ذہنی آوارگی

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 10 اکتوبر 2017
جسمانی آوارگی سے بھی بدتر فکری یا ذہنی آوارگی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جسمانی آوارگی سے بھی بدتر فکری یا ذہنی آوارگی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آوارہ گردی کی دفعہ ماضی میں کبھی پائی جاتی تھی۔ ہم اپنے بچپن میں سنتے تھے کہ فلاں شخص کو آوارہ گردی کے الزام میں دھر لیا گیا کہ وہ رات کے پچھلے پہر بغیر کسی ضرورت کے سڑکوں پر گھوم رہا تھا۔ اب جب سے سوشل میڈیا پر پروان چڑھنے والی نسل مارکیٹ میں آئی ہے تو آوارہ گردی کی جگہ ’’لانگ ڈرائیو‘‘ اور ’’ویک اینڈ ہینگ آؤٹ‘‘ جیسے بظاہر مہذب استعاروں نے لے لی ہے۔

جسمانی آوارگی سے بھی بدتر فکری یا ذہنی آوارگی ہے۔ انسانی ذہن جسم کا مال روڈ ہوتا ہے۔ یہاں سے شاہی سواری کو بھی گزرنا ہے اور کچرے کی ٹرالی کو بھی۔ فکر اور سوچ کو لگام ملنی چاہئے۔ اگر آدمی جو جی چاہے سوچتا پھرے تو اس کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔ کیا چیز میرے سوچنے کے قابل ہے، کیا نہیں۔ انسان جب تک اشیاء کے منفی و مثبت پہلو سوچنے کے قابل نہ ہو، بچہ ہی رہتا ہے۔

ہمارے ملک میں ہر چائے والے کو پتا ہے کہ اگلا چیف آف اسٹاف کسے آنا چاہیے، ہر بال کاٹنے والے حجام کو معلوم ہے کہ اگلا الیکشن کون جیتے گا، ہر موچی کو منسٹری آف کامرس پر مکمل دسترس ہے اور ہر نوجوان کو شرحِ صدر ہے کہ دنیا میں کیا کیا ہو رہا ہے اور ہم کتنے پیچھے ہیں۔ مگر حیرت اس بات کی ہے کہ جو کام وہ خود کر رہے ہیں، وہ کرنا نہیں آتا۔ نہ ڈھنگ کی چائے بنانی آتی ہے، نہ بال کاٹنے، نہ جوتا گانٹھنا اور نہ پڑھنا لکھنا۔

جس طرح غذا جسم کو باقی رکھتی ہے، اسی طرح علم روح کو باقی رکھتا ہے۔ اب ہر کوئی اگر سیاسی معاملات اور فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش کی لائیو کمنٹری میں ہی لگا رہے گا تو پڑھے گا کب؟

یقین جانیے کہ شاخوں کو پانی دینے سے جڑیں گیلی نہیں ہوتیں۔ جب تک آدمی پِتّہ ماری کی محنت نہ کرے، جب تک اسے رات کی سیاہی کو دن کے اجالوں میں بدلنے کا ہنر نہ آئے، نصیبوں کی کالک نہیں دُھلتی۔

ذہنی آوارگی ہمارے معاشرے میں وقت کے ضیاع کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آپ گھر سے کالج پڑھنے کے لئے نکلے، راستے میں کچھ لوگ لڑ رہے تھے۔ آپ رک کر یہ ٹوہ لگانے میں لگ گئے کہ کیا ہوا ہے؟ آگے کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، پھر بارش ہو گئی تو آپ موبائل پر تصاویر لینے میں مشغول ہو گئے۔ پھر فیس بک پر لائیک اور کمنٹس کا سلسلہ چل نکلا۔ پھر کرکٹ میچ، پھر کسی مشہور آدمی یا ایکٹر کا قصہ، پھر سیاسی ہنگامہ آرائی اور آخر میں انڈیا کو دو چار گالیاں دے کر حب الوطنی کا قرض اتار دیا اور دن ختم۔

ان تمام مصروفیات میں جو کام کرنے چلے تھے، بس وہی نہیں ہوا۔

کوئی کتاب پڑھنی ہو، کوئی مضمون لکھنا ہو، کوئی اسائنمنٹ جمع کروانا ہو، والدین کا کوئی کام ہو، کوئی ذکر کرنا ہو، اس بلاوجہ کی ذہنی آوارگی نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ حتی کہ بیوی بچوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی موبائل پر جتے ہوئے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک مصالحہ دار خبروں یا ویڈیوز کی تلاش، پھر انہیں درجنوں لوگوں کو فارورڈ کرنا اور جھوٹی تعریف وصول کرنا؛ لا حول ولا قوۃ۔

اس سے اچھا ہے کہ آدمی مرجائے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کا وقت تو برباد نہ کرے۔

ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ یہ ذہنی آوارگی کی وجہ سے سوچ و فکر کا جو قحط پڑا ہے، اس سے کیسے نکلا جائے؟

آئیے! کوشش کرتے ہیں کہ زندگی سے فضول و لایعنی چیزوں کو ایک ایک کرکے نکالتے ہیں تاکہ وقت میں برکت ہو اور دل لگا کر دھیان سے کچھ کر سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔