 10 ابواب پر مشتمل ہے، جن میں پاکستانی سماج اور ثقافت: قدامت سے جدیدیت کو گامزن، پاکستان میں ریاست اور سول سوسائٹی کے روابط اور تقسیمی عدل: گزشتہ عشرے (2006-15) کا جائزہ، تبدیلی کے سفر میں ہم سفر: غیر سرکاری تنظیموں کا ایک تحقیقی جائزہ، سفر در سفر، رہگزر در رہگزر، پاکستان کے خانہ بدوش، عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن اور ہماری معاشرتی بے حسی، لک چھپ جانا: پاکستانی بچوں کے معدوم ہوتے ہوئے لوک کھیل، سماجی تبدیلی اور تعلیمی نصاب کا ربط باہم، پھالیہ شہر: ماضی کی بھولی ہوئی داستان، منڈی بہاالدین کی ایک سڑک ایک کہانی، سماجی تبدیلی: ارتقا یا انقلاب، ایک تبصراتی مطالعہ۔

کتاب کے سر آغاز میں معروف سماجی دانشور، قلمکار، پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے سابق ڈائریکٹر اور ڈاکٹر انور شاہین کے جیون ساتھی ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں ’’یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں یا ان کے اچھا یا برا ہونے کے حوالے سے کوئی حکم لگانا اتنا آسان نہیں۔معاشرتی تبدیلیاں بنیادی طور پر ملک کی معیشت، نظام مواصلات، ابلاغ عامہ کے ذرایع، سائنس وٹیکنالوجی اور سیاست، الغرض مختلف مادی عوامل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا اظہار نئے نفسیاتی رجحانات اور نئی اقدار کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ ہر نئی تبدیلی اپنے اچھے یا برا ہونے کا معیار بھی خود ہی طے کرتی ہے۔ چنانچہ ایک زمانے کی تسلیم کردہ خوبیاں ضروری نہیں کہ بعد کے زمانے میں بھی خوبیاں تصور ہوں۔ اسی طرح ایک دور کی تصور کردہ برائیاں دوسرے دور میں ضروری نہیں کہ اسی طور پر دیکھی اور سمجھی جاسکیں۔ قدریں بدلتی رہتی ہیں اور اسی حوالے سے معاشروں کا اخلاقی نظام بھی روبہ تبدیلی رہتا ہے‘‘۔

اس کتاب کے پہلے باب ’’پاکستانی سماج اور ثقافت: قدامت سے جدیدیت کو گامزن‘‘ میں فاضل مصنفہ اس خطے کے بارے میں جو 1947ء میں پاکستان بنا، ماضی اور حال کا تقابل سماجی تصوارت کی روشنی میں کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرہ بیرونی عوامل کے دباؤ میں تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے، جب کہ اندرونی عوامل ہر قسم کی تبدیلی اور بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جدیدیت کا عمل کسی بھی معاشرے میں سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور معاشرتی اعتبار سے ترقی کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے مظاہر میں شراکتی جمہوریت کا فروغ، معیشت کو ضابطوں سے آزاد کرنا، سیکولرائزیشن، رشتوں میں زیادہ سے زیادہ مساوات، ثقافتی اعتبار، موروثی عزت و منصب کا استرداد، انسانی صلاحیتوں اور آدرشوں کی تکمیل اور شہرکاری کے ذریعے روایتی اتھارٹی کے نظام کا زوال شامل ہے‘‘۔

اب اگر ان کے بیان کردہ درج بالا پیراگراف پر گفتگو کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں تیزی سے اربنائز ہوتی آبادی میں شراکتی جمہوریت، سماج کی سیکولرائزیشن اور ضوابط سے آزاد معیشت کے تصورات کے حصول کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے۔ مگر سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا حصہ ان خواہشات کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کی تنظیم کاری میں موروثیت اور قدامت پسندانہ سوچ کا غالب ہونا ہے۔

دوسری طرف ریاست کا قومی بیانیہ (narrative) بھی ان خواہشات سے متصادم ہے۔ جب کہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان ایک مکمل اور بہتر جمہوری معاشرے میں تبدیل ہو۔ کیونکہ اس طرح اس کی ریاستی منصوبہ سازی پر بالادستی ختم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے، کسی معاشرے کو جدیدیت کی جانب راغب کرنے میں تعلیم اور ذرایع ابلاغ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں ریاستی منصوبہ ساز رجعت پسند جماعتوں کی مدد سے نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ذرایع ابلاغ چونکہ کمرشل ازم کا شکار ہے، اس لیے اس سے عوام کی فکری تربیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اس کے برعکس ذرائع ابلاغ (بالخصوص الیکٹرونک) اپنے کمرشل مفادات کی خاطر توہم پرستی اور عسکریت پسندی کے کلچر کے فروغ کا ذریعہ بن گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کا کلچر پروان نہیں چڑھ پارہا۔ نظریاتی انتہاپسندی اور مخالف فکری رجحان رکھنے والوں کے لیے عدم برداشت کے ماحول نے پورے سماج کو آتش فشاں بنادیا ہے۔ ایسے میں معاشرے کی جدیدیت محض جدید ایجادات سے استفادے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے ذرایع ابلاغ کے سماجی ارتقا پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

دوسرے باب میں انھوں نے ریاست اور سول سوسائٹی کے روابط پر بحث کی ہے۔ لیکن ان کا جائزہ صرف ایک دہائی کے جائزے پر محیط ہے۔ جب کہ پاکستانی معاشرے میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں سے سرگرم ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ البتہ ایک فرق یہ آیا کہ ابتدا میں ان تنظیموں کے متحرک اور سرگرم کارکنوں کی اکثریت بائیں بازو سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن امداد دینے والی تنظیموں کی ناپسندیدگی، ریاستی انتظامی اداروں کا دباؤ اور کچھ ان تنظیموں کے منتظمین کی اپنی خواہش کے نتیجے میں بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کی جگہ غیر سیاسی ذہن کے حامل ’’بابوؤں‘‘ کو مختلف ذمے داریاں سونپی جانے لگیں۔ یوں سماجی تنظیمیں، جو عوام کے سیاسی اور سماجی شعور میں کثیرالجہتی اضافہ اور سیاسی جماعتوں کو تحقیقی مواد مہیا کرنے کا ذریعہ بن سکتی تھیں، محض Donor کے اہداف کی تکمیل تک محدود ہوکر رہ گئیں۔

اس کتاب کے دو مضامین خواتین پر تشدد اور سماجی تبدیلی میں نصاب تعلیم کے کردار شامل ہیں، خاصے فکر انگیز ہیں۔ کیونکہ ان دونوں ابواب میںخواتین پر تشدد کو سماجی کلچر کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب کہ سماجی تبدیلی میں تعلیم کے کردار میں Status Quo کی قوتوں کے کردار کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ لیکن دو مضامین ’’پھالیہ کی دیہات سے شہر میں تبدیلی‘‘ اور ’’منڈی بہاالدین کی 20 کلومیٹر طویل سڑک‘‘ میں تحقیقی پہلو کے ساتھ سماجی طرز عمل کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں مضامین شہرکاری (Urbanization) کے عمل کی حرکیات کو سمجھنے کا سبب بنے ہیں۔ کتاب کا سب سے اہم اور روشن پہلو اس کا عوامی حقوق کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دینے والی شہید پروین رحمان کے نام انتساب ہے، جس نے کتاب کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔

مختصراً ڈاکٹر انور شاہین کی اس تصنیف میں پاکستان میں سماجی تبدیلی کا ہر ممکنہ پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ معاشرے میں سماجی تبدیلی کے اشاریوں (Indicators) اور مستقبل میں تبدیلی کی سمت کو سمجھنے میں خاصی حد تک معاون ثابت ہوگا۔ کیونکہ اس کتاب کو تحقیق کے مروجہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عرق ریزی کے ساتھ مستند حوالہ جات کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے، جو قاری کی دلچسپی اور علم میں اضافے کا باعث بنے گی۔ 263 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر نے شایع کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔