بھارت کی ایک سرفروش خاتون صحافی

کلدیپ نئیر  جمعـء 13 اکتوبر 2017

چند روز قبل ایک میموریل تقریب کا اہتمام کیا گیا جو کہ خاصی مایوس کن رہی۔ اس اجلاس میں جو کناڈا کی قتل ہونے والی خاتون صحافی گوری لنکیش کی یاد میں منعقد کی گئی تھی جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس میں بھاری تعداد میں صحافی حضرات آئیں گے خاص طور پر سینئر صحافی لیکن اس میں35,30 سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہوئے اور ان میں بھی صحافیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ سینئر صحافیوں میں ایک عادت ہے کہ وہ اپنے گھروں کے اندر ہی مقید رہتے ہیں اور عام لوگوں سے گھلتے ملتے نہیں۔ مجھے احساس ہے کہ ایڈیٹر حضرات بہت مصروف ہوتے ہیں۔

انھیں اخبار کی منصوبہ بندی اور تدوین میں بہت محنت اور وقت صرف کرنا پڑتا ہے لیکن وہ صحافی جو نچلے درجے میں کام کرتے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں جیسے کہ ان کے پاس بھی وقت کی بہت کمی ہے اور وہ اس قسم کی تقریبات میں شرکت نہیں کر سکتے لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ان تمام صحافیوں کو زمین پر اترنا ہی پڑتا ہے کیونکہ ان کی افادیت بڑی محدود ہوتی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ اخبار میں انھیں تھوڑی سی جگہ مل جائے۔ یہ کالم لکھتے ہیں لیکن اس کا چانس زیادہ لوگوں کو نہیں ملتا اور زیادہ تر صحافی کالم نگاری میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ قارئین ان کو پڑھنا چاہتے ہیں جنہوں نے اصولوں کی بنیاد پر جدوجہد کی ہے جب کہ  ان کی تعداد بہت کم ہے جن کا حوصلہ پست نہیں ہوتا۔ گوری لنکیش انھی میں شامل تھی۔ وہ معاشرے میں زیادتیوں کے خلاف بڑی بلند بانگ آواز بلند کرتی تھی۔

ایک خاتون صحافی ہونے کے ناتے گوری جن آدرشوں پر یقین رکھتی تھی ان کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہونے کا حوصلہ بھی رکھتی تھی۔ اس حوالے سے اسے سوشل ایکٹیوسٹ کہا جاتا تھا۔ وہ ’’کناڈا کے ہفت روزہ گوری لنکیش پتریکا کی ایڈیٹر تھیں۔ ان کی اہمیت کو فروگزاشت نہیں کیا جا سکتا۔ گوری کو دھمکی آمیز پیغامات اکثر و بیشتر مسلسل ملتے رہتے تھے لیکن وہ خوف زدہ ہونے والی نہیں تھی۔ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھی حتیٰ کہ اس کی جان کے لیے واضح خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ گوری لنکیش ہندوتوا کی سیاست کے خلاف بڑی شدید تنقید کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نامعلوم حملہ آوروں نے اس کے گھر کی ڈیوڑھی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

یہ درست ہے کہ شروع میں پورے ملک میں اس کے قتل کے خلاف احتجاج کیا گیا حتیٰ کہ پریس کلب آف انڈیا میں بھی اس کے قتل کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ ایک بے خوف اور آزاد خیال صحافی تھیں جو کہ ہمیشہ حق و انصاف کے ساتھ تن کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ اس کو نہایت وحشیانہ طریقے سے قتل کر کے اس کی آواز بند کر دی گئی۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ ہمارے ملک میں اس قسم کا حملہ ہوا ہے۔

جمہوری معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ بپھرا ہوا ہجوم کسی بھی بے گناہ پر حملہ کر کے اسے مار دیتا ہے۔ علاوہ ازیں ثقافتی‘ اکیڈیمک‘ تاریخی اداروں اور یونیورسٹیوں پر بھی حملے ہوئے بالخصوص نالندہ یونیورسٹی اور نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری پر بھی اس قسم کے واقعات سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ الور‘ دادڑی اور ادھم پور کے واقعات سے سب کو سبق لینا چاہیے۔

گوری لنکیش کے قتل کو اگر 2015میں قتل ہونے والے کناڈا کی صحافی خاتون ایم ایم کلبرجی کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے جو کہ اپنے گھر میں قتل کر دی گئی۔ بجرنگ دل کے ایک لیڈر نے یہ وحشیانہ تبصرہ کیا کہ ہندو دھرم کا مذاق اڑانے والے کو کتے کی موت مار دیا گیا۔

یہ خاتون صحافی بھی اپنی ریاست کی سیاست پر کڑی تنقید کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ کرناٹک کی ریاست نے ترقی پسند اور سیکولر ریاست کا راستہ ترک کر کے فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے۔ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے کرناٹک  میں ہندوتوا کے نام پر ہونیوالے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ریاست بتدریج فرقہ وارانہ فسادات کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ بی جے پی کی حکومت کرپٹ ہے۔ گوری لنکیش آر ایس ایس‘ بی جے پی اور ہندوتوا کے عناصر کے سخت خلاف تھیں اور ان کو قتل کر کے حق و صداقت کی یہ آواز بند کر دی گئی ہے۔

کلبرجی کے قتل کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا حالانکہ اس افسوسناک واقعے پر دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ستمبر 1995ء میں حقوق انسانی کے محافظ جسونت سنگھ کھرلا کو قتل کیا گیا جس کے قاتل کا بھی سراغ نہیں مل سکا اور بھارت میں ایسے واقعات اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔گوری لنکیش کو بخوبی علم تھا کہ اس کا کھل کر بات کرنے سے اس کے خلاف بہت سی دشمنیاں جنم لے چکی ہیں۔ اس نے بی جے پی کے ایک انتہا پسند کالم نویس کی مخالفت کی جو فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دے رہا تھا۔

اپنے ایک انٹرویو میں گوری لنکیش نے کہا کہ بی جے پی ہندو دھرم کی غلط تشریح کر رہی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم ناجائز ہے اور خواتین کو کمتر سمجھنا بھی بالکل غلط ہے۔ بی جے پی کے حامیوں کی طرف سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے بے رحمانہ قتل و غارت کی مخالفت کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ میں ایڈوانی کی رام مندر یاترا اور نریندر مودی کی 2002ء میں مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ یہ ایسی باتیں تھیں جن کی بنا پر انتہا پسندوں نے اسے نشانے پر رکھ لیا۔ 2016ء میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے گوری نے اپنی صحافت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے راز فاش کر دیے ہیں۔

گوری کو پتہ تھا کہ اس کی زندگی کے لیے خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ ہندوتوا بریگیڈ اور مودی کے بھگت اس کے تعاقب میں تھے۔ ان تمام خطروں کے باوجود گوری کے پائے استقلال میں کوئی لرزش پیدا نہ ہوئی۔ اپنے آخری مضمون میں جو اس نے ہفت روزہ گوری لنکیش پتریکا کے لیے لکھا اس میں متعصب اور شرپسند قوتوں کو چیلنج کیا گیا تھا چنانچہ ہندوتوا کی فورسز نے اس کا کام تمام کرنے کا تہیہ کر لیا۔ گوری نے لکھا ’’مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم لوگ میری جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہو اور مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں اپنے دل کی بھڑاس پوری طرح نہیں نکال سکی۔

میرے لیے منگل کا یہ دن بھی منگل کے دوسرے دنوں کی طرح ہی تھا لیکن مجھے اس بات کا احساس نہ ہو سکا کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا اور مجھے میرے قارئین سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا جائے گا۔ جب حملہ آور کی گولی میری چھاتی میں اترتی ہے اور میں خاک و خون میں غلطاں زمین پر پڑی ہوگی تو اس وقت بھی میرے ذہن میں میرے اخبار کے اگلے دن کے ایڈیشن کے بارے میں سوچ گونج رہی ہو گی‘‘۔

یہ درست ہے کہ گوری کو اپنی موت کا پہلے سے ہی پتہ چل گیا تھا لیکن اس نے آخری لمحے تک حوصلہ نہیں ہارا۔ یہ پیشہ ایسا ہے جو حقائق سے اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ گوری صحافیوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتی تھی جو سچ بات کہنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور اس نے وہ کر دکھایا جو اس کے دل میں تھا۔ ہمارے پیشے میں ایسی مثالیں بہت خال خال ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔