سب مایا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 11 اکتوبر 2017

نپولین نے ہیلینا میں کہا تھا کہ ’’تاریخ ہی واحد حقیقی فلسفہ اور واحد سچی نفسیات ہے‘‘۔ دوسرے مضامین ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے تھے یا ہمیں کیا کرنا چاہیے، لیکن تاریخ وہ علم ہے جو ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ہم گزشتہ چھ ہزار برس میں کیا کرتے رہے ہیں۔ کوئی بھی وہ شخص جو انسانی کارناموں کے اس ریکارڈ سے بخوبی واقف ہو، پہلے ہی آنے والے حوادث، مایوسیوں اور شکست آرزو کے صدمے سے بچ جاتا ہے۔ وہ انسانی فطرت کی کمزوریوں سے آگاہ ہوجاتا ہے۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے موجودہ و سابق نااہل حکمران تاریخ کے ہونہار طالب علم ہوتے تو ہماری ملکی تاریخ موجودہ تاریخ سے بالکل مختلف ہوتی اور آج ہم اس طرح روز شام غربیاں برپا نہیں کررہے ہوتے، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہ کررہے ہوتے، ماضی پر ماتم نہ کررہے ہوتے، حال میں سر پر خاک ڈالے مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے، ہم زندگی کے روز نئے نئے معنی نہ ڈھونڈ رہے ہوتے، ہیرے جواہرات کے ڈھیر نہ جمع کررہے ہوتے، نہ ہی کاغذ کے نوٹوں کے پیچھے اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کررہے ہوتے اور نہ ہی خدا کی زمین پر مصنوعی قبضے کرتے پھر رہے ہوتے۔ خود بھی چین سے جی رہے ہوتے اور اپنے جیسے انسانوں کو چین سے جینے دے رہے ہوتے۔ آئیں حضرت سلیمان علیہ السلام کا اعتراف پڑھتے ہیں۔

حضرت سلیمان ہر شے کو فریب اور مایا قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں ’’میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا، یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد ہے، میں نے عظیم الشان محلات تعمیر کیے، انگوروں کی بیلیں اگائیں، پھلوں اور پھولوں کے باغات لگائے، ان میں انواع و اقسام کے پیڑ اگائے، جو اپنے موسم میں پھلوں سے لد جاتے تھے، میں نے پانی کے وسیع و عریض تالاب بنوائے جن سے میں اپنے باغات کو سیراب کرتا تھا، میرے پاس کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے مویشی تھے، جو یروشلم میں ہر کسی سے زیادہ تھے، سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے، حواس کی لذت میرے گھر کی لونڈی تھی، مرد اور عورتیں میرے اردگرد دلکش گیت گاتے پھرتے تھے، کیف پرور ساز ہر وقت سر بکھیرے رہتے تھے، بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی وہ تمنا کرسکتا ہے، میرے پاس موجود تھیں، میرے پاس لاتعداد خادم اور کنیزیں تھیں بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوا کرتے تھے، میرے دل کی کوئی آرزو، کوئی حسرت تشنہ تکمیل نہیں تھی، لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے، سب کچھ روح کا کرب اور دل کا بوجھ ہے‘‘۔

ہمارے حکمران اپنی ذہنی اور اخلاقی کمتری یا کند ذہنی کے باعث یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندگی میں انھیں حاصل ہونے والی بیشتر نعمتیں اور اعلیٰ منصب حادثاتی ہیں اور یہ کہ حضرت سلیمان کی طرح ہر کسی کو ہزاروں محلات اور ہزاروں بیویاں میسر نہیں ہوسکتیں، وہ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے ایک ایک محل کو ہزارہا بے بضاعت مزدوروں نے تعمیر کیا اور ان کی زبیائش کے لیے اپنا خون اور پسینہ نذر کیا، وہ یہ بھی شعور نہیں رکھتے ہیں کہ تقدیر کے جس اتفاق نے آج انھیں جو عہدے و منصب عطا کیے ہیں اسی کی ایک جنبش کل انھیں کسی کا بھی ایک حقیر اور ادنیٰ غلام بھی بناسکتی ہے، وہ حضرت سلیمان کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں، نہ ان کے پاس حضرت سلیمان جیسی عقل و شعور ہے نہ ہی ان جیسا علم اور حکمت ان کے پاس ہے۔

عظیم مصنف اور فلسفی ول ڈیورانٹ لکھتا ہے ’’تاریخ میں صرف ایک چیز یقینی ہے اور وہ ہے زوال، زندگی میں بھی صرف ایک چیز یقینی ہے اور وہ ہے موت۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب وہ اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے مڑ کے پیچھے دیکھتا ہے تو اسے صرف انسانیت کے مصائب و آلام نظر آتے ہیں۔ زندگی کبھی ہار تسلیم نہیں کرتی، فرد ہار جاتا ہے لیکن زندگی جیت جاتی ہے، فرد کم فہم ہوتا ہے لیکن زندگی کے خون اور بیج میں کئی نسلوں کی حکمت پنہاں ہے، وہ مر جاتا ہے لیکن انتھک اور ناقابل شکست زندگی رواں دواں رہتی ہے، اس کے بھٹکنے، آرزو مندی، منصوبہ بندی، کاوش اور زور آزمائی کو کبھی زوال نہیں آتا۔ یہاں ایک بوڑھا شخص بستر مرگ پر پڑا ہے جس کے اردگرد کھڑے دوست اور بین کرتے ہوئے رشتے دار اسے مزید ہراساں کررہے ہیں۔ یہ کس قدر روح فرسا منظر ہے، ایک کمزور ڈھانچہ جس کا شکستہ گوشت لٹک چکا ہے، ایک خون سے نچڑے ہوئے چہرے میں بے دندان منہ، یہ زبان جو کچھ بول نہیں سکتی اور یہ آنکھیں جو دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ہی وہ موڈ ہے جس پر جوانی کو اپنی تمام امیدوں اور کاوشوں کے بعد پہنچنا ہے۔ اب موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے، اس کے اندر زہر بھر رہی ہے، اس کا سانس روک رہی ہے، اس کے خون کو ناقابل گردش بنارہی ہے، اس کے دل کو بند کررہی ہے، اس کے دماغ کو ماؤف کررہی ہے اور اس کے گلے کو روند رہی ہے، موت جیت گئی ہے، باہر ہری بھری ڈالیوں پر پرندے چہکتے ہیں، مرغ چمن سورج کی حمد و ثنا کرتا ہے، کھیتوں پر نور سحر پھیلتا ہے، کلیاں کھلتی ہیں، شاخیں اعتماد سے اپنا سر اٹھاتی ہیں، زندگی کا رس درختوں کے رگ و پے میں سرائیت کرتا ہے، یہاں بچے بھاگے دوڑے پھرتے ہیں، یہ اتنے خوش کیوں ہیں اور اوس سے بھیگی ہوئی گھاس پر کیوں بے قابو ہوکر دوڑ رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، شور مچارہے ہیں، ایک دوسرے کو دھکیل رہے ہیں، ہانپ رہے ہیں، دھنیگامشتی کررہے ہیں، پھر بھی تھکن کا کہیں نام و نشان نہیں۔ یہ توانائی، یہ جوش و خروش، یہ مسرت، انھیں موت کی کیا خبر ہے؟ یہ بھی مرنے سے پہلے یقیناً سیکھیں گے، بڑے ہوں گے اور جب یہ جہاں گزراں سے رخصت ہوں گے تو اپنے بچوں کی شکل میں موت کی آنکھوں سے دھول جھونکیں گے‘‘۔

میرے مصنوعی زمینی خداؤ! تم سب قریب قریب ستر سال کے ہوگئے ہو، آج نہیں تو کل تمہاری زندگی کی رات ہو ہی جانی ہے اور تمہیں یہاں سے چلے ہی جانا ہے۔ تمہارے جانے کے بعد بھی زندگی اسی طرح سے چلتی رہے گی، تمہای جگہوں پر نئے لوگ آجائیں گے، پھر ان جگہوں پر صرف تمہارا ذکر ہی زندہ رہے گا، تمہاری تصویریں آویزاں رہیں گی، سب کچھ اسی طرح سے جاری و ساری رہے گا، لیکن تم نہیں ہوگے اور تم جہاں ہوگے وہاں ایک ایک بات اور چیز کا حساب دے رہے ہوگے۔ ابھی تمہارے پاس وقت ہے، اس لیے اس میں سے کچھ وقت نکال کر لائبریری جاکر تاریخ پر ایک نظر اچھی طرح سے ڈال لو۔ اس کے بعد بھی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم صحیح سمت میں سفر کررہے ہو تو پھر اپنا سفر اسی طرح سے جاری رکھنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔