ڈو مور

انیس باقر  جمعـء 13 اکتوبر 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

نواز شریف کے پہلے دور حکومت پھر دور جنرل مشرف سے لے کر آج تک امریکا کی حکومت سے یہی آواز بلند ہو رہی ہے (Do More) ڈو مور۔ یہ کوئی مورنی کے ناچ دیکھنے کی استدعا نہیں بلکہ یہ حکم نامہ وہی ہے کہ جس پر پاکستانی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں عمل کرتی رہی ہیں، بلکہ بقول خواجہ آصف کے جو پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں، وہ اس جملے کے مضمرات کو سنتے سنتے تنگ آگئے اور اب وہ No More نو مور کر رہے ہیں۔

مزید وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور انھوں نے کھرے کھرے الفاظ میں امریکی دانشوروں کو سمجھا دیا ہے کہ ہم نے تمہارے کہنے پر سوویت یونین سے جنگ میں پارٹی بن کر ایک بڑی غلطی کی تھی، سو اب ہم اس کا خمیازہ بھگت چکے لہٰذا اب تمہارے کہنے پر ہم اس جنگ کو طوالت دینے پر رضامند نہیں۔ لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ رویہ ناپسند ہے۔

جس کی وجہ سے پاکستانی سیاسی حکمت عملی کو وہ ایک غیر سنجیدہ کارروائی سمجھ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ایک ادارہ جاتی تصادم ہے چونکہ امریکا کو ایسے ملک سے پالا نہیں پڑا جہاں حکومت نہیں بلکہ حکومتیں ہوں لہٰذا امریکا اپنے دو سینئر سیاسی اہلکار پاکستان روانہ کرنے والا ہے جو پاکستان کے لیے خصوصی پروگرام لانے والے ہیں۔ گویا یہ ایک قسم کا انتباہ ہوگا۔

پہلے مرحلے میں امریکی وزیر خارجہ اور دوسرے مرحلے میں وزیر دفاع آنے کو ہے، اس تمام مد و جذر سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صورتحال تشویشناک حد تک مخدوش ہوچکی ہے کیونکہ 8 اکتوبر کو ڈونلڈ ٹرمپ کا جو بیان پاکستانی اخبارات میں شایع ہوا ہے ان سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سی پیک منصوبہ پر تحفظات ہیں۔

کیونکہ پاکستانی سڑک سی پیک کی کشمیر سے گزر رہی ہے جو ایک متنازعہ عالمی مسئلہ ہے۔ دراصل اس وقت ان جملوں میں ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم کی زبان بول رہے ہیں، کیونکہ چند ماہ قبل بھارتی وزیراعظم یہ بیان دے چکے ہیں۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ امریکی قلمدان بھارتی موقف سے متاثر ہے۔ اور تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان سفارتی محاذ پر کمزور رہا اور اب صورتحال عالمی منظرنامے میں کمزور تر ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان میں وزارت خارجہ کا قلم دان تقریباً خالی رہا۔

سابق وزیراعظم خود ہی وزیر خارجہ بنے رہے۔ آخرکار ان تمام ناکامیوں کے پس پشت غیر سیاسی پالیسیوں کا عمل دخل رہا ہے۔ پاکستان میں نہ کوئی وزیر خارجہ رہا ہے اور اب ایک عارضی سیاسی حکومت ہے جس میں سابق وزیراعظم ایسی گفتگو کر رہے ہیں کہ وہ پنجاب کے بے تاج بادشاہ تھے اور ان کو عوام سے دور کردیا گیا ہے۔ پہلے پنجاب کے یہ عوامی لیڈر اس قدر براہ راست تصادم کی راہ پر گامزن نہ تھے۔ مگر جب سے وہ براہ راست چیف ایگزیکٹو نہ رہے تو وہ خود کو عوام سے دور سمجھنے لگے ہیں۔

درحقیقت یہ عوام سے براہ راست قریب کبھی نہ تھے، ماسوائے اس دور سے قبل جب پہلی بار پنجاب کے سربراہ کی حیثیت سے ان کو صدر ضیا الحق نے نامزد کیا تھا اور جہاں تک کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن کر، تو پروٹوکول اور سرکاری مراتب تو خود عوام کے درمیان رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بڑے لیڈر مہان آتما کا خطاب پانے والے لوگ کبھی بھی وزارت کے طلبگار نہیں ہوتے۔ مثلاً مہاتما گاندھی کسی بھی پروٹوکول کے طلبگار نہ تھے، یہ دنیاوی عہدے تو پنڈت نہرو کو ہی پسند تھے۔ عوام کی خدمت کے لیے عہدے نہیں درکار ہوتے، وہ تو سڑکوں کے جال بچھا کر نہیں ان احکامات کو جاری کرکے بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کو پبلسٹی درکار نہیں ہوتی۔

افسوس کا مقام ہے کہ آپ خود کو پنجاب کا لیڈر سمجھ رہے ہیں۔ ایک ملک میں دودھ اور گندم کے دو بھاؤ، کراچی اور لاہور ایک ملک کے دو شہر ہیں مگر حکام ایک نظر سے دیکھنے کے بجائے دو نظروں سے دیکھتے رہے۔ آخر یہ کون سے عوام ہیں جو اسمبلی کی سیٹیں تو لے لیتے ہیں مگر جب دستور سازی کا مرحلہ آتا ہے تو کورم پورا نہیں ہوتا۔ مگر جب کرسی کا مسئلہ ہوتا ہے تو فوری طور پر کورم پورا اور دستور کی شقوں میں ترمیم ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک قسم کا آمرانہ پلس جمہوری انداز ہے جو عوام پر نافذ کیا جا رہا ہے۔

جس کو عام طور پر ملک میں اداروں کے تصادم کا لقب دیا گیا ہے۔ پہلے اس کو اداروں کا تصادم کہا جاتا تھا۔ مگر اب یہ تصادم ملک میں ایک نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پہلے تصادم براہ راست  نہ تھا مگر اب تصادم آمنے سامنے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جو ملک کی سیاسی تاریخ میں زبردست ہلچل مچانے والا ہے۔ درحقیقت اس ہلچل اور تصادم کی وجہ بھی امریکا ہے جس نے مصر کی جمہوری حکومت کو منہدم کر دیا اور اب یہ عمل ایک نئے انداز میں پاکستان میں جاری ہے جو ڈو مور، ڈو مور کی آوازوں سے شروع ہوا اور اب تک نئے انداز میں جاری ہے۔

جمہوری اور سیاسی حکومت جو پاکستان میں کر رہی ہے یہ وہی انداز ہے جو سابق صدر حامد کرزئی افغانستان میں کر رہے ہیں۔ بقول حامد کرزئی امریکی حکومت نے داعش کو افغانستان میں مستحکم کر رکھا ہے، ہیلی کاپٹروں سے اسلحے کی سپلائی جاری ہے۔ یہ بیان غور کرنے پر تعجب خیز لگتا ہے کہ امریکا آخر ایسا کیوں کر رہا ہے اور اس کے اصل مقاصد کیا ہیں۔

کہیں واقعی امریکی دفاعی ماہرین ایسا الزام ڈونلڈ ٹرمپ پر کیوں لگا رہے ہیں کہ وہ مکمل طور پر صدر بننے کے اہل نہیں۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ ہمارے اور آپ کے بس میں نہیں یہ تو امریکا جیسے ملک کے دانشور اور پینٹاگون کے بس میں ہی ہے کیونکہ ٹرمپ وہ تمام کام کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں نہ کرنے کی پرزور حمایت کی تھی۔

ایسے پرپیچ سیاسی حالات میں (ن) لیگ کس سمت جا رہی ہے، ممکن ہے کہ امریکی حکومت کی جس طور سے پاکستانی وزیر خارجہ مخالفت کر رہے ہیں وہ نہایت بچگانہ انداز ہے اور یہی انداز پاکستانی موجودہ وزیراعظم کا بھی ہے۔ خواجہ آصف کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ اگر امریکا ناراض ہوگیا تو روس، چین، ایران اور ترکی ان کے معاون ہوں گے، ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ شام کی جنگ میں پاکستان سعودی خارجہ حکمت عملی پر عمل پیرا رہا ہے جو روس، چین اور ایران کے یکسر مخالف رہا ہے اور یمن جنگ کا حصہ بنتے بنتے رہ گیا اور اسلامی اتحاد گروپ سے اس کا گہرا تعلق رہا۔

اور رہ گیا ترکی، وہ تو ابھی بھی گولن مسئلے میں الجھا ہوا ہے اور فی الحال قانونی طور پر نیٹو کا ایک رکن ہے اور چین شام جنگ میں بھی براہ راست داخل نہ ہوا، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ روس کو آسرا دیتا رہا کہ وہ اپنی فوجیں بھیجے گا۔ مگر چین ایسا نہ کرسکا کہ وہ نیٹو کی عام استعمال کی چیزیں چین بنا رہا ہے اور ایسا کرنے سے اشیائے صرف اور سائبر ٹیکنالوجی کی اکثر اشیا چین میں بن رہی ہیں۔

ہاں چین اور امریکا کے تعلقات میں کہیں کہیں کشیدگی ہے مگر کوئی پابندی نہیں۔ امریکا نے چین پر ایسی پابندی نہ لگائی جیسی روس پر لگائی گئی۔ ایک وقت 70ء کی دہائی میں روس اور چین میں نظریاتی کشیدگی تھی جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مزدوروں اور کمیونسٹ پارٹیوں میں تقسیم کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جو بعدازاں ختم ہوئی مگر پاکستان میں ہمیشہ کامریڈوں پر مظالم ہوئے، حسن ناصر اور نذیر عباسی مقتل کو گئے۔ اور کامریڈوں نے 20 برس بھیس بدل کر زندگی گزاری یہاں تک کہ موت نے دبوچ لیا اور گھر والوں نے خودکشی کی ایک دور ماضی کا ایسا بھی تھا کہ معاشی طور پر کمیونسٹوں کو عسرت میں دن گزارنے پڑے اور چین آج بھی خود کو کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کا ملک کہلاتا ہے۔

لہٰذا یہ سوچنا کہ وہ پاکستان کے لیے تصادم مول لے گا یہ خیال خام ہے جنگی مشقوں سے بھلائی کا کوئی پیغام لینا درست نہیں۔ رہ گیا ایران اور پاکستان یمن پر زبردست اختلافات رکھتے ہیں لہٰذا پاکستان کے وزیر خارجہ معاملات کا تجزیہ کیے بغیر ہی گفتگو کر رہے ہیں۔ اس طرح گفتگو کرنا نادانی ہے اگر امریکا سے زبانی کلامی تصادم جاری رہا تو ملک کو داؤ پر لگانا ہوا۔ اور کھل کر معاشی انقلاب کی راہ اپنانی ہوگی جب کہ ہم قرض کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور ملک میں ادارہ جاتی تصادم کھل کر سامنے آگیا ہے اور آثار ایسے لگ رہے ہیں کہ نام نہاد بورژوا جمہوریت اپنے دن پورے کرچکی ہے۔ اور آنے والا وقت نہایت پرخطر نظر آرہا ہے اور امریکا بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانے کے موڈ میں ہے۔ اسی لیے وہ نفسیاتی دباؤ بڑھانے کے لیے ڈو مور کے نعرے لگا رہا ہے اور ہمارے وزیر خارجہ کے بیانات تصادم کی راہ اپنا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔