ایک مزید سیاسی اُلجھن

عبدالقادر حسن  بدھ 11 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاسی فیصلے عدالتوں، سڑکوں پر نہیں پولنگ اسٹیشنوں میں ہوتے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی غور کرے جمہوریت ہو گی تو انصاف ہو گا اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے عوامی مینڈیٹ قبول نہیں کیا جا رہا۔ یہ سیاسی الفاظ ہمارے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے ہیں ان ارشادات کا مخاطب ان کی پارٹی کے سیاسی مخالفین ہیں انھوں نے نوشہرو فیروز سندھ کے علاقے میں بطور خاص پیپلز پارٹی کو مخاطب کیا۔

اس کے علاوہ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان کو حکومت کے خلاف کسی کی بھی طرف سے کوئی سازش نظر نہیں آ رہی کسی نے ہمارے ممبران توڑنے کی کوشش نہیں کی نواز شریف میرے لیڈر ہیں انھی کی پالیسیاں لے کر چل رہا ہوں پاکستان کے زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ عوام نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ شاہد خاقان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ ایک بات بڑی تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کے سپاہی ہیں اور ان کی ہی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

پالیسیوں میں تسلسل کسی بھی ملک کو آگے لے جانے کے لیے نیک شگون تصور کیا جاتا ہے کہ پالیسیاں ہی ملک کو آگے یا پیچھے لے جانے کا سبب بنتی ہیں بس پالیسیاں ملکی مفاد کے لیے ہونی چاہئیں۔ سیاسی فیصلوں کو وہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر کرنے کے حامی ہیں کہ الیکشن میں جس پارٹی کو بھی عوام چاہیں منتخب کریں اس کے مطابق ہی سیاست چلنی چاہیے لیکن وہ میثاق جمہوریت کے تحت آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو کہ ان کے لیڈر نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے درمیان لندن میں ہوا تھا تا کہ جمہوریت چلتی رہے اور سیاستدان اپنی باریاں لیتے رہیں۔

جب سے میاں نواز شریف کو عدالت کے فیصلے کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب سے الگ کیا گیا ہے نواز لیگ کو میثاق جمہوریت کی یاد بار بار ستا رہی ہے حالانکہ کچھ پیچھے چلے جائیں زیادہ دور کی بات نہیں پیپلز پارٹی کا سابقہ دور حکومت جو کہ اس میثاق جمہوریت کے بعد شروع ہوا تھا اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کس نے عدالت سے نااہل کرایا تھا عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے لیکن بات وہیں پہ آ کے رک جاتی ہے کہ جب خود پر چوٹ پڑے تو سب کچھ یاد آجاتا ہے۔

وزیر اعظم کو اپنی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش نظر نہیں آرہی حالانکہ اس سے پہلے ان کے لیڈر مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور ان کو معلوم ہے کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے لیکن انھوں نے نے بوجہ اس سازش کے کرداروں سے پردہ اٹھانامناسب نہ سمجھا۔ اب یا تو وہ سازش ختم ہو گئی ہے اور یا پھر نئے وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے معاملات کو درست کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ریاست کے مفاد کے لیے ہی کام کریں گے لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم آفس میں معاملات نہایت خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے حکومتی پارٹی کے اسمبلی ممبران بھی وزیر اعظم سے خوش نظر آتے ہیں کہ ان کی جانب دی گئی فائلوں پر فوری فیصلے ہو رہے ہیں پہلے تو فائلیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تھیں کام تو دور کی بات تھی۔

یہ صورتحال وزیر اعظم شاہد خاقان کے لیے تو اطمینان بخش کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے بہت جلد ہی سب کا اعتماد حاصل کر لیا ہے لیکن ان کی پارٹی لیڈر شپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے اس کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کوئی کہتا ہے کہ سکون ہی سکون ہے لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ انتہائی اضطراب کا عالم ہے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے کیفیت وہ ہے جس سے اس کا ایک انتہائی حساس شاعر کبھی گزرا تھا جب ہندوستان پر سے مسلمانوں کی حکومت جا رہی تھی۔؎

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

جب بھی کسی لیڈر پر ایسی بے بسی اور نا امیدی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو یا تو وہ گوشہ نشین ہو جاتا ہے یا پھر وہ اس ناامیدی کو امید اور فتح میں تبدیل کرنے کے لیے نئی منزلیں تلاش کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کے حالات کوئی نئی بات نہیں بات یہ ہے کہ یہ حالات ہمارے سیاستدان اپنے لیے خود پیدا کرتے ہیں اور اپنے ہی پیدا کردہ حالات کا شکار ہو تے ہیں وہ ان حالات سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ بار بار وہی غلطیاں دہراتے ہیں جو ان کی حکومت کے لیے پریشانیاں اور مشکلات ہی پیدا کرتی ہیں اور اس کا فائدہ ان کی اپوزیشن اٹھاتی ہے جیسے آج کل اپوزیشن مزے میں ہے اور حکومت مشکل میں کیونکہ اپوزیشن کرنا دشوار ترین کام ہے عوام کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا فن ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اب اپوزیشن کی مشکل کے دن گزر چکے اور میدان تیار ہو چکا ہے لیکن اس میں مکمل طور پر اپوزیشن کا بھی کوئی کمال نہیں دیوانے نے خود اپنی زنجیر بنائی ہے نادان مشیروں اوران کی مشاورت کے نتیجے میں حکومتی گھبراہٹوں نے یہ میدان تیار کیا ہے سیاسی میدان کے کھلاڑی اپنی مشقیں کر رہے ہیں کیونکہ میچ شروع ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی زمینی حقائق اب واضح نظر آنا شروع ہو چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کون ان زمینی حقائق سے مستفید ہوتا ہے اور کون اس کا شکار بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔